دار العلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی کی ملت ٹائمز کے ساتھ خاص بات چیت 

دارالعلوم دیوبند صرف ایشا نہیں بلکہ عالم اسلام کا عظیم دینی ، مذہبی اور تعلیمی ادارہ ہے، 1857 میں مسلم حکومت کے خاتمہ کے بعد جب اسلام پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ، شعائر اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا اور علماء نے جب یہ محسوس کیا حکومت کے خاتمہ کے بعد مذہب کا وجود بھی خطرہ میں پڑسکتا ہے ،  ہندوستان کو اندلس بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تو پھر ایک پلاننگ اور منصوبہ بند ی کے تحت 1866 میں دیوبند کی سرزمین پر ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کی ابتداء ایک استاذ اور ایک شاگرد سے ہوئی، پھر ہندوستان کی آزادی سے لیکر شعائر اسلام کے تحفظ تک دارالعلوم دیوبند نے عظیم اور تاریخی کارنامہ انجام دیا، مؤرخین نے برصغیر میں دارالعلوم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے صاف لفظوں میں لکھاکہ ہندوستان کی آزادی اور شعائر اسلام کا تحفظ دارلعلوم دیوبندکی مرہون منت ہے ، دارالعلوم دیوبند برصغیر کا سب سے بڑ اعلمی مرکز اور مسلمانان ہند کی عظمتوں کا مرکز ہے ، ہر دور میں عظیم ترین شخصیات کا اس ادارے سے تعلق رہا ہے ا ور انہوں نے اس کی عظمت و رفعت کو بلندی کے مقام پر پہونچایا ہے ، بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم ناناتوی سے لیکر شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبند ، علامہ انور شاہ کشمیری مولانا حسین احمد مدنی اور قاری طیب رحمہم اللہ تک ایک لمبی فہرست ہے ،حالیہ دنوں میں معروف عالم دین مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم اس ادارے کے نوک و پلک کو سنوار رہے ہیں ، بطور مہتمم دارالعلوم دیوبند کی تعمیر وترقی میں مسلسل مصروف ہیں،اس کے علاوہ آپ ترمذی شریف کا درس بھی دیتے ہیں اور حالات حاضر ہ پر بھی خصوصی دستر س رکھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے حالات حاضرہ ، سیاست میں دارالعلوم کی عدم شرکت،نصاب تعلیم ،میڈیا کی اہمیت ، مدارس کی افادیت سمیت بہت سے اہم اور دلچسپ امور پر آپ سے خصوصی بات چیت کی ہے ، گفتگو کے اہم اقتباسات پیش ہیں قارئین کی خدمت میں(ادارہ)
سوال : دارالعلوم دیوبند جب قائم ہوا اس و قت کے حالات کیا تھے اور کس مقصد کی خاطر دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا؟۔
جواب: دارالعلوم دیوبند کے قیام کا پس منظر یہ ہے کہ انگریزوں کے مکمل تسلط کے بعد شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اعلان فرما دیا کہ یہ ملک اب انگریزوں کا غلام ہوچکا ہے اور اس کے دارالحرب ہونے کا فتوی دے دیا تو آہستہ آہستہ انگریزوں کا تسلط مزید بڑھتا چلا گیا ، ان کا یہ تسلط صرف سیاسی نہیں تھا بلکہ تہذیبی اور مذہبی اعتبار سے بھی و ہ غلبہ چاہتے تھے ، انہوں نے اس کیلئے ہر طرح کے مکر و فریب سے کام لیا، دوسری جانب ملک کو آزاد کرانے کیلئے کوئی کوشش نہیں ہوئی بلکہ یوں کہا جائے کہ لوگوں نے حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے انگریزوں کو اپنا حکمراں تسلیم کرلیا؛ لیکن مسلمان اور بالخصوص علماء انگریزوں کی حکومت سے پریشان تھے اور اس حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے، اس کیلئے مختلف سطح پر جدوجہد کی گئی لیکن کامیابی نہیں ملی، اس کے بعد مسلح جدوجہد کا دور شروع ہوا اور سب سے آخری مسلح جدوجہد والی جنگ 1857 میں ہوئی جو ملک کے مختلف علاقوں میں لڑی گئی ،جس میں شاملی کے میدان میں ہونے والی جنگ بھی شامل ہے ، اس محاذ میں اکابر دیوبند بھی شریک تھے، شاملی میدان کے کمانڈر انچیف مولانا مولانا مہاجر مکیؒ تھے اور مولانا محمد قاسم ناناتویؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ وغیرہ شریک تھے، سوئے اتفاق اس جنگ میں کامیابی نہیں مل سکی اور انگریز مکمل طور پر قابض ہوگئے ،1857 کے بعد انگریز بلاشرکت غیر اقتدار پر قابض ہوگئے، اس ملک کو انہوں نے ایک عیسائی اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی تحریک شروع کردی، یورپ سے پادریوں کی بہت بڑی کھیپ عیسائیت کے فروغ میں مصروف ہوگئی ، اقتدار انہوں نے مسلمانوں سے چھینا تھا اس لئے انہوں نے نشانہ بھی سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہی بنایا، انہیں جیل کی سلاخوں میں بند کیا ، جزیرہ انڈمان میں اسی مقصد کیلئے جیل بنایا گیا ، کچھ دنوں قبل میں نے وہاں جاکر دیکھا ہے کہ کس طرح مسلم علماء کو ستایا گیا ،بہر حال انگریز قابض ہوگئے اور مسلمانوں کیلئے اپنی شریعت اور تحفظ اسلام کی بقاء کی فکر اہم تھی ، لارڈ میکالے کے اس اعلان کے بعد اور زیادہ پریشانی بڑھ گئی کہ ہم ہندوستان میں ایک ایسی نسل تیار کرنا چاہتے ہیں جو رنگ و نسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہو اور ذہن و دماغ کے لحاظ سے انگریز ہو، انگریزوں کے ان خطرناک منصوبوں اور انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے اکابر علماء کرام نے ایک لائحہ عمل طے کرکے 9 سالوں بعد 1866 میں دارالعلوم دیوبند قائم کیا جس کا مقصد شعائر اسلام کا تخفظ اور انگریزوں کی غلامی سے ہندوستان کو آزادی دلانا اور اس سلسلے میں افراد کو تیار کرنا تھا ، چناں چہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے آزادی کی تحریک چلائی اور کئی سارے اکابر ان کے ساتھ شریک رہے ، مہاتما گاندھی کو بھی انہیں اکابر نے مہاتما کا لقب دیکر آزادی کی تحریک میں شامل کیا ، ایک مرتبہ شیخ الہند نے صاف لفظو ں میں دارالعلوم دیوبند کے قیام کے مقصد یوں بیان فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہوئے مدرسہ صرف پڑھنے پڑھانے کیلئے قائم کیا گیا ہے میں جانتا ہوں کہ حضرت الاستاذ نے کس مقصد کیلئے قائم کیا تھا اس کا مقصد یہی تھا کہ آزادی کی تحریک چلانے کیلئے دارالعلوم دیوبند قائم کیا گیا ہے۔
سوال : دارالعلوم دیوبند نے 150 سالوں میں کون سا تاریخی اور انقلابی کارنامہ انجام دیا ہے ؟
جواب : دارالعلوم دیوبند کے کارناموں کی تعداد ان گنت اور بے شمار ہے ؛ لیکن سب سے اہم تین ہے، ایک ہندوستان کو آزادی کی دولت سے ہم کنار کرنا؛ کیوں کہ ہندوستان کی آزادی مولا محمد قاسم ناتاتوی ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبند ،مولانا حسین احمد مدنی وغیرہم کی مرہون منت ہے ، یہی وجہ ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد ہمارے علماء سیاست سے مکمل طور پر دستبردار ہوگئے ، مولانا حسین احمد مدنی نے ڈاڑھی میں خضاب استعمال کرنا بند کردیا اور کہا کہ جہاد کی وجہ سے میں یہ سب کر رہا تھا ، مقصد پورا ہوگیا ہے ہندوستان آزاد ہوگیا ہے، اب سیاست سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ۔ دارالعلوم دیوبند کا دوسرا اہم کارنامہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کا تحفظ اور اس کا فروغ ہے، شعائر اسلام پر عمل کرنے کی بیداری اور مسلم سماج کو شریعت کی راہ پر باقی رکھنے کی کوشش ہے ۔ تیسرا اہم کارنامہ باطل قوتوں کا دفاع اور اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا بروقت جواب دینا ہے ، چناں عیسائیوں اور آریہ سماجیوں نے اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کی، اسلام پر اعتراض کیا تو بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم ناناتویؒ اور ان کے رفقاء نے مدلل جواب دیا ۔
سوال : ملک کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے علماء کرام آزادی کے بعد سیاست سے کیوں دستبردار ہوگئے ، ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ پریشان کن حالات کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ علماء سیاست دستبردار ہوگئے، جنہوں نے ملک آزاد کرایا تھا وہ اپنا حصہ لئے بغیر گوشہ نشین ہوگئے؟۔
جواب : دیکھئے سیاست کے دو حصے ہیں ایک پارلیمانی سیاست اور اقتدار میں حصہ لینا ۔ دوسری سیاست اقتدار میں شریک ہوئے بغیر مسلمانوں کے مسائل کو حل کرانا ، مسلمانوں کی آواز بلند کرنا اور ان کے حقوق کی جنگ لڑنا ہے ،چناں چہ علماء نے پارلیمانی سیاست سے خو د کو الگ کیا نہ کہ خارجی سیاست سے ۔ اسی طرح جماعتی سطح پر علماء نے خود کو سیاست سے الگ کیا نہ کہ انفرادی طور پر چناں چہ مختلف افراد نے الیکشن میں حصہ لیا وہ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں بھی جیت کر پہونچ ، آزادی سے قبل جمعیۃ علماء کے نمائند ے ہوا کرتے تھے ، لیکن آزادی کے بعد جمعیۃ اور دارالعلوم کے نام سے الیکشن لڑنے کی پالیسی ختم کردی گئی ؛ لیکن انفرادی طور پر الیکشن لڑنے کا سلسلہ جاری ہے، مولانا ابوالکلام آزاد جمعیۃ کے رکن تھے ؛ لیکن وہ سیاست میں شریک رہے ، سید شہنواز جمعیۃ کے رکن تھے اور عملی سیاست میں بھی متحرک تھے ، مولانا اسحاق سنبھلی، مولانا عبد الروف صاحب، قاسم صاحب اور مولانا سید اسعد مدنی صاحب یہ سب وہ لوگ ہیں جو جمعیۃ سے وابستہ تھے اور پارلیمانی سیاست میں بھی شریک رہے۔ اکابر نے آسام میں بھی ایک سیاسی پارٹی کی تشکیل دی لیکن جماعت کی سطح پر سیاست کرنے سے گریز کیا گیا ، جمعیۃ کے بہت سے اکابر بھی انفراد ی سطح پر پارلیمانی سیاست میں شریک ہوئے ۔
سوال : ہندوستان کے موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کیلئے کیا بہتر ہے ، آیا یہ کہ مسلمان اپنی ایسی پارٹی بنائیں جس کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو یا پھر جو پہلے پارٹیاں ہیں اسی میں مسلمان شریک رہیں جیسے کانگریس ، بی جے پی اور دیگر سیاسی پارٹیاں؟۔
جواب : دیکھئے یہ خالص سیاسی سوال ہے جس پر میں ہر گز اظہار رائے نہیں کرسکتا، دارالعلوم دیوبند نے ہمیشہ خود کو سیاست سے الگ رکھا ہے اور نہ مجھے ایک خادم ہونے کی حیثیت اس پر لب کشائی کرنے کی اجازت ہے ، البتہ ہمارے اکابر نے دونوں طریقے اختیار کئے ہیں کہیں یہ ممکن نظر آیا کہ مسلمان سیکولزم کے مطابق اپنی قیادت میں کو ئی پارٹی تشکیل دیکر کامیابی حاصل کرتے ہیں تو وہ بھی کیا گیا اور دوسر ی پارٹیوں میں بھی شرکت کی گئی۔ جہاں تک میرے علم میں ہے آسام میں سیکولزم کے اصولوں پر چلتے ہوئے ایک مسلم قیادت کا تجربہ کیا گیا اور وہاں کامیابی بھی ملی؛ لیکن عمومی طور پر پورے ملک کا جائزہ لینے کے بعد یہی بات نظر آتی ہے کہ اگر ہم مذہب کے نام پر کوئی پارٹی تشکیل دیتے ہیں تو گویا پس پردہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ بھی مذہب کے نام پر متحد ہوکر سیاست کریں اور ایسی صورت میں ہمارے لئے سیکولزم کے نام پر حقو ق کا مطالبہ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے، اسی لئے ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم مذہب کے نام کی سیاست نہ کریں ، اس طرح کی کوئی پارٹی قائم کریں نہ جس سے غیروں کو خالص مسلم پارٹی ہونے کا احساس ہو، یہ پتہ چلے کہ مسلمان مذہب کے نام پر متحد ہورہے ہیں ، آپسی بھائی چارہ اور محبت کو فروغ دیں، ہاں جو طاقتیں جنونی سیاست میں مبتلا ہے ہم قانون کے دائرے میں اس کا مقابلہ کریں، اپنے حسن اخلاق سے انہیں شکست دینے کی کوشش کریں ۔
سوال : آپ نے ابھی کہاکہ دارالعلوم کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ؛ لیکن دارالعلوم کی پوری تاریخ میں سیاست نظر آتی ہے،آج بھی بہت سے اساتذہ پارلیمانی سیاست میں شریک ہیں ؟
جواب : ہم پہلے کہ چکے ہیں کہ دارالعلوم نے جماعتی سطح پر سیاست میں شرکت سے خود کو علاحدہ کیا؛ لیکن افراد کو اس کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوکر الیکشن لڑسکتے ہیں چناں چہ ہر دور میں دارالعلوم سے وابستہ اکابر اور اساتذہ سیاست میں شریک رہے ہیں، کانگریس سے لوگ وابستہ رہے ہیں، اور آج بھی کچھ لوگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں؛ لیکن یہ لوگ افراد ہیں، ذاتی اور انفرادی طور پر یہ سب کررہے ہیں ؛ انہیں دارالعلوم کا نمائندہ نہیں کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی دارالعلوم دیوبند اپنے کسی استاذ یا دیگر رکن کو سیاست میں حصہ لینے سے روک سکتا ہے۔
سوال : اسلام کے خلاف جو اعتراضات کئے گئے ہیں دارالعلوم کے بانیوں نے اس کا مکمل اور مدلل جواب دیا، آج ایک مرتبہ پھر اسلام کے خلاف اعتراضا ت کئے جارہے ہیں، ان سے نمٹنے کیلئے دارالعلوم دیوبند نے کیا لائحہ عمل طے کیا ہے ۔
جواب : دارالعلو م دیوبند کسی چہار دیواری کا نام نہیں ہے ، دارالعلوم کے فضلاء ایسی طاقتوں کا مکمل دفاع کررہے ہیں اس طرح کے اسلام دشمن عناصر کا مقابلہ کررہے ہیں اور اس کا تعلق براہ راست دارالعلوم دیوبند سے ہی جڑتا ہے ؛ کیوں وہ سب دارالعلوم دیوبند کے ہی فیض یافتہ ہیں۔
سوال : اس میں کوئی شک نہیں کہ دارالعلوم کے فضلاء دنیا بھر میں اسلام کا دفاع کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود مرکزی سطح پر اس طرح کا کام ہونا چاہیے، لوگ چاہتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کوئی میڈیا پینل قائم کرے، کوئی ایسا ادارہ اور شعبہ قائم کرے جس میں اسلام پر اعتراضات کرنے والوں کا دفاع کرنے کا طریقہ بتایا جائے، تربیت کی جائے ، سیاسی، ملی ، سماجی اور تعلیمی امور پر انہیں ڈبیٹ کرنے کا طریقہ سکھایا جائے؟
جواب : دارالعلوم دیوبند میں اس طر ح کی تربیت دی جاتی ہے، یہاں باضابطہ مناظرہ کا شعبہ قائم ہے جہاں طلبہ کو ڈبیٹ کا طریقہ بتایا جاتا ہے اور یہ طلبہ فیلڈ میں جاکر کام کرتے ہیں، اسی طرح یہاں شعبہ رد عیسائیت اور شعبہ تحفظ ختم نبوت قائم ہے، اس کے علاوہ رد عیسائیت ، رد قادنیت اور ہندومت وغیرہ پر محاضرات پیش کئے جاتے ہیں اور ان موضوعات کو تفصیل سے پڑھایا جاتا ہے، پھر ان محاضرات کو پورے ملک میں پھیلا جاتا ہے ، طلبہ کی دلچسپی کیلئے یہاں شریک طلبہ کو انعام بھی دیا جاتا ہے اور اس طرح یہ تمام چیزیں طلبہ کو بتائی جاتی ہے ، چناں چہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہورہے ہیں ، انہیں بنیادوں پر دارالعلوم کے فضلاء ٹی وی چینلوں پر، کانفرنسوں میں، سیمیناروں اور دیگر مقامات پر اسلام کا دفاع کرتے ہیں ۔
سوال : موجودہ وقت کی سب سے بڑی طاقت میڈیا ہے ، اپنی آواز کو دوسروں تک پہونچانے کا سب سے موثر ذریعہ بھی میڈیا ہے، اس میڈیا کے ذریعہ اسلام کو عالمی سطح پر بدنام کیا جارہا ہے ، ہندوستان میں بھی مسلسل عائلی مسائل اور دیگر امور پر مسلسل اسلام کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور مسلم نمائندوں کو دفاع کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے انہیں صحیح موقف پیش کرنے سے روک دیا جاتا ہے اور یوں یہ پیغام جاتا ہے کہ علماء بے بس اور لاجواب ہیں جو اعتراض کیا جارہا ہے وہ صحیح اور درست ہے، شاید اسی بڑھتی ہوئی بدنامی کے پیش نظر دارالعلوم دیوبند نے ٹی وی چینلوں پر ہونے والی ڈبیٹ کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے مسلم علماء اور اسکالرس سے گزارش کی ہے کہ وہ عائلی مسائل پر ہونے والے مباحثہ میں حصہ نہ لیں؛ لیکن اس ضمن میں بہت اہم سوال یہ ہے کہ اس کے حل کیلئے دارالعلوم دیوبند نے کیا سوچا ہے ؟ کس طر ح اس کا دفاع کیا جائے گا ؟ کیوں کہ خاموش بیٹھ جانا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
جواب : دارالعلوم دیوبند کی اپیل کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ باصلاحیت ہیں ، ان کے پاس اعتراضات کا جواب دینے کی مکمل اہلیت ہے، وہ جائیں اور ساتھ میں اپنی شرطیں رکھیں کہ انہیں مکمل وقت دیا جائے ، ان کی باتوں کو کسی ایڈیٹنگ کے بغیر نشر کیا جائے ، لیکن ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے، متعدد معترضین اسلام کے بیچ میں ایک عالم دین کو بیٹھاکر پورے اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے ، ایک سازش کے تحت ذلیل کیا جاتا ہے ، دوسری بات ایسا کبھی ہوتا ہے کہ ’’سپریم کورٹ میں جو مقدمہ زیر بحث ہے اس پر میڈیا میں بحث کی جائے اور سب سے اہم بات یہ کہ میڈیا شرعی مسائل کے بحث کا مقام نہیں ہے ،شرعی مسائل سیکھنے کی جگہ مدرسہ ہے ،مسجد ہے ، دارالافتاء ہے ۔ لوگ وہاں سے رجوع کریں، ہم بحث سے بھاگ نہیں رہے ہیں لیکن بحث اس کے مقام پر ہونی چاہئے، قانون پر بحث کرنی ہے تو عدالت میں ہونی چاہیئے ، نظم و نسق پر بحث کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں ہونی چاہیئے ، اسی طرح کوئی مریض ہو تو اس کو ہسپتال بھیجائے گانہ کہ ٹی وی چینل کے ڈبیٹ میں اس پر بحث کی جائے گی، آپ بتائیں کہ کسی مریض کو ڈاکٹر کے پاس بھیجنے کے بجائے میڈیا میں بھیجا جائے تو کیا اس کا مرض صحیح ہوجائے گا بلکہ ایسا کرنے والوں کو پاگل کہا جائے گا ،ہم ایک بار پھر وضاحت کردیتے ہیں کہ ہمارے بائیکاٹ کا مقصد یہ نہیں کہ علماء اور دانشوارن وہاں نہ جائیں بلکہ اصل مقصد غلط استعمال سے روکنا ہے ، ان مسائل کے حل کی جگہ مدارس اور شرعی ادارے ہیں، وہاں آئیں اور بحث کریں ، ہم ہر ایک سوال کا مدلل جواب دیں گے۔
سوال : حملہ کا جواب اسی انداز میں دیا جانا چاہیے، آج کل ٹی وی چینلوں کے ذریعہ سب سے زیادہ حملہ کیا جارہا ہے تو کیا دارالعلوم دیوبند کو کوئی ٹی وی چینل نہیں قائم کرنا چاہیئے ، یہاں کوئی میڈیا پینل نہیں ہونا چاہیئے جو ان اسلام دشمن عناصر کا بروقت مقابلہ کرسکے ؟
جواب : دارالعلوم دیوبند ایک تعلیمی ادارہ ہے ، کوئی ٹی وی چینل شروع کرنا یا میڈیا ہاؤس قائم کرنا اس کے دائرہ کار میں نہیں ہے، ہاں جو لوگ علاحدہ اور ذاتی طور پر کررہے ہیں، ٹی وی چینلوں، اخبارات ، نیوز پورٹل اور سوشل میڈیا کے توسط سے مسلمانوں کو میڈیا سے جوڑ رہے ہیں، اسلام اور ملت اسلامیہ ہند کا دفاع کررہے ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں اور ہم ان کے کاموں کی ستائش کرتے ہیں۔
سوال : دیگر مذاہب کی تنظیموں کے پاس اپنا چینل ہے، ان کے پاس میڈیا پینل ہے ،ان کے ترجمان ہیں جو ان کی نمائندگی کرتے ہیں ؛ اگر دارالعلوم دیوبند ایک تعلیمی ادارہ ہونے کی وجہ سے خود کوئی چینل قائم نہیں کرسکتا ہے تو کیا دارالعلوم دیوبند کو مسلم تنظیموں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند جیسی تنظیموں سے یہ اپیل نہیں کرنی چاہیئے کہ وہ اس جانب توجہ دیں ، کوئی ٹی وی چینل لانچ کریں ، میڈیا پینل قائم کریں جیساکہ دارالعلوم دیوبند نے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے اسی طرح کی اپیل ان سے بھی کی جائے ؟
جواب : ہم کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند ایک تعلیمی ادارہ ہے، اس کا مقصد مذہبی علوم سے آراستہ و پیراستہ کرناہے اور بس ،ٹی وی چینل لاؤنچ کرنا ، میڈیا ہاؤس قائم کرنا خود ان کے غور کرنے کا موضوع ہے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند کو آپ براہ راست اس کا مشورہ دے سکتے ہیں، اس طرح کا مشورہ دینا ہمارے اختیار میں نہیں ہے ، ہمارا اصل کام تعلیم ہے، نیز یہاں مجلس شوری ہے جو تمام چیزوں کا فیصلہ کرتی ہے ۔
سوال : رابطہ مدارس کا شعبہ کہاں تک کامیاب ہے اور اب تک کتنے مدارس کا دارالعلوم سے الحاق ہوچکا ہے؟
جواب : رابطہ مدارس ملک بھر میں پھیلے مدارس کو مربوط کرنے کیلئے قائم کیا گیا تھا اور آپس میں ربط پیدا کرنا بنیادی مقصد تھا، الحمد للہ ہم اس مقصد میں کامیاب ہیں، تین ہزار سے زائد مدارس مربوط ہوچکے ہیں، صوبائی سطح پر اس کی شاخیں بھی قائم ہیں، اس کے علاوہ ایک مقصد تعلیمی نظام میں مساوات پیدا کرنا، تعلیمی نظام کو بہتر کرنا اور اندورنی نظام کو صاف و شفاف بنانا تھا، اس سلسلے میں جو خدشات پیدا ہوتے ہیں ان سب کو رابطہ کے پلیٹ فارم سے دورکرنا ہے، اس سلسلے میں ہمارا دو نظام مستقل طور پر چل رہاہے اس کی ایک مستقل ورکنگ کمیٹی ہے جس کی سال میں ایک میٹنگ ہوتی ہے جس میں دارالعلوم کے دس اساتذہ، دس اراکین شوری اور پورے ملک کے بڑے مدارس کے 21 اہم افراد شریک ہوتے ہیں، اس کے علاوہ تین سال پر ایک اجلاس عام منعقد ہوتا ہے جس میں تمام مربوط مدارس کے ذمہ داران شریک ہوتے ہیں، اس میں عمومی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے ، اندورنی نظم ونسق کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے اور ملک کے حالات کے پس منظر میں بھی غور کیا جاتا ہے ، اسی طرح مکتب کے بارے میں غور کیا جاتا ہے کیوں کہ تمام مدارس کو مکتب کے قیام کا مکلف بنایا جاتا ہے، سرکاری مداخلت سے باز رہنے کی بھی تلقین کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ مدارس اصول ہشتگانہ پر قائم رہیں ۔
سوال :کچھ لوگ بلا ضرورت مدار س قائم کررہے ہیں، کچھ مدرسے صرف کاغذوں پر چل رہے ہیں، اسی طرح مدارس میں اساتذہ کو نہ تووقت پر تنخواہیں دی جاتی ہیں اور نہ تنخواہ معیاری ہوتی ہیں ،علاوہ ازیں مہتممین اور ذمہ داروں کا سلوک بھی اساتذہ کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا ہے؟۔
جواب: دارالعلوم دیوبند کے رابطہ مدارس میں ان چیزوں کی طر ف توجہ دلائی جاتی ہے ، بلاضرورت مدارس اور مکاتب کے قیام سے گریز کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے ، یہ بھی باربار کہا جاتا ہے کہ تنخواہ معیاری دی جائے ، وقت پر دی جائے اور اساتذہ کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے، ذمہ داران حضرات خود کو خادم سمجھیں ؛ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم صر ف اپیل کرسکتے ہیں عملی طور پر نافذ کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے ، ہمارے پاس قوت نافذہ نہیں ہے ، ان امور کی اطاعت نہ کرنے پر کسی کو سزا دینے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر کسی نے کوئی مدرسہ قائم کرلیا ہے تو ہم چاہ کر بھی اسے بند نہیں کراسکتے ہیں۔
سوال : فقہ کے کچھ مسائل متروک ہوگئے ہیں، جیسے کنویں میں چوہیا گر گئی تو کتنے بالٹین پانی نکالا جائے گا ، اسی طرح غلام باندی وغیرہ کے مسائل ہیں اس کے علاوہ کچھ نئے مسائل آگئے ہیں تو کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ جدید و قدیم مسائل پر مشتمل کوئی نئی کتاب تیار کی جائے اور وہ پڑھائی جائے ۔
جواب : فقہ ایک مستقل علم ہے ، کوئی مسئلہ اگر عملا متروک ہوگیا ہے تو اس کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ علمی طور پر بھی متروک ہوگیا ، ٹھیک ہے آج غلام باندی کے مسائل نہیں ہیں لیکن قرآن پاک کی وہ آیات اور احادیث جن میں اس کے احکامات بیان کئے گئے ہیں ہم اگر اس کی تعلیم بند کردیں تو علم کا ایک بہت بڑا حصہ چھوٹ جائے گا ، جہاں تک نئے مسائل کی بات ہے تو جو علماء قدیم مسائل میں درک رکھتے ہیں وہی نئے مسائل بھی حل کرتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ کسی دار الافتاء سے جدید مسئلہ طلب کیا جاتا ہے توا س کا جواب نہیں ملتا ہے اور یہ جواب دیاجاتاہے کہ ان مسائل سے ہم واقف نہیں ہیں ، درس نظامی کا مقصد کوئی خاص کتاب اور موضوع پڑھانا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اتنی صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ جو بھی مسائل ان کے سامنے آئیں وہ قرآن و حدیث میں اس کا حل تلاش کرسکیں ۔
سوال : جس طرح مذہب اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اسی طرح سائنس اور جغرافیہ بھی اسلام کا حصہ ہے ، پہلے مدارس میں یہ سب چیزیں پڑھائی بھی جاتی تھی لیکن اب ان دونوں میں تضاد کی کیفیت پائی جاتی ہے ایسا کیوں ؟
جواب : دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے ، دراصل ہر نصاب کی ایک خصوصیت ہوتی ہے اور ایک حدتک پہونچنے کے بعد ایک خاص لائن کو منتخب کرنا ہوتا ہے ، یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص ایک ساتھ تمام علوم کا ماہر بن جائے ، چناں چہ اسکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ایک لائن طے کرنی پڑتی ہے کہ طب پڑھنا ہے ، سائنس پڑھنا ہے یا پھر کسی اور سبجیکٹ میں مہارت حاصل کرنی ہے ، اسی طرح مدارس کا مقصد اسلامی علوم و فنون میں مہارت پیدا کرنا ہے ،چناں چہ ابتدائی دینی تعلیم کے بعد منزل طے کرنی پڑتی ہے کہ کیا کرنا ہے ، عصری علوم کا ماہر بننا ہے یا دینی علوم کا ،ایک ساتھ تمام علوم کا ماہر بننا ناممکن ہے اور مشکل ہے ،بہت سے مدرسوں نے اس طرح کے نصاب کو اپنایا ہے ،ان کے یہاں قرآن ،حدیث کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے لیکن یہ نظام ناکام ہے اور تجربہ سے یہی ثابت ہواکہ ایک ساتھ تمام علوم نہیں پڑھائے جاسکتے ہیں ، جہاں تک نصاب تعلیم پر اعتراض کی بات ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ،پہلے بھی اعتراضات کئے گئے ہیں۔
سوال : دارالعلوم میں تفسیر کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے ، جبکہ تکمیلات کے شعبہ میں ادب اور افتاء کو تفسیر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ تفسیر میں داخلہ کیلئے ادب اور افتاء کے مقابلے میں کم اوسط شرط ہے؟
جواب :تفسیر اور ترجمہ قرآن کی تعلیم کا سلسلہ عربی سوم سے ہی مدارس میں شروع ہوجاتا ہے، بہت اہتمام کے ساتھ تفسیر کی تعلیم دی جاتی ہے ،فراغت کے بعد بھی باضابطہ تفسیر کا شعبہ ہے اور اس فن کی اہم کتابیں اس میں پڑھائی جاتی ہیں ،اس لئے شعبہ تفسیر پر کسی اور شعبہ کو ترجیح دینے کا یہاں کوئی سوال پید ا نہیں ہوتا ہے۔
سوال : طلاق ثلاثہ پر جو بحث چل رہی ہے اور جس طرح اس کو ایشو بناکر مسلسل اسلام پر نشانہ سادھا جارہاہے اس سے نہیں لگتاہے کہ اس کیلئے خود مسلم علماء بھی کچھ حدتک ذمہ دار ہیں جنہوں نے اس طر ح کی کوئی بیداری سماج میں پیدا نہیں کی جس کے بنا پر مسلسل اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں؟۔ 
جواب:علماء کی جانب سے بیداری مہم چلائی جارہی ہے ، عوام میں بیدا ی لانے کی ہرممکن کوشش جاری ہے ، جمعہ کے خطبو ں میں بھی اس کو موضوع بنایاجارہاہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے سلسلہ وار تفہیم شریعت کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے ،جمعیۃ علماء ہند نے بھی سہ روزہ تفہیم شریعت کا نفرنس کا انعقاد کیا تھا اور خصوصیت کے ساتھ اس میں وکلاء کو مدعو کیا گیاتھا ،میں بھی اس کانفرنس میں شریک تھا۔
سوال:مرکز المعارف ایجوکیشن ریسرچ سینٹر میں داخلہ لیکر انگریزی سیکھنے والے طلبہ کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ایسا لگتاہے کہ طلبہ کی دلچسپی انگریزی زبان میں بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔ 
جواب: جو طلبہ انگریزی زبان سیکھنے کیلئے مرکز المعارف میں جارہے وہیں فارغ التحصیل ہیں اور فراغت کے بعد کسی اور فن میں مہارت حاصل کرنا اچھی بات ہے ، یہ ہمارے مزاج کے موافق بھی ہے ،ہم یہی چاہتے ہیں کہ طلبہ پہلے ایک نصاب مکمل کرلیں اس کے بعد کسی دوسرے نصاب تعلیم میں قدم رکھیں اور خوب پڑھیں؛ لیکن ایک ساتھ کئی سارے علوم اور نصاب کو پڑھنا ممکن نہیں ہے او ر نہ دنیا کے کسی ادارے میں ایسا ہوتاہے ،یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ عصری اداروں میں صرف ایک موضوع کو ہی خصوصیت کے ساتھ کئی سالوں تک پڑھایاجاہے اور اسے بیسٹ اور اعلی نظام تعلیم قرار دیا جاتا ہے لیکن وہی لوگ مدارس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہاں ایک ہی ساتھ دنیا کے تمام علوم پڑھادیئے جائیں۔ 
سوال:بہت سے طلبہ اب مدارس میں درس وتدریس کی لائن اختیار کرنے کے بجائے کمپنیوں میں کام کررہے ہیں، یونیورسٹیز میں پڑھ رہے ہیں ،صحافت سے وابستہ ہیں ، ترجمہ نگاری کا کام کررہے ہیں ایسے طلبہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے اور ان کیلئے کیا پیغام ہے ؟۔
جواب : دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد طلبہ کو اختیار ہے چاہے جس فن میں مہارت پیدا کریں اور جو چاہیں کریں، ہاں! اپنی عالمانہ شان اور وضع قطع کو برقرار رکھیں ،اپنی اصل کو قائم رکھیں اپنے افکار وخیالات کو آلودگی سے بچائیں اور بطور عالم اپنی ذمہ داریاں بھی نبھائیں، وراثت نبوی کے مشن کو سر فہرست رکھیں اور اپنی تحریکات کو کبھی سرد نہ پڑنے دیں ۔
سوال: دارالعلوم دیوبند کی سند میں انگریز ی شامل نہ ہونے کے وجہ سے یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، دوسری بات مولوی اور عالم کی سند کے بغیر ڈائریکٹ فضیلت کی سرٹیفیکٹ زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے، دارالعلوم دیوبند کی سرٹیفکٹ پاسپورٹ محکمہ میں بھی معتبر نہیں ہے، اس کی وجہ سے یہاں کے فضلاء کو جاہل گردان کر پاسپورٹ بنایا جاتا ہے؟
جواب : سند کا یہ مسئلہ انتہائی اہم اور حساس ہے ، اراکین شوری سے اس بارے میں تبادلہ خیال کیا جائے گا جہاں تک بات پاسپورٹ آفس میں سند کے عدم اعتبار کا ہے تو پاسپورٹ محکمہ سے مل کر ہم اس سلسلے میں بات چیت کریں گے اور یہ کوشش ہوگی کہ دارالعلوم دیوبند کی سند معتبر مانی جائے۔ 
سوال: انگریزی انٹر نیشنل زبان بن چکی ہے اور دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی زبان ہے ،ایسے میں دارالعلوم دیوبند سے انگریزی اور ہندی زبان میں کیوں کوئی میگزین نہیں نکالی جاتی ہے ؟
جواب: دارالعلوم دیوبند صرف اس احاطے کے نام نہیں ہے بلکہ دارالعلوم ایک مرکز ہے اور اس سے فیض یافتہ طلبہ ہرمحاذ پر کام کررہے ہیں ،بھلے ہی دارالعلوم دیوبند سے براہ راست کوئی انگریزی میگزین نہیں نکل رہی ہے لیکن یہاں کے فضلاء کئی ساری میگزین نکال رہے ہیں ، انگریزی اردو صحافت میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں، مرکز المعارف ممبئی سے الحمد دارالعلوم کے فضلاء انتہائی معیاری انگریزی میگزین نکال رہے ہیں،اس کے علاوہ بھی کئی لوگ اس طرح کی خدمات انجام دے رہے ہیں ،اس لئے بالواسطہ طور پر یہ کام بھی دارالعلوم سے ہی ہورہاہے ، لہذا یہ الزام درست نہیں ہے کہ دارالعلوم سے انگریزی زبان میں کوئی میگزین نہیں نکل رہی ہے۔
آخری سوال : آپ نے کہا کہ انگریزوں نے عیسائی اسٹیٹ بنانے کی کوشش تو علماء کیلئے یہ ناقابل برداشت ہوگیا اور مسلح جنگ چھیڑ کر انہیں یہاں سے دربدر کیاگیا،آج پھر کچھ اسی طرح ک حالات نظر آرہے ہیں ، اسے ہندو اسٹیٹ بنانے کی بات کی جارہی ہے ، اتر پردیش کے وزیر اعلی اس سلسلے میں واضح طور پر اپنا ردعمل بھی پیش کرچکے ہیں اور آر ایس ایس کا یہ واضج ہے ایجنڈابھی ہے جس کی حکومت کو سرپرستی حاصل ہے ،ایسے میں دارالعلوم دیوبند ہندوستان کو ہندوراشٹر سے بچانے اور شعائر اسلام کی حفاظت کیلئے کیا حکمت عملی اپنائے گا اور کیاعوام یہ توقع رکھے کہ ماضی کی طرح دوبارہ یہاں تحفظ اسلام کی تاریخ دہرائی جائے گی۔
جواب : یقیناً دارالعلوم دیوبند نے شعائر اسلام کے تحفظ کیلئے نمایاں خدمات انجام دی ہے ، انگریزوں کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیاہے ؛لیکن ہندو یہاں کے مستقل شہر ی ہیں ، وہ کہیں اور سے نہیں آئے ہیں، وہ برابر کے حقدار ہیں ،ہندوستان کی ہندو مسلم یکجہتی پوری دنیا میں مشہور ہے ، انگریزوں کے خلاف دونوں قوموں نے مل کر جنگ لڑی تھی، آج بھی ہندو مسلم یکجہتی نظر آتی ہے اور بیشتر ہند و سیکولر ہیں،ہاں !کچھ لوگ الٹی سیدھی باتیں کررہے ہیں، جنونی سیاست کا مظاہر ہ کررہے ہیں ایسے میں ہماری کوشش ہے کہ ان کے ساتھ بھائی چارہ قائم کیا جائے ،انہیں اسلام کی درست معلومات فراہم کرائی جائی ، ذہنی طور پر ہم انہیں قائل کریں، مذہب کی سیاست سے گریز کریں ، ہندوستانی آئین کو ہم فلو کریں۔ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور رہے گا ، جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں در اصل وہ ان کی سیاسی پالیسی کا حصہ ہے ، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،صبر اور حوصلہ رکھیں ،خاموشی کے ساتھ اپنے مشن پر کام کریں ، انشاء اللہ تعالی اسلام کے خلاف ایسی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوپائے گی ۔
ملت ٹائمز سے بات چیت کرنے اور وقت دینے کیلئے بہت شکریہ

نوٹ:ملت ٹائمز کو اس انٹرویو کیلئے بہت سارے سوالات بھی موصول ہوئے تھے ،دارالعلوم کے انتظام وانصرام کے تعلق سے بہت سارے سولات پوچھے گئے تھے ،جن میں سے کچھ کو انٹر ویومیں شامل کیا گیا اورکچھ وقت کی قلت کے سبب نہیں پوچھے جاسکے ،آئندہ دارالعلوم کے کسی اور ذمہ دارسے انٹر ویو کا موقع ملاتو یہ سوالات ضرور پوچھے جائیں گے ،انٹر ویو پڑھنے اور اس میں شرکت کیلئے بہت بہت شکریہ۔
جلدی ہی ہم آپ کی ملاقات کسی اور شخصیت سے کرائیں گے۔