ثناءاللہ صادق تیمی
دیکھو بات یہ ہے کہ یہ تم سے نہیں ہوگا ۔ تم ایک چھوٹے دل دماغ کے آدمی ہو، تمہارا تعلق ایک ایسی قوم سے ہے جو اس نعمت سے محروم ہے ، حد درجے میں گری ہوئی کمیونٹی ہے تمہاری ۔ ہر طرف سے انہيں اسباب کی بنیاد پر تم پر عذاب مسلط ہو رہے ہيں لیکن تمہیں اس کا ذرہ برابر احساس نہیں ہے ۔
بے نام خاں کی باتوں پر اب مجھے غصہ آرہا تھا ، یہ پہیلی بجھانے کی اس کی کوشش مجھے تنگ کررہی تھی ، میں نے اپنے غصے کا اظہار بھی کیا : دیکھو خان ! یا تو تم صاف صاف باتیں کرو ورنہ پھر چپ رہو ، یوں احمقوں کی مانند مبہم گفتگو نہ کیا کرو ، یہ شریفوں کا شیوہ نہیں ہے ، تم تو بیویوں کی طرح نہ معلوم کون سی استعاراتی زبان میں باتیں کرتے ہو ، بھئی ! کچھ تو پس منظر پیش منظر لاؤ ، یوں کیا جہالت دکھا رہے ہو ۔۔۔۔۔
بے نام خاں نے میری باتوں کا برا نہیں مانا ، وہ مسکرائے اور کہا : میں صاف سیدھی باتیں ہی کرتا ہوں ، تمہاری قوم کے زوال کا سبب جیسا کہ تم سمجھتے ہو ٹیکنالوجی اور سائنس سے دوری نہیں ہے ، یہ گھٹیا ذہن کے لوگوں کے گھٹیا نتائج ہیں ، ٹکنالوجی سے کوئی قوم بڑی یا چھوٹی نہيں ہوتی ۔ کردار و عمل اور فکرو نظر سے قومیں بڑی یا چھوٹی ہوتی ہیں ۔ تم اپنے معاشرے کا جائزہ لے لو ، تمہیں تمہارے زوال کا سبب پتہ چل جائے گا ، تمہاری پوری قوم سے وہ خوبیاں ختم ہورہی ہیں جو کسی قوم کو شرف و عظمت سے نوازتی ہیں ۔ میں اور خوبیوں کو چھوڑ بھی دوں تو تمہارے اندر سے اعتراف کا جذبہ ختم ہوگیا ہے ۔ تم بحیثیت قوم عجیب و غریب نفسیات کے شکار ہو ، تمہیں ہر معاملے میں سازش نظر آتی ہے ، تم ہر چیز کو معاندانہ نگاہ سے دیکھتے ہو ، کسی کی عظمت تمہیں راس نہیں آتی ، تم خود پستیوں میں ہو اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ تم کسی اور کو رفعتوں میں دیکھ بھی نہیں سکتے ۔ مجھے مولانا ابوالکلام آزاد کی یاد آتی ہے ، انہوں نے کہا تھا کہ بہت سے متاخر مفسرین نے جب یہ دیکھا کہ وہ قرآن کریم کی رفعتوں کا ساتھ نہیں دے سکتے تو یہ کیا کہ بجائے اپنے آپ کو اس کی بلندیوں کے قابل کریں خود قرآن کریم کو اپنی پستیوں تک کھینچ لائے ۔
آج کی دنیا امکانات کی دنیا ہے ، بہت سے راستے کھلے ہوئے ہیں ، فکر ونظر کے دریچے اگر ٹھیک سے وا ہوں ، آگے بڑھنے کا ارادہ قوی ہو ، سیکھنے سکھانے کی ذہنیت مضبوط ہو تو کہاں سے کہاں پہنچا جاسکتا ہے ، نئی ٹکنالوجی نے بہت کچھ آسان کیا ہے ، دنیا میں روکنے والی چیزوں سے زيادہ آگے بڑھانے والی چیزیں ہیں لیکن تم بحیثیت قوم کے ان چیزوں پر نظر رکھتے ہو جو روکنے والی ہیں اور ان سے صرف نظر کرتے ہو جو آگے بڑھانے والی ہیں ۔ یہ اللہ پاک کی کائنات مثبت رویوں سے آگے بڑھتی ہے منفی رویوں سے سوائے افسوس کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔
ایک پوری قوم اگر شکوے شکایت کی نفسیات میں جینے لگے، ہر جگہ اسے سازش نظر آنے لگے تو سمجھ لو کہ اس کا زوال اس کی روح تک اترچکا ہے اور یہ صورت حال بہت خطرنا ک ہے ، تمہیں پتہ ہے عام حالات میں یوروپ کی طرف ہجرت کرکے جانے والے مسلمان وہاں ماشاءاللہ بہت اچھی زندگی جی رہے ہیں ، پر امن اور خوشحال اور ساتھ ہی انہیں ہر طرح کی سماجی آزادی بھی حاصل ہے لیکن کمال تعجب کی بات یہ ہے کہ لوگ وہاں رہتے بھی ہیں ، وہاں کی سہولتوں سے فائدے بھی اٹھاتے ہیں اور ساتھ ہی اسی سماج پر الٹے سیدھے غلط سلط تبصرے بھی کرتے ہیں ۔ کم از کم ان خوبیوں کا تو اعتراف کرو جو وہاں پائی جاتی ہیں اور جن سے تم خود محظوظ ہو رہے ہو ۔
ایشیا سے حصول معاش کی خاطر بڑی تعداد میں مسلمان خلیجی ممالک کا سفر کرتے ہیں ، یہاں آکر وہ نسبۃ زيادہ اچھی زندگی جیتے ہیں ، سہولتیں میسر ہوتی ہیں ، تنخواہ اچھی پاتے ہیں ، زيادہ تر کو آرام بھی حاصل رہتا ہے لیکن بہت کم کسی کے اندر اعتراف حقیقت کا مادہ پایا جاتا ہے ، سب جلے بھنے رہتے ہیں ۔ اب دیکھو ادھر جب سعودی عرب کی معاشی حالت تھوڑی خراب ہوئی اور کمپنیوں نے لوگوں کو واپس بھیجنا شروع کیا تو ایک پر ایک باتیں بنانے والوں کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔ صورت حال یہ ہوئی کہ نصف تنخواہ پر کام کرنے کے لیے گہار لگانے لگے ۔ مولانا صاحب ! اعتراف جمیل ایک بڑی خوبی کی بات ہے اور یہ خوبی تمہاری قوم میں نہیں پائی جاتی ، اس لیے من جملہ یہ قوم پستی میں بڑھتی جارہی ہے ۔
اس سے بھی کم خطرنا ک با ت نہیں کہ ہر جگہ خود کو برتر دیکھنے کی کوشش کرتی ہے ہر چند کہ بدتر ہونے میں اس سے آگے کوئی نہ ہو ، مغرب کی دن دونی رات چوگنی ترقی کو بڑی ڈھٹائی سے خود سے جوڑ کردیکھتی ہے اور مغرب پر احسان فراموشی کا طعنہ کستی ہے اور بھول جاتی ہے کہ طعنہ کسنے سے حقیقت بدل نہیں جاتی ۔ پدرم سلطان بود کا جادو تبھی کام دیتا ہے جب بعد کی نسل اپنے پیشرؤوں کے نقش قدم پر ٹھیک سے چل کر ان سے آگے کی منزلوں کو طے کرکے دکھاتی ہے ۔ مغرب نے عربوں سے استفادہ کیا ، یہ صحیح ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مغرب نے ان علوم کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ، محنت ، لگن اور جانفشانی سے ۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے شروع دور میں عربوں نے مغرب سے استفادہ کیا تھا اور ان علوم کو کہاں سے کہاں پہنچادیا تھا اور بدلے میں سیادت و قیادت سے ہمکنار ہوئے تھے ۔ کرنے کا کام تمہاری قوم کے لیے یہ ہے کہ وہ محنت و لگن سے مغرب کے ان علوم کو نہ صرف اپنائے بلکہ اس میں ان سے بہت آگے نکل جائے پھر رزلٹ وہ آئے گا جو یہ چاہتی ہے ورنہ گالیاں بکتے رہو ، ناک بھؤں چمکاتے رہو ، شکوے شکایت کرتے رہو ، سازشیں ڈھونڈتے رہو اور پستیاں مقدر بنتی جائیں گیں ۔
قوم کے اندر مہم چلاؤ، لوگوں کو پڑھاؤ لکھا ؤ اور حقیقت سے آنکھیں چار کرنے کا یارا پیدا کرو ، افسانوں سے نکلو اور خوابوں کی اس دنیا سے نکل آؤ جو تمہیں مست تو کرتی ہے لیکن تمہارے اندر حرکت وعمل پیدا نہیں کرتی ۔ اعتراف کرنا خوبی ہے ، یہ تمہارے اندر کے مثبت رویوں کو بیدا کرتا ہے اور تمہیں بھی کچھ کرنے کی راہ پر لگاتا ہے ۔
تم سے اگر کوئی کام نہیں ہو پاتا تو اس کا قطعا مطلب نہیں کہ وہ کسی اور سے نہیں ہوپائے گا ۔ ہر عظمت کے پیچھے ایمانداری اور محنت کارفرما ہوتی ہے ۔ تملق اور چاپلوسی کے سہارے حاصل ہونے والی بلندی بہت جلد ختم بھی ہو جاتی ہے ۔ تبصروں سے نکلو اور کام کرو ۔ کام کرنے والی قوم تبصرے کم کرتی ہے اور تبصرے کرنے والی قوم کام کم کرتی ہے اور اس کائنات کا قانون یہ ہے کہ عمل کرنے والوں کو کامیابی اور رفعت حاصل ہوتی ہے تبصرہ کرنے والی قوم کو نہیں ۔
مولانا ! اب مجھے یہ بتاؤ کہ تم ان سچائیوں کا اعتراف کرنے کو بھی تیار ہو یا نہیں ؟ بولو بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے کیا ہوا مولانا صاحب ! صرف مسکاتے جارہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟