تو مَقالہ ”منہ کالا“ پڑھاجائے گا اطہر فاروقی صاحب!

ڈاکٹر عمر فاروق قاسمی 

ساری زبان کی طرح اردو بھی نہ سیکولر ہے اور نہ مذہب پسند، نہ ہی وہ ہندوؤں کی زبان ہے اور نہ ہی وہ مسلمانوں کی. دراصل وہ اس کی ہے جو اسے چاہتے ہیں۔ سیکولر لوگوں نے اسے اپنایا تو ” کالی شلوار ” اور ” ٹھنڈا گوشت ” بن کر سامنے آئی، پنڈتوں نے اسے اپنایا تو رامائن اور مہا بھارت کے ترجموں کی شکل میں نمودار ہوئی، اور ملاؤں نے اسے گلے لگایا تو ترجمان القرآن، اور تفسیر ماجدی بن کر منصہ شہود پر آئی۔ فلسفی اقبال سے بغل گیر ہوئی تو کلیات اقبال بن کر ابھری، انقلابیوں نے اپنایا تو ” شعلہ وشبنم ” نام پڑ گیا، درد والوں اور غم کے ماروں سے مصافحہ کیا تو کلیات میر بن گئی، بلکہ اس نے مسلمانوں سے بھی رامائن اور بھاگوت گیتا کے ترجمے کرائے اور ہندوؤں کے ذریعے بھی اسلامی تہذیب کی ثنا خوانی کرائی۔ غرض یہ کہ اس کی فطرت میں انکار نہیں ہے، اس کی نازک خیالی اور نزاکت پسندی کا جو بھی خیال رکھے سب کے لیے اس کا دروازہ کھلا ہے. زبان کوئی بھی ہو نہ مولوی ہوتی ہے، نہ ہی پنڈت اور نہ ہی سیکولر یعنی مذہب مخالف!

لیکن ” اردو سیکولر زبان ہے ” اور قومی یکجہتی کی زبان ہے ” رات و دن اس کا نعرہ لگانے کے باوجود آج کے دور میں سچائی یہی ہے کہ اسے صرف اہل مدارس چاہتے ہیں بلا کسی ذریعۂ معاش کی لالچ کے، یہی لوگ اسے ذریعۂ تدریس بناتے ہیں ، بول چال اور مافی الضمیر کے اظہار کے لیے یہ خود بھی اردو سیکھتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی زبان سیکھاتے ہیں اور اس میں انھیں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی ہے، برخلاف دوسرے بیک گراؤنڈ سے آنے والے زیادہ تر اردو مترجمین، اساتذہ اور پروفیسران اردو کے نام پر تنخواہ تو ضرور اٹھاتے ہیں؛ لیکن اپنی ایک اولاد کو بھی اردو کے حوالے سے اپنا قائم مقام بنانا نہیں سوچتے، اردو کے نام پر موٹی موٹی رقم ہضم کرنے والے زیادہ تر یہ حضرات خود ہی اردو سے نابلد ہوتے ہیں، جن کی نہ املا درست ہوتی ہے اور نہ ہی تلفظ. اور جو لوگ اس لائق ہیں کہ وہ تصنیف و تالیف کر سکیں وہ آج کے دور میں اپنے بیک گراؤنڈ سے اپنی تصنیفات کا ایک قاری بھی نہیں چھوڑ کر جاتے، جو صحیح تلفظ کے ساتھ ان کی بلند خوانی بھی کر سکے . ان کی تصنیفات کو بھی پڑھنے والے اور پڑھ کر سمجھ جانے والے یہی فضلاء یا طلبائے مدارس ہوتےہیں۔ کل ملاکر یہی فضلائے مدارس یا ان کے وارثین آج کے عہد میں اردو یا اردو داں کو چاہنے والے ہیں اور آپ کے شعبے کی شان ہیں اور انھی سے شعبے کو خالی کرنا چاہتے ہیں اطہر فاروقی صاحب؟

 چاہنے والوں کی تعداد بڑھائیے، اہل مدارس تو پڑھتے ہی ہیں اہل منادر کو بھی اس کا عاشق بنائیے کون روکتا ہے؟ آج بھی پریم چند، کرشن چندر، رگھو پتی سہانے ، آنند نارائن ملا کی ضرورت ہے؛ لیکن جو اس کے عاشق ہیں یا کم از کم مذہبی بنیاد پر ہی سہی اس سے لگاؤ رکھنے والے ہیں اگر ان سے شعبے کو خالی کرادیا گیا تو یاد رکھیے! شعبے کا صحیح تلفظ کرنے والا بھی نہیں ملے گا۔ “شعبۂ اردو” ، “صوبۂ اردو” بن جائے گا، ” اَساتذہ” ، “اِساتذہ” ہوجائیں گے، ” اخبار” ، “اِکھبار ” ، اور “قاری”، ” کاری” ہوجائے گا. تب آپ کے ارد شعبے میں “غزل ” کو ” گجل” اور ” نظم ” کو ” نجم ” بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی، ذلیل کا لفظ جلیل ہو جائے گا ، اور ” مضمون ” بھی “مجمون ” بولا جائے گا، “شاعرہ “بھی” سائرہ ” بن جائیں گی اور شعبے کا ” کتب خانہ “بھی ” کتب کھانا ” بن جائے گا، اور تو اور پی ایچ ڈی ڈگری لینے والے بھی ” مَقالہ “کی جگہ “منہ کالا ” ہی جمع کریں گے، کیونکہ جس بیک گراؤنڈ والے فضلا سے آپ شعبے کو بھرنا چاہتے ہیں ان میں نوے فیصد لوگ ایسے ہی بولنے اور لکھنے والے ہیں؛ اب آپ ہی بتائیے ! فضلائے مدارس یا ملّاؤں سے اردو کی “معرکہ آرائی ” کراکر اردو کا بھلا کر رہے یا برا؟)

(! نوٹ: مضمون نگار کے ذاتی خیال سے ادارے متفق ہونا ضروری نہیں)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com