کپل شرما… آسمان سے زمین پر کیسے!

 

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
اِن دنوں کپیل شرما خبروں میں ہیں۔ گذشتہ تین برس سے ویسے بھی وہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے‘ اور یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ 2014ء سے 24؍مارچ 2017ء تک جتنی شہرت، مقبولیت، عزت اور دولت اِن کے حصہ میں آئی اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ کہنا بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ ٹیلیویژن کے ناظرین بالخصوص خواتین اِن کی مداح رہیں۔ سونی چیانل پر ان کے شو کے اوقات کے دوران دوسرے چیانلس پر ناظرین کی توجہ کم ہوجاتی ہے۔ کپل شرما اپنے معصوم چہرے، برجستہ مکالموں سادگی سے بھرپور جوابات سے دل موہ لیتے۔ ان کے شو میں ہر نئی فلم کے پروموشن کے لئے بڑے بڑے اسٹار شریک ہوتے۔ امتابھ بچن، شاہ رخ خان، بابا رام دیو سے لے کر نواز صدیقی تک ان کے پروگرام میں شریک ہوئے اور کپل شرما کی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہوگیا کہ چاروں طرف سے دولت کی بارش ہونے لگی۔ وہ ’’کپل شرما شو‘‘ کے ہر ایک ایپی سوڈ کے لئے 50تا 80لاکھ روپئے معاوضہ وصول کرنے لگ گئے۔ اس سال وہ ٹیکس ادا کرنے والے دس سرفہرست ہندوستانی میں شامل ہیں‘ کپل نے 23.9 کروڑ روپئے صرف ٹیکس ادا کئے۔ بہرحال اس وقت ان کا کوئی بھی ہم پلہ کامیڈین نظر نہیں آرہا تھا حالانکہ ان سے زیادہ باصلاحیت کامیڈین موجود ہیں مگر خدا جسے چاہے نوازے‘ کپل شرما بھی قسمت کے دھنی ثابت ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ فلم ساز اور اداکار کی حیثیت سے وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ اس سے ان کی مقبولیت اور مانگ میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ دوسرے کامیڈینس اور اداکار ان کی قسمت پر عش عش کرتے رہے۔ پھر جانے کیا ہوگیا! ایک ہی رات میں وہ آسمان سے زمین پر آگئے۔ حالانکہ انہوں نے جو حرکت کی آسمان اور زمین کے درمیان فضائی سفر کے دوران کی تھی۔ کامیابی اور دولت کے نشے کے باوجود جانے کیوں انہیں شراب پینے کی ضرورت پیش آئی۔ ظاہر ہے کہ شراب پینے کے بعد انسان‘ انسان کہاں رہتا ہے۔ ملبورن میں ایک کامیاب شو سے واپسی کے دوران اپنے مقام اور مقبولیت سے خوش فہمی کے شکار کپل شرما نے ساتھی مسافروں کے ساتھ بدتمیزی شروع کی تو ان کے پروگرام کے ساتھی سنیل گروور نے انہیں خاموش بٹھانا چاہا مگر بدمست ہاتھی کی طرح بے قابو کپل شرما بھلا خاموش کیسے بیٹھتے۔ انہوں نے سنیل گروور کے ساتھ نہ صرف گالی گلوج کی بلکہ اپنا جوتا پھینک مارا۔ علی اصغر نے بچ بچاؤ کی کوشش کی تو انہیں بھی گالیاں سننی پڑیں۔ ظاہر ہے سنیل گروور بھی انسان ہیں‘ اور جب کسی کی اَنا کو ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ اگلا پچھلا نہیں سوچتا۔ ایک فیصلہ کرلیتا ہے۔ انہوں نے کپل شرما شو کو الوداع کہہ دیا۔ کپل شرما کو یہ خوش فہمی تھی کہ یہ شو صرف انہی کی بدولت کامیاب ہے۔ تاہم صرف دو ہی دن سونی انٹرٹینمنٹ کی ٹی آر پی بُری طرح سے متاثر ہوئی جس پر سونی انٹرٹینمنٹ کے مینجمنٹ نے پہلے تو کپل شرما کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے اپنے آپسی اختلافات کو ختم کرکے کپل شرما شو کے تمام فنکاروں کے ساتھ اس کے وقار اور مقبولیت کو بحال نہ کیا تو 106کروڑ روپئے کے سالانہ کنٹراکٹ کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ 3؍اپریل کو سونی نے انہیں ایک مہینہ کی مہلت دی۔ اس دوران کپل شرما کا نشہ بھی اُتر چکا تھا۔ انہوں نے ٹوئیٹر پر سنیل گروور سے معذرت کا اظہار کیا۔ سنیل گروور نے بھی اس کا جواب دیا مگر یہ احساس دلادیا کہ فنکار کو فنکار رہنا چاہئے چاہے وہ کتنا ہی کامیاب کیوں نہ ہو‘ اُسے خود کو بھگوان نہیں سمجھنا چاہئے۔ اس دوران مشہور کامیڈین راجیو سریواستو کی خدمات کو کپل شرما نے حاصل کیا جنہوں نے پوری فراخ دلی کے ساتھ یہ اعتراف کیا کہ وہ سنیل گروور کا متبادل نہیں بن سکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ سنیل گروور شاید ہی دوبارہ کپل شرما شو میں واپس آسکیں گے۔ کپل شرما کے شو اس سے پہلے کامیڈی نائٹ وتھ کپل شرما میں سنیل گروور نے ڈاکٹر مشہور گلاٹی اور رنکو بھابی کے کردار میں اپنی علیحدہ شناخت بنائی ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کپل شرما سے زیادہ باصلاحیت کامیڈین ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ کپل شرما کے رویے سے ناراض ہوکر علیحدہ ہوگئے تھے تاہم واپس آگئے تھے مگر اب وہ بھی شہرت اور مقبولیت کے عروج بام پر ہیں۔ اگرچہ کہ انہیں فی ایپی سوڈ 10تا 15لاکھ روپئے ہی معاوضہ ملتا ہے مگر ان کے چاہنے والوں کی تعداد کچھ کم نہیں‘ اس کا اندازہ اُس وقت ہوگیا جب کپل شرما سے علیحدگی کے بعد انہوں نے دہلی میں تال کٹورا اسٹیڈیم میں اپنے شو کا اہتمام کیا جو غیر معمولی طور پر کامیاب رہا۔ کپل شرما شو کی کامیابی دراصل تمام فنکاروں کی اجتماعی محنت، کوشش اور اپنے اپنے طور پر اپنے کردار میں کھوکر ناظرین کو محظوظ کرنے کا نتیجہ ہے۔ چاہے وہ علی اصغر ہو یا کیکوشردا یا پھر اپنے محاوروں اور بے بحر بے وزن شاعری اور موقع بے موقع قہقہے لگانے والے نوجوت سنگھ سدھو ہی کیوں نہ ہوں۔ کوئی شو ہو یا فلم یا کھیل کا میدان یا کوئی ادارہ، کوئی پراجکٹ حتیٰ کہ کسی قوم اور ملک کی کامیابی و ترقی کا تعلق بھلے ہی کریڈٹ قائد کو یا کپتان کو ملے کھیل کے میدان میں میان آف دی میاچ کوئی ا یک کھلاڑی کیوں نہ ہو مگر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ اجتماعی کاوشوں سے ہی کامیابی ممکن ہے۔
کپل شرما کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہیں بہت جلد ایک سبق مل گیا۔ بہت جلد انہیں ٹھوکر لگی۔ انہیں حالیہ واقعات کی کسوٹی پر اپنے آپ کو پرکھنے کا موقع ملا۔ اگر وہ سبق لیتے ہیں‘ اپنی اصلاح کرتے ہیں‘ فاصلوں کو دوبارہ قربتوں میں بدلنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ ایک بار پھر کامیابی اور ترقی کی راہ پر آگے بڑھتے رہیں گے۔ شہرت‘ مقبولیت اور کامیابی برسات کی دھوپ کی طرح ہوتی ہے۔ کب دھوپ نکلے کب بادلوں کا سایہ ہوجائے کہا نہیں جاسکتا۔ گلیمر ورلڈ یا چکاچوند کردینے والی اس دنیا میں کوئی سدابہار نہیں رہتا۔ ایسے کتنے سوپر اسٹارس ہیں‘ جن کی چمک دمک سے دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی تھیں‘ آج دوسرے ستاروں کو روشنی میں یہ سوپر اسٹارس اپنی چمک دمک کھوچکے ہیں۔ ان میں سے ایسے کئی ہیں جن کے آگے پیچھے پرستاروں کا ہجوم ہوا کرتا تھا۔ آج وہ خود ہجوم میں داخل ہوجائیں تو ان کے چہرے شناسا تو لگتا ہے مگر نام تک ذہن میں نہیں آتا۔
شاہ رخ خان نے حال ہی میں مولانا آزاد یونیورسٹی کے کانوکیشن میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے بڑی اچھی باتیں کہی تھیں‘ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے والد نے انہیں شطرنج کی مثال دی تھی اور انہیں شطرنج کے کھیل کے ذریعہ سمجھایا تھا کہ کبھی معمولی پیادا‘ شاہ کو مات دیتا ہے اور پیادے کے بغیر شاہ اور وزیر ادھورے رہتے ہیں۔ اس لئے انسان کو کبھی کسی کو اپنے سے کمتر اور غیر اہم نہیں سمجھنا چاہئے۔ ایک اداکار، میک اَپ مین، کیمرہ مین، اسپاٹ بوائے کے بغیر بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔
کپل شرما کے واقعہ کا ذکر اس لئے کہ وہ جانے پہچانے ہیں ورنہ ہم اگر اپنے گریباں میں جھانکیں یا اس قسم کے حالات کے آئینہ میں خود اپنا جائزہ لیں تو ہم میں سے ہر ایک فرد کپل شرما ہے جو کبھی کسی کی اَنا، خودداری کو کبھی جان بوجھ کر کبھی اَ نجانے میں ٹھیس پہنچاتا ہے ۔ اکثر ہم مذاق مذاق میں مضحکہ اڑا دیتے ہیں‘ کچھ لوگ ہنس تو لیتے ہیں مگر کتنے دل ٹوٹتے ہیں‘ کتنے دل روتے ہیں۔ کتنے رشتے بکھرتے ہیں۔ اس کا کسی کو احساس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ مذاق میں بھی ایسی بات نہ کہی جائے جس سے کسی کی دلآزاری ہو۔ جہاں تک طنز و مزاح یا کامیڈی کا تعلق ہے‘ یہ صرف اور صرف ایک دوسرے کی تضحیک، توہین، تمسخر پر بھی منحصر ہے۔
بہرحال نہ تو کسی کی دل شکنی ہو نہ کسی کی اَنا کو مجروح کیا جائے۔فرد ہو یا قوم یہ مشتعل ہوتے تب ہی ہیں جب ان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ چاہے وہ تقریر کے ذریعہ ہو یا تحریر کے ذریعہ۔
ہم دوسروں کے جذبات اُسی وقت مجروح کرتے ہیں‘ جب ہم میں برتری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہ احساس تکبر کی علامت ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ تکبر بھرے سر ہمیشہ زمانہ کی ٹھوکروں میں ہوا کرتے ہیں۔ کامیابی، عزت، دولت، شہرت تو آزمائشی مرحلہ ہے‘ پلک جھپکتے شہرت‘ بدنامی میں، دولت افلاس میں بدل جاتی ہے۔ ہماری کامیابی بلاشک و شبہ ہمارے خالق کی مہربانی کی بدولت ہے۔ یہ احساس ہم میں انکساری پیدا کرتا ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو ’’کچھ‘‘ سمجھنے لگتے ہیں تبھی وہی لمحہ ہمارے زوال کا نقطہ آغاز ہے۔ ہماری کیا حیثیت ہے‘ بار بار ہمیں اس کا احساس دلایا جاتا رہا ہے۔ اور دنیا میں رہنے کے اصول بھی ہمیں بتادےئے گئے ہیں۔ اس موقع پر حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحت کو دوہرایا جانا مناسب ہوگا جسے قرآن کریم میں پیش کیا گیا‘
لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلاؤ اور زمین پر اتراکر، اکڑ کر نہ چلو‘ کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا
(سورہ لقمان۔۱۸)
(★ مضمون نگار ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
فون : 9395381226