مسلمانوں میں طلاق کتنی حقیقت؟ کتنا فسانہ؟

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
تین طلاق کے موضوع پر آج کل ہندوستان میں زبردست بحث و مباحثہ جاری ہے ۔ حکومت خم ٹھونک کر اس دعوے کے ساتھ میدان میں آگئی ہے کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس لیے مظلوم اور حقوق سے محروم مسلمان عورتوں کو بچانا اس کی ذمے داری ہے۔ زر خرید میڈیا طوفان برپا کیے ہوئے ہے کہ تین طلاق پر پابندی عائد کی جائے۔ حکومت، میڈیا، مسلمانوں کی مخالفت میں پیش پیش ہندو احیا پرست تنظیموں اور نام نہاد مسلم NGOsکو یہ طوفان برپا کرنے سے پہلے کم سے کم اس کا تو جائزہ لے لینا چاہیے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں سے طلاق سے سب سے زیادہ متاثر کون ہے؟ اور مسلم مطلقہ عورتوں کا تناسب دیگر مذاہب کی عورتوں کے مقابلے میں کیا ہے؟
اس موضوع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی خواتین ونگ کی ذمے دار ڈاکٹر اسماء زہرا کے حوالے سے ایک دل چسپ رپورٹ 8 اپریل 2017 کو منظر عام پر آئی ہے _انھوں نے جے پور (راجستھان) میں بورڈ کی طرف سے منعقدہ تفہیم شریعت ورک شاپ کے موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک رپورٹ کے حوالے سے، جو مسلم مہیلا ریسرچ کیندر اور شریعت کمیٹی برائے خواتین کے اشتراک سے تیار کی گئی تھی، بتایا کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں میں طلاق کا تناسب سب سے کم ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ ایک RTI کے ذریعے کثیر مسلم آبادی کے 8 اضلاع: کنّور (کیرلا) ،ناسک (مہاراشٹرا) ،کریم نگر (تلنگانہ)، گنتور (آندھراپردیش) ،سکندرآباد (تلنگانہ)، مالاپورم (کیرلا) ،ارناکلم(کیرلا) اور پلکّڑ (کیرلا) میں قائم 16 فیملی کورٹس سے 2011 سے 2015 تک کی مدت میں طلاق کا ڈاٹا حاصل کیا گیا۔ اس کے مطابق طلاق کے کیسز کی تعداد مسلمانوں میں 1307،عیسائیوں میں 4827 اور ہندوؤں میں 16505 ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ اسی طرح ملک میں قائم مختلف دار القضاء سے بھی ڈاٹا حاصل کیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ ان میں عائلی تنازعات کے آنے والے معاملات میں سے صرف 3_2 فی صد طلاق سے متعلق تھے اور ان میں سے بیش تر خواتین کی طرف سے دائر کیے گئے تھے۔
انھوں نے اس اہم بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہندوستان کی مختلف قوموں میں طلاق کے علاوہ عورتوں کے اور بھی مسائل ہیں، مثلاً جہیز، گھریلو تشدّد، بچوں کی شادی اور رحم مادر میں مادہ جنین کا قتل، وغیرہ _ان تمام مسائل و معاملات میں مسلمانوں کا تناسب دیگر قوموں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ جو لوگ عورتوں کے غم میں گھل جا رہے ہیں انھیں ان سنگین مسائل کو حل کرنے کی طرف سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کے جتنے واقعات پیش آرہے ہیں وہ بھی نہیں ہونا چاہیے اور جو عورتیں ظلم کا شکار ہورہی ہیں، ان کی تعداد کتنی بھی کم ہو، ان کے حقوق کے تحفظ اور مسائل کے تدارک کے لئے سربرآوردہ لوگوں کو آگے بڑھنا چاہیے، لیکن ڈاکٹر اسما زہرہ کی پیش کردہ یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کے مسئلے پر کس طرح رایی کو پربت بنادیا گیا ہے۔
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
جماعت اسلامی ہند
نئی دہلی