فیروز احمد ندوی
شوشل میڈیا آج کل زندگی کے ہر مسائل پر اس قدر اثر انداز ہونے لگا ہے کہ اس کے ذریعے مسائل الجھتے جا رہے اور بسا اوقات اس سے کوئی مسئلہ حل بھی ہوجاتا ہے ، یہ وہ دو دھاری تلوار ہے جس کو اگر صحیح استعمال کیا جائے تو نفع بخش ہے نہیں تو نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ، اس لئے اس کو استعمال کرتے وقت کوشش یہ ہو کہ اس سے صحیح فائدہ حاصل کیا جائے، اورمسلمانوں کے خلاف جو زہر بویا جارہا ہے اس کی کاٹ ڈھونڈی جائے اور ہر بدنام کرنے والے کو اسی کی زبان میں جواب دیا جائے۔
حالات ایسے ہیں بڑے بڑے نیوز چینل اور نیوز ایجینسیاں بھی اپنی خبریں عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے شوشل میڈیا کا سہارا لے رہی ہیں ، ان نیوز چینلزنے تو اب وائرل سچ یا لائیو نیوز تک کے ذریعے عام لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ، اس لئے اب اس بات کی سخت ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ جس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی اس کے ذریعے کوشش کی جارہی ہے بالکل اسی شوشل میڈیا کے ذریعے اس کی کاٹ اور اس کا مسکت جواب دینے کے ہمارے مسلم دانشور اور ذی شعور افراد میدان میں اتر کر صحیح طور پر مقابلہ کر یں اور ان کا دنداں شکن جواب دیں ۔
دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ سارے نیوز ایجینسیاں خواہ وہ الکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا ہو یا شوشل میڈیا ہو ، انگلش زبان میں ہو یا ہندی زبان میں سب نے ( اس میں بعض کو الگ کیا جاسکتا ہے ) مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ طور پر مہم چھیڑ رکھی ہے اور اس بات کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھا رہے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر طرح سے بدنام کیا جائے ، کبھی طلاق ثلاثہ کے نام پر ، کبھی جھوٹی ہمدردی دکھا کر کہ مسلمان عورتیں سب سے زیادہ مظلوم ہیں ۔
ایسی صورت حال میں جہاں ا یک طرف اسلام میں مسلمان عورتوں کے حقوق اسی شوشل میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنا ہوگا وہیں دوسری جانب ہندوں اور دوسرے مذاہب میں عورتوں کے کیا حقوق حاصل ہیں اور آج کل عورتوں کے ساتھ کیا کیا سلوک زمینی سطح پر روا رکھا جا رہا ہے اسے بھی شوشل میڈیا کے ذریعے دکھانا ہوگا تاکہ صحیح صورت حال سے ایک عام آدمی آگاہ ہوسکے ۔
کیا ہم مسلمانوں میں بوڑھی عورتوں ، بوڑھے مردوں اور بیواوں کے لئے اولڈ ایج ہوم کا تصور پایا جاتا ہے، کیا کوئی مسلمان اس بات کا اقرار کرسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی بوڑھی ماوں کو اس طرح کے گھروں میں ڈالا ہے ، وہیں ہندوں میں ایسے بہت سی جگہیں ہیں جہاں انہوں نے اپنی بوڑھی ماوں سے تنگ آکر ایسے اولڈ ایج گھروں میں رکھ چھوڑے ہیں ۔
جب تک ہم مد مقابل میں ہندو عورتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو جو انہوں نے خود کیا ہے شوشل میڈیا کے ذریعے عام نہیں کر یں گے اس وقت تک ہماری مسلم عورتوں کے ساتھ جھوٹی ہمدردی رکھنے والے لوگ باز نہیں ائیں گے اس لئے ہم جہاں جس علاقے میں ہوں اس میڈیا کا استعمال کرکے مسلم عورتوں کے حقوق اور ہندو عورتوں کے ساتھ زیادتی اور زمینی حقایق کو اجاگر کرنا ہوگا ،ساتھ ساتھ اسلام میں عورتوں کے جو حقوق ہیں اس کو ہمارے معاشرے میں حق دے کر دکھانا ہوگا ورنہ صرف کہنے سے کچھ اثر نہیں ہونے والا ہے۔