نماز، یوگا اور سوریہ نمسکار

خالد انور پورنوی المظاہری

یہ ہندوستان ہے،کثرت میں وحدت اس کی پہچان ہے،مختلف تہذیبوں،اورثقافتوں کایہ حسین سنگم ہے، ہزاروں زبانیں اوربولیاں بولی جاتی ہیں، موسموں، مزاجوں، اور طبیعتوں کی تفریق کے ساتھ سبھی ہندوستانی ہندوستان کی خوبصورتی کاحصہ ہیں،مذاہب، رسم ورواج،اوربہت سی چیزوں میں اختلافات کے باوجود دوسروں کی تہذیب وثقافت کااحترام کرنااوراسے برداشت کرناہندوستانیوں کی شان سمجھی جاتی ہے۔
مندربھی ہے ،مسجدبھی ہے،گردوارہ بھی ہے،چرچ بھی ہے اوردیگرعبادت خانے بھی ،ہرایک کواپنے اپنے مذہب اوردھرم پرعمل کرنے کی پوری آزادی ہندوستان کاقانون دیتاہے،مگرجنہیں قانون اور ہندو ستا ن کی آئین پریقین نہ ہووہ ہندومسلم،سکھ،عیسائی کے اتحادکوپارہ پارہ کرکے نفرت کی راج نیتی کرتاہے، جنتاکوبے وقوف بناکراوربھولی بھالی عوام کو اپنے جال میں پھنساکراقتدارحاصل کرناان کامقصد ہوتاہے، اب یہ طے عوام کوکرناہے کہ انہیں وکاس چاہئے،یانفرت کی راج نیتی۔
’’سب کاساتھ اورسب کاوکاس‘‘ بہت خوبصورت نعرہ ہے،مگرعملی کرداراس کے برخلاف ہواس سے بھی زیادہ خطرناک ہے،اس سے ہندوستان بھرمیں مسلمانوں کے تئیں ایک نفرت کاپیغام جاتاہے،من گھڑت باتیں اورجھوٹی افوائیں بڑی آسانی سے لوگوں کی سمجھ میں آجاتی ہیں،مگرسچائی سننے کی کسی میں طاقت نہیں ہوتی ہے۔
ابھی کیاہوا؟ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی جی نے اپنے ایک بیان میں نمازاورسوریہ نمسکارکاموازنہ کرتے ہوئے کہا: ’’یوگاکے دوران سوریہ نمسکارنمازپڑھنے جیساہے،جولوگ سوریہ نمسکارپراعتراض کرتے ہیں وہ بھارتی معاشرہ کومذہبی بنیادوں پرتقسیم کرناچاہتے ہیں‘‘،انہوں نے آگے بڑھ کر یہاں تک کہدیا:’’ نماز ادا کرنے کے مختلف اندازیوگااورسوریہ نمسکارکے مختلف آسن آپس میں ملتے ہیں،کسی نے ہندؤں اورمسلمانوں کواس مماثلت کے ذریعہ قریب لانے کی کوشش نہیں کی‘‘اوراس بیان کے بعد میڈیااورٹی وی چینلوں میں عمل درعمل کاسلسلہ جاری ہوگیا،یوگی جی کی قصیدہ خوانی ہونے لگی،اورکہاجانے لگاان کی انتہاء پسندی والی سوچ میں بڑی تبدیلی آگئی ہے، ہندواورمسلم کو قریب کرنے کی وہ بات کرنے لگے ہیں،حدتواس وقت ہوگئی جب ٹی وی چینلوں میں بیٹھے علماء کرام بھی اپنے آپس میں بھڑگئے،کوئی یوگاکی حمایت کررہاتھا،اورکوئی اسے اسلام کے خلاف قراردے دیا تھا ، کوئی یوگی کی تائیدکررہاتھاتوکوئی یوگی کی تنقید،لیکن اصل مسئلہ کیاتھا؟بڑی خوبصورتی سے ٹی وی کے اینکرنے سب کو بہکادیاتھا،اورسب اس کے جال میں پھنستے چلے گئے،بحث ہونے لگی صرف یوگاپر،اورسوریہ نمسکار جو اصل مدعاتھاوہ پیچھے چلاگیا۔
یوپی کے وزیراعلیٰ یقینایوگی ہیں،اس لئے وہ یوگاکے بارے میں اچھی معلومات رکھتے ہونگے ،لیکن نماز اور سوریہ نمسکار کے بارے میں ان کی معلومات ہم سمجھتے ہیں کہ صفر کے برابر ہے،چونکہ دونوں ہی ایک دوسرے کی ضد ہے،نماز میں صرف اللہ کی پوجاہے جبکہ سوریہ نمسکار میں اللہ کے علاوہ سورج کی پوجاہے،ایک میں توحید الٰہی کا تصور ہے اور دوسرے میں اللہ کی وحدانیت کے ساتھ شرک ہی شرک ہے،اس کے باوجود اگر کوئی دونوں کے بارے میں رائے زنی کرنے لگیں اوردونوں کی مماثلت کوثابت کرنے لگیں تو اس سے نہ صرف ان کی ذہنیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے بلکہ’’ دین اکبری‘‘ کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے،چونکہ جہالت دونوں جگہ ہے ،ہاں ایک میں اکبر ہے اور دوسرے میں یوگی ہے، انہوں نے بھی درباری چمچوں ،شاہی اماموں اور پنڈتوں سے مل کر’’دین اکبری‘‘ کی بنیادڈالی تھی،اور یہاں بھی یوگی جی کو نام نہاد مسلمانوں ،سادھو وٗں ،سنتوں،پنڈتوں کی ایک بڑی جماعت کا تعاون حاصل ہے جو صدیوں سے سناتن دھرم،اور ویدوں کی ا صل تعلیمات کو بے چاری عوام سے چھپارکھاہے،جس میں واضح طور پر شرک وبت پرستی سے منع کیاگیاہے۔
……………………….
یوگاکیاہے؟ یوگاسنسکرت لفظ’’یوج‘‘ سے نکلاہے ،جس کے معنی ذہنی گہری سوچ کے ذریعہ وحدت کائنات کے پراسرار رازوں تک پہونچنا،بھگوت گیتا کا چھٹاباب ’’فلسفہ یوگا‘‘ کے لئے خاص ہے ،یوگا کے دوران کئی اشلوک اور منتر کا ورد کیاجاتاہے ،اگرترجمہ پر غور کریں تو سمجھ میں آتاہے کہ یوگاصرف ایک ورزش نہیں ،بلکہ ایک خاص عبادت ہے،اشلوک کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :’’میں نہ عقل ہوں نہ سوچ، میں نہ سن سکتاہوں نہ بول سکتاہوں، نہ سونگھ سکتاہوں نہ دیکھ سکتاہوں، میں روشنی اور ہوا میں اپنے آپ کو نہیں پاتا ہوں، نہ زمین پر نہ آسمان پر، میں نعمتوں کی نعمت ہوں، میر اکوئی نام نہیں، میری کوئی زندگی نہیں، میں سانس نہیں لیتاہوں، نہ کوئی مقدس کلمات ہیں نہ عبادات، نہ علم ہے نہ معلوم، کسی شئی نے مجھے ڈھالا نہیں، میرا کوئی جسمانی خروج نہیں، میں نہ غذ ا ہوں نہ کھانا اورنہ کبھی میں نے کھایا ہے، میں خیالات اور مسرت ہوں اور آخر میں کرم میں مل جاوٗں گا۔ میں غیر مجسم ہوں، میں احساسات میں رہتا ہوں لیکن وہ میر امسکن نہیں‘‘ (لائٹ آف یوگا صفحہ ۲۳۔۳۳)
ان اشلوکوں اور منتروں میں خودی کا انکار، تمام عبادات اور مقدس کلمات کا انکار، علم اور تعلیم کے انکار کے ساتھ ایسی تمام باتیں ہیں جو ایمانیات اور اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں اور خالق ومخلوق کے فرق کو یکسر ختم کردیتی ہیں۔،یوگاکو آسان زبان میں مراقبہ بھی کہاجاسکتاہے جس کے ذریعہ آتما،پرماتمااور شریر کے ایک ساتھ مربوط کی کوشس کی جاتی ہے،یوگاکرنے والامشرق کی جانب آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھوں کو جوڑکر اپنے فرضی عقیدہ کے مطابق سوریہ بھگوان کوخوش کرنے کیلئے اپنی ساری توجہ اسی کی طرف منتقل کردیتاہے۔
ماڈرن خیال کے نام نہادمسلمان اپنے آقاکوخوش کرنے کیلئے باربارکہتے رہے ہیں: کہ یوگاکے سلسلہ میں مذہبی قائدین کی طرف سے مسلم طبقہ کوگمراہ کیاجارہاہے، یوگا صرف ایک ورزش ہے ، جبکہاشلوکوں ،منتروں اور یوگاکے اتہاس کوپڑھنے کے بعد سمجھ میں آتاہے کہ یہ سراسراجھوٹ ہے ، اور 125؍ کروڑمسلمانوں کوشرک کے دلدل میں دھکیلنے کیلئے ایک راہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہی وجہ ہے ملیشیا،انڈونیشیا،سنگاپور،کویت اور مصر کے علماء نے کافی تحقیق اور بحث ومباحثہ کے بعد یوگاکو حرام اور فعل کفر قرار دیا ہے ۔جس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا وہ یقینااپنے ایمان کا سودانہیں کرسکتاہے؟
ہمیں وہ دن یاد ہے کہ اٹل بہاری واجپئی جی ملک کے وزیراعظم تھے،حضرت مولاناعلی میاں ندویؒ سے ملاقات کیلئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤتشریف لے گئے،ملاقات ہوئی اورکئی موضوعات پربات چیت ہوئی،یہ وہ دَورتھاجب تمام اسکولوں میں یوگااورسوریہ نمسکارکولازم قراردینے کے فرمان جاری ہونے لگے تھے۔ملاقات کے بعد میڈیا کو بیان دیتے ہوئے حضرت مولاناعلی میاں ؒ نے کہاتھا:میری قوم کاہربچہ تعلیم سے محروم ہوجائے میں اس کو گوارہ کرسکتاہوں، لیکن اس کے عقیدے،اورایمان پرآنچ آجائے میں اس کوکبھی برداشت نہیں کرسکتاہوں۔
ہاں یہ الگ مدعاہے کہ یوگاکیلئے سوریہ نمسکارضروری ہے یانہیں؟مگریہ سفیدجھوٹ ہے کہ یوگاصرف ایک ورزش ہے،اگرایساہوتاتوملک کے وزیراعظم کواتنی فکریوگاکی کیوں ہوتی؟وہ کیوں اقوام متحدہ سے عالمی سطح پر منانے کی منظوری لیتے،کیاان کے اس بیان کو ہم بھول گئے ،جب انہوں نے’’ یوگاڈے ‘‘مناتے ہوئے 35 ؍ ہزار شہریوں کو خطاب کرتے ہوئے کہاتھا:مشرق سے مغرب تک سورج کی پہلی کرن جہاں بھی پڑے گی اور 24 ؍ گھنٹے بعد سورج کی کرن جہاں ختم ہوگی ایسی کوئی جگہ نہ ہوگی جہاں یوگانہ ہورہاہوگا،پہلی باردنیاکوتسلیم کرنا ہوگاکہ یہ سورج یوگاکامشق لوگوں کیلئے ہے،اوریوگامشق کایہ سورج ڈھلتانہیں ہے،کیااس سے یہ بات سمجھی نہیں جاسکتی ہے کہ یوگا اورسوریہ نمسکارایک دوسرے کیلئے لازم اورضروری ہے۔اسی لئے تو مکھیہ منتری بننے سے قبل یوگی جی نے کہا تھا : سوریہ نمسکارکے مخالفین کوسمندرمیں غرق ہوجاناچاہیے۔
………………………
نماز کیاہے؟مذہب اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے دوسرارکن نماز ہے،توحیدورسالت کے بعد نماز ہی کانمبر ہے ،نماز مسلمانوں کی روح ہے،نماز مومنین کے لئے معراج ہے ،نماز سے ایمان جھلکتااور نظر آتاہے،نماز اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے،نماز ایمان کی نشانی ہے،جب کہ نماز چھوڑ نے کو کفر سے تعبیر کیاگیاہے،نماز میں توحید کی عملی مشق کرائی جائی جاتی ہے ،نماز شروع کرتے ہوئے ،رکوع،سجدہ کے لئے جاتے ہوئے ،سجدہ سے اٹھتے ہوئے ،بار باراللہ اکبر ،اللہ اکبر کے ذریعہ اللہ کی کبریائی اور اللہ کی بڑائی کا اظہار ہوتاہے،بارباررکوع،اور سجدوں کے ذریعہ انسانی ذہنوں کو یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ رکوع اور سجدہ اور لائق پرستش صرف اللہ کی ذات ہے ،اس کے علاوہ دنیاکی ساری چیزیں انسانوں کی غلام اور نوکر ہیں ،یہ چاند،یہ سورج،اور یہ ستارے انسانوں کے نفع کے لئے ضرور ہیں ،مگر وہ اس قابل نہیں کہ انسان جیسی اشرف المخلوقات ان کے سامنے سجدہ ریز ہویااسے جھک کر سلامی دے،سورج خود زمین اور آسمان میں موجوددیگر مخلوقات، شجر و حجر ، پہاڑاور چاند کی طرح اللہ کو سجدہ کرتاہے۔
سورج نکلتے اور ڈوبتے وقت نماز پڑھنے سے اسی لئے اللہ کے رسول ﷺنے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ، تاکہ جولوگ سورج کی پوجاکرتے ہیں ،ان کی مشابہت نہ ہوجائے،بخاری اور مسلم شریف کی روایت میں ہے اللہ کے رسولﷺ نے واضح اندازمیں ارشاد فرمایاہے: کوئی بھی سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنے کا ارادہ نہ کرے،اس لئے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتاہے۔
محدثین اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :کہ جب آفتاب طلوع ہوتاہے تو شیطان سورج کے سامنے کھڑاہوجاتاہے،تاکہ آفتاب اس کے سر کے دونوں جانبوں کے درمیان نکلے،اس حرکت سے اس کامقصد یہ ہوتاہے کہ جولوگ سورج کو پوجتے ہیں اور اس کی طرف رخ کرکے سوریہ کو خوش کرناچاہتے ہیں ،شیطان اس کا قبلہ بن جائے ،جبکہ دوسری روایت میں اللہ کے رسول ﷺنے وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایاہے، کہ اس وقت نماز پڑھنا اس لئے منع ہے چونکہ اس وقت کفارسورج کو سجدہ کرتے ہیں۔
قومی یکجہتی کا مطلب ہی لوگوں نے غلط سمجھ لیا،مندرمیں گھنٹی بجانے والے مسجد میں ماتھاٹیکیں،اور مسجد میں ماتھاٹیکنے والے مندر میں پوجاکرنے لگیں،اسے ہی وسعت ظرفی کہاجانے لگاہے،کوئی نام نہاد مسلمان سوریہ نمسکار کرتاہے وہ سب سے بہتر مسلمان ہے،وہی سب کی دلیل بن جاتی ہے اور جس کسی نے انکار کردیاانٹی نیشنلزم کا سرٹیفیکٹ دے دیاجاتا ہے،اور اگر انکارکرنے والامولوی صاحب ہے تو دقیانوسی اور جدت پسندی کا الزام لگادیا جا تاہے، سلمان رشدی،تسلیمہ نسرین،طارق فتح جیسے لوگ یوگی جی کو بہت پسند ہے،اس لئے کہ یہ لوگ من چاہااسلام پیش کرتے ہیں ،اور چند سکوں کی لالچ میں اپنی ضمیراور غیرت کے ساتھ اپنے دین وایمان کا سوداکرنابھی قابل فخر کارنامہ سمجھتے ہیں ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایساکرنااور ایساسمجھناقومی یکجہتی کے ساتھ ہی نہیں ؛ اس ملک اور ملک کی سیکولرازم کے ساتھ فراڈ کرناہے ،جین مذہب کے لوگ بغیر لباس کے رہتے ہیں ،اور اسی کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں،کیاتمام ہندوستانیوں کو لباس اتروانے پر مجبور کردیاجائے گا؟یاجین مذہب کے لوگوں کو لباس کا پابند بنایا جائے گا؟اگر دونوں ایک ہوجائے ،یاتو لباس میں یابے لباس میں ،تو پھر ہندوستان ہندوستان نہیں رہے گا ۔ ہندوستان ہے ہی اسی لئے کہ دوسروں کی تہذیب اور ثقافت کو برداشت کیاجائے،مگر اپنی تہذیب کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔
ہم ہندوستانی ہیں اور ایک سچے مسلمان بھی ،ہمیں جتنافخر ہندوستانی ہونے پر ہے اتناہی فخر مسلمان ہونے پر ہے،جیسے ہماری دوآنکھیں ہیں ،دونوں ہی ہمارے لئے ضروری ہیں،اسی طرح ہندوستان کی خوبصورتی ہندستانی مسلمانوں کے بغیر ناکافی ہے،ہندوستان کے نقشہ سے ہمیں کوئی الگ نہیں کرسکتاہے،یہاں کے آئین نے ہمیں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہے ،اور دیگر شہریوں کی طرح ہمیں بھی برابری کا درجہ حاصل ہے۔
ہم اس موضوع پر نہیں پڑتے کہ سوریہ نمسکار سناتن دھرم میں کہاں تک صحیح ہے؟اوراس کی اصل تعلیمات کیاہیں؟مگر ہاں یہ ضرور کہناچاہتے ہیں کہ سوریہ نمسکار بھارتی معاشرہ کا حصہ نہیں ہے،بلکہ خاص دھرم کی مخصوص عبادت کانام ہے، وہ جوچاہیں،وہ کریں بڑے شوق سے ،مگر مسلم بچوں اوربچیوں کے لئے لازم اور ضروری کر دیا جائے گا تو مذہب اسلام میں صریح مداخلت ہوگی،اور مسلمان اپنے ایمان کا کبھی سودانہیں کرسکتاہے۔
جنہوں نے یوگی جی کے بیان کے بعد انہیں نماز پڑھنے کی صلاح دی ،وہ ان کی اپنی رائے ہوگی ،لیکن ایسا ہم نہیں کہ سکتے ،اس لئے کہ نماز مسلمانوں کے لئے ہے ،ہاں ہدایت کی دعا کرسکتے ہیں۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ نماز پڑھنے کے جسمانی فائدے بھی بہت زیادہ ہیں ؛لیکن ایک مسلمان اس لئے نماز نہیں پڑھتا ہے کہ اس کی کمر کا درد کاختم ہوجائے،وہ تو اس لئے کہ پڑھتاہے اس کے خدااور رسول نے یہی حکم دیا ہے ۔
جو دیکھ چکے ہیں شَفَقِ شام کا منظر
چڑھتے سورج کی عبادت نہیں کرتے