اردو زبان : ایک لمحہ فکریہ

مشتاق احمد نوری

گزشتہ دنوں بہار اردو اکادمی کی جانب سے دو روزہ عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد ہوا اور انہیں تاریخوں کے آس پاس دیگر سرکاری، نیم سرکاری، نجی، تعلیمی اور ثقافتی اداروں کی جانب سے بھی طرح طرح کے رنگارنگ علمی و ادبی پروگرام منعقد ہوتے رہے، جن کے لئے منتظمین کی طرف سے بھی بڑے بڑے اہتمام ہوئے اور محبان اردو نے بھی پورے ذوق و شوق کے ساتھ ان میں شرکت کرکے ان کی رونقیں دو بالا کردیں۔ حسب روایت اردو کی حالیہ تقریبات میں ہرجگہ یہ موضوع گھوم پھر کر سامنے آتا رہا کہ اردو زبان و ادب کے حال و مستقبل پر گہری نظر رکھنا ہماری اہم ذمہ داری ہے اور زبان و تہذیب کے تحفظ کی فکر داخل عبادت ہے۔ ہمیں بھی اس سے ایک پل کے لئے اختلاف نہیں کہ اپنی زبان اور اپنے تہذیبی شعائر کی حفاظت ہمیشہ زندہ قوموں کا شعار رہاہے۔
زبان کے تحفظ کی فکر یقیناً ایک عبادت ہے اور آج نہ صرف یہ کہ اس عبادت میں ہم مشغول ہیں بلکہ بہ بانگ دہل اس کا اعلان بھی کر رہے ہیں اور دوسروں کو اس کی طرف آنے کی دعوت بھی دے رہے ہیں، مگر افسوس اس کا ہے کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود، ہمیں اپنی اس عبادت کا قبلہ درست کرنے کی توفیق نہیں مل رہی ہے۔ ظاہر ہے اگرعبادت میں وقت اور مقام کا شعوری طورپر مسلسل خیال نہ رہے تو وہ عبادت بے معنی ہوگی اور بے اثر عمل سے زیادہ اس کی اور کوئی حیثیت نہیں رہ جائے گی۔
اردو بلاشبہ ہماری تہذیبی زبان ہے، لیکن تہذیب محض رسمی طورپر کسی کو سونپ دینے کی خواہش یا کسی کے سر تھوپ دینے کی چیز نہیں، یہ تو سنجیدگی سے آنے والوں کے دل و دماغ میں منتقل کرنے کی چیز ہے اور اس سمت میں ہمارے قدم مشکل سے اُٹھ رہے ہیں۔ آج اردو کی فضا اور اردو کا ماحول ہمارے گھر آنگن سے لے کر ہمارے تعلیمی و تدریسی اداروں تک ہرجگہ کچھ یوں دھواں دھواں ہورہا ہے کہ تلفظ، صرفی و نحوی قواعد، رسم الخط اور املا نویسی کی سانسیں ایک ساتھ گھٹ رہی ہیں اور محاوروں کا رشتہ، تہذیبی موقع و محل سے عجیب و غریب انداز میں ٹوٹتا جارہاہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ شاعری کے صدہا تقاضے پس پشت پڑے ہیں، نثرنگاری اپنے چرمراتے اسلوب و اجزائے فن کی ماتم کناں ہے، صحافت اور خصوصاً ادبی صحافت بے جا دباؤ سے پناہ مانگ رہی ہے۔ کچی پکی چیزوں کی اشاعت ، تنقید میں عموماً غلو پسندی، جانب داری، سہولت طلبی، مطالعہ کی کساد بازاری، جلد سے جلد مصنف بننے کے لئے اُتاولاپن، اصلاحات کی نشاندہی پر بے نیازانہ ردعمل، ایک ہی کاوش کی باربار محفلوں میں سماعت اور رسالوں میں اشاعت، اخبارات و رسائل اور کتابوں میں اغلاط کی بھرمار، شعروادب کے دربار میں پہنچنے کی بے جا کاوش، احسا س برتری، شہرت کی طلب، سہل نگاری، غیر ضروری خود اعتمادی، نوواردان علم و قلم کو موقع دینے میں انتہائی تامل کا ماحول، بزرگ فن کاروں کو نوازے جانے پر شکایتوں سے ان کے بڑھاپے کی توہین، کام کرنے والوں کا نفسیاتی و اقتصادی استحصال غرض کہ ایک لمبی فہرست ہے ان زخموں کی جونہ صرف بڑھتے جارہے ہیں بلکہ ستم تو یہ ہے کہ ان پر مرہم رکھنے والے ہاتھوں کے ناخن بھی اس سے کہیں زیاہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔
باتیں ہورہی ہیں اور ہزاروں طرح کی باتیں ہورہی ہیں ، مگر سو آفت کی ایک آفت یہ ہے کہ کام کی اصل بات ایک کان سے سنی جارہی ہے اور وہ دوسرے کان سے نکلتی جارہی ہے ۔ ہم نے اردو کو بنیادی تعلیم و تدریس اور تہذیبی تربیت سے مسلسل محروم بنارکھا ہے اور کسی بھی حال میں یہ سمجھنے پر آمادہ نہیں ہیں کہ ہمارے بچوں کی تعلیم ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہم سجی سجائی محفلوں میں یا اپنے سجے سجائے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اردو کے حال و مستقبل پر گرما گرم بحث ضرور کرتے ہیں، لیکن انفرادی اور شخصی طورپر کچھ بھی کرنے کے لئے شاید کبھی نہیں اٹھتے۔ ہمیں یہ احساس نہیں ہے کہ ہمارا تشخص اردو سے ہے اور اسی کے ساتھ عربی کی جانکاری بھی ہمارے لئے ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر ہم نماز و تلاوت جیسے مذہبی امور انجام نہیں دے سکتے۔
آج اردو کے تعلق سے ادارے اورانجمنیں اگرچہ اپنی اپنی حد تک کوشاں ضرور دکھائی دیتی ہیں، لیکن جب ہم انفرادی طور پر تجزیہ کرتے ہیں تو ناقابل معافی بلکہ بڑی حد تک ناقابل تلافی جمودکے سوا کچھ نہیں ملتا۔ آج اردو پر بحث و مباحثہ شاید ہر زمانے سے زیادہ ہورہاہے، مگر عمل کی کیفیت عقل و امید سے کہیں زیادہ گھٹ چکی ہے۔ہماراحال یہ ہے کہ اردو پر بحث چلتی ہے تو ہم ساری ذمہ داریاں دوسروں کے سر، حکومت کے سر، اداروں کے سر یا منصبی جہت سے چند گنے چنے افراد کے سر ڈال دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری انفرادی ذمہ داری کیا ہے؟
اردو کی بات آتی ہے تو اسے روزگار سے جوڑ کر دیکھا اور دکھایا جاتا ہے اور مطالبوں کی تکرار شروع ہوجاتی ہے۔ ہمیں اس کی اہمیت کا اعتراف ہے، مگر یہ بات ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ ہم دیگر زبانوں کو اس طرح روزگار سے جوڑ کر اس کے حال و مستقبل پر نہیں سوچتے تو پھراس انداز فکر پر اردو ہی کے لئے ہمیں اصرار کیوں؟ یہاں یہ اشارہ بھی شاید بے جانہ ہوگاکہ کچھ معروف معنی میں نہ سہی، مگر اردو بہرحال روزگارسے جڑی ہوئی ہے اور اس میں خوشگوارزندگی گزارنے کے مواقع مسدود نہیں ہیں۔ آئے دن اردو مترجم کے خالی پوسٹ کو بھرنے کی بات کی جاتی ہے، لیکن کوئی اس پر بات نہیں کرتا کہ اردو مترجم کے پاس اردو میں درخواست کیوں نہیں دی جاتی۔ جہاں تک اردو اور روزگار کی بات ہے، میں یہاں برسبیل تذکرہ اپنی مثال پیش کردوں تو آسان ہوگا کہ میں خود زولوجی کا طالب علم رہا ہوں، لیکن کمیشن میں، میں نے اردو رکھا اور ۸۰ فیصد نمبرات حاصل کئے اور اسی اردو سے آج میری پہچان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں آئینہ دکھانے سے زیادہ خود آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے پہلے بھی لکھا ہے اور اب بھی اسی نکتہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ اگر ہم اردو کی صلاح و فلاح کے لئے اپنے گھر سے کام شروع کریں، اپنے بچوں کو اردو پڑھنے لکھنے کا شوق دلائیں، ان کے لئے اخبارات و رسائل اور اردو کی کتابیں مہیا کریں، خصوصاً اردو خوانی کے لئے بچیوں کی تربیت پر توجہ دیں اور بول چال، تلفظ کی درستگی اور نوشت و خواند میں بچوں کی اصلاح کریں اور انہیں محبت سے مسلسل حوصلے دلائیں تو پھر انشاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ ہمارے گھر آنگن کے یہ پھول اپنی بہاروں سے، اس خزاں کو بدل دیں گے جو آج ہمارے لئے خدشات بڑھا رہے ہیں ؂
یہ ہے دامن ، یہ ہے گریباں ، آؤ کوئی کام کریں
موسم کا منھ تکتے رہنا کام نہیں دیوانوں کا
این صدا از من و از جملہ جہاں لبیک باد!
(مضمون نگار بہار اردو اکیڈمی کے چیرمین ہیں)