جمعیۃ و سنگھ کی ملاقات  یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے!

مولانا ارشد مدنی کی موہن بھاگوت سے ملاقات کے نتائج کیا ہوں گے اور ناقدین کا نقطۂ اعتراض کیا ہے اس سے قطع نظر مولانا کا یہ قدم جرأت و ہمت کی مثال ہے۔

ہم نے اندریش کمار کی دارالعلوم دیوبند آمد کے بعد ایک کالم 

” آر ایس ایس سے مذاکرات ضروری کیوں؟ ” کے عنوان سے لکھا تھا اس کا خلاصہ یہی تھا کہ”سنگھ یا مرکز کا کوئی نا کوئی نمائندہ ہمارے اداروں میں تو آجاتا ہے لیکن ہماری طرف سے کبھی پیش قدمی نہیں ہوتی جبکہ ہندوتوا کی کمر توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری مذہبی قیادتیں بار بار کھلے ماحول میں سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے سربراہان سے ملیں اور انہیں ان کے “وسودیو کٹمب کم” کے نظریہ کی یاد دلائیں۔ اور ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کہیں کہ ہندوستان ہم سب کا ہے اور یہ پیار و محبت سے چلے گا,تکثیریت یہاں کی خمیر میں ہے”۔

ایک جمہوری ملک میں بطور ووٹر بی.جے.پی کا حصہ بننے سے کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے،لیکن خاموشی کے ساتھ آر.ایس.ایس کی آئیڈیالوجی کو پورے ملک اور مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش ایک لمحہ فکریہ ہے جس کا سد باب فوری طور پر ضروری ہے.اور اس کا ایک ہی راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اعلی قیادت اپنی اور سے اسٹریٹجی طے کر کے ڈائلاگ کا آغاز کرے،سبھی مسالک کے رہنما سر جوڑ کر بیٹھیں،

پوائنٹس طے کئے جائیں ،رہنما وفد تشکیل دی جائے اور آر.ایس.ایس کے رہنماؤوں سے علی الاعلان ملاقات کرکے ملک اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں کھل کر بات کی جائے.ہماری قیادت ناگپور جانے کی جرات دکھائے، پھر اگر آر.ایس.ایس اپنے بانی پنڈت ہیڈگوار،گولولکر اور ساورکر کے نظریات پر چلتے ہوئے مسلمانوں کو نیشنلسٹ و راشٹروادی ماننے سے انکار کرتی ہے تو ہماری اور سے اتمام حجت ہوجائے گا اور اگر اس کے برعکس ہوا تو نفرت کی سیاست و مذھب کی بنیاد پر تفریق کے نظریہ پر قائم آر.ایس.ایس کی سو سالہ عمارت مسمار ہوجائے گی اور ملک کے ۱۰۰ کروڑ ہندو کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کریں گے.آر.ایس.ایس جیسی جماعت کے لئے نظریاتی شکست اس کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوگا۔

جمہوریت کی بقاء کے لئے فاشسزم کو مات دینا ضروری ہے اور اس کے لئے دور رہنے اور دور کرنےکی 70سالہ روش,ایک مخصوص پارٹی کی سیاسی غلامی اور ملکی مسائل سے الگ تھلگ رہ کر خود کو محدود رکھنے کی پالیسی کو تیاگ دے کر اب مذاکرات اور دعوت کی پالیسی کو اختیار کرنا ہی شاید وقت کا تقاضا ہے۔

اس سلسلہ کی بنیاد ڈالنے کے لئے مولانا ارشد مدنی صاحب پوری ملت ہندیہ کی جانب سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ اس ملاقات کے پیچھے کن لوگوں کی محنت ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں۔

سردست ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت کے سبھی جماعتوں و مسالک کے نمائندہ وفود کھلے ماحول میں آن ریکارڈ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کریں اور سنگھ اور اس کی سیاسی ونگ  بی جے پی کو یہ محسوس کرائیں کہ ہندوتوا اور ہندو راشٹر واد کو یہ ملک کبھی قبول نہیں کرے گا چاہے ہزاروں بے گناہوں کی لنچنگ کردی جائے یا لاکھوں ہندوستانیوں کو غیر ملکی قرار دینے کی سازش رچی جائے.یہ ملک دستور سے چلے گا اور اس کی پاسداری کے لئے ملک کے سبھی دھڑوں کو دستورہند پر عمل پیرا رہنے کا حلف اٹھانا ہوگا. 

جب تک مذاکرات اور دعوت کا یہ اقدامی طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا اس وقت تک قومی یکجہتی,پیام انسانیت اور ایکتا سمیلن کے نام پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنا شاید اتنا سود مند ثابت نہیں ہوپائے گا۔

مہدی حسن عینی 

ڈائریکٹر دیوبند اسلامک اکیڈمی 

و صدر تنظیم ابنائے مدارس 

دیوبند سہارنپور یوپی 

رابطہ: 9565799937