جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم ہندوستان کا مشہور دینی اور عصری ادارہ ہے، بلکہ یوں کہیئے کہ یہ پہلا مدرسہ ہے جہاں دینی اور عصری دونوں تعلیم کا نظام ہے، درسِ نظامی کے تمام شعبے بھی قائم ہیں اور عصری تعلیم کے بھی بہت سارے کالجز ہیں ، اسلامی اور دینی ماحول میں مسلم ڈاکٹرس اور انجینئرس تیار کئے جاتے ہیں تو وہیں دینی علوم سیکھنے والوں کو عصری تعلیم سے ہم آہنگ کیا جاتا ہےاور دس ہزار سے زائد طلبہ یہاں زیر تعلیم ہیں۔ اس ادارے کا قیام 1980 میں عمل میں آیا تھا اور صرف 37 سالوں کے عرصے میں اس ادارے نے ترقی کے ایسے نقوش ثبت کئے ہیں جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے، جامعہ اشاعت العلوم کے بانی و مہتمم اور اس پوری تحریک کے روح رواں مولانا غلام محمد وستانوی صاحب ہیں، آپ کی تعلیمی خدمات کا شہرہ پوری دنیا میں ہے اور عصری و دینی تعلیم میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے حوالے سے آپ کو خصوصیت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے ،2011 میں آپ کو ایشا کی عظیم درس گاہ دارالعلوم دیوبند کا مہتمم بھی بنایا گیا تھا لیکن سات ماہ بعد کچھ ناگزیر وجوہات کے بنا پر منصب اہتمام سے استعفی دینا پڑا ۔گذشتہ دنوں جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا ، مہاراشٹرا جاکر ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے ان کا خصوصی انٹر ویو لیا ہے اور مختلف امور پر بات چیت کی ہے ، گفتگو کے اقتباسات پیش ہیں قارئین کی خدمت میں (ادارہ)
سوال:جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے قیام کا سبب کیا چیز بنی ، کیسے اتنا بڑا ادارہ بنانے کا آپ نے ارادہ کیا اور کیا محرکات تھے؟
جواب:سلامیہ اشاعت العلوم کے قیام سے پہلے میرا ایک دعوتی تبلیغی سفر یہاں کا اپنے دوستوں کی دعوت پر ہوا تھا، اس وقت جب میں یہاں آیا تو مکرانی پھلی میں مہمان ٹھہرا ، دیکھاکہ مسجد بھی غیر آباد ہے ، قرب و جوار میں مکاتب بھی سسک رہے تھے ، نہ ہونے کے برابر تھے ، عوام خاص طور پر مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی قابل رحم تھی ،میں دو رات یہاں رہا، جمعہ کی نماز اکل کوا کی جامع مسجد میں پڑھی جو بہت چھوٹی سی تھی ، وہاں نماز سے قبل میرا بیان ہوا، اس دوران میرے دل میں اللہ کی جانب سے ایک مضبوط خیال آیا کہ یہاں بیٹھ جاؤ، اس کے بعد میں گجرات لوٹا اور اپنے تمام اکابرین کو میں نے خط لکھا کہ میں نے ایسی ایسی جگہ دیکھی ہے آپ کا کیا خیال ہے تو سبھی کا یہی جواب آیا کہ تم وہاں بیٹھ جاؤ، چناں چہ جب بزرگوں کا حکم ہوا تو میرا یہاں آنا جانا زیادہ ہوگیا، جب آنا جانا زیادہ ہوا تو سب سے پہلے میرے یعقوب دادا نے کہاکہ میں تین ایکڑ زمین دیتا ہوں ، زمین مل جانا بہت بڑی بات تھی ، دوسرے جمعہ کو حاجی سلیمان صاحب نے کہا کہ میں بھی زمین دیتا ہوں اور یوں چھ ایکڑ زمین ہوگئی ، پہلے تو مدرسہ کے ٹرسٹی حاجی شفیع صاحب سے کہا کہ ہم یہاں کے مقامی مکاتب کو مضبوط کریں گے اور جو چل رہے تھے اس کے اساتذہ کی تنخواہ میں اضافہ کردیا ، اس کے بعد میرے نانا ساؤتھ افریقہ رہتے تھے وہ جماعت میں آئے اور پتہ چلا تو انہوں نے مجھے بیس ہزار روپے دیئے ، تو اس سے میں نے ایک عارضی عمارت مکرانی پھلی میں بنائی ، یہ اکل کوا کا ایک محلہ ہے ، 1980 میں مکتب شروع ہوا اور 1981 میں دار الاقامہ شروع ہوگیا ، طلبہ رہنے لگے، سب سے پہلے اپنے دوست مولانا یعقوب شاد کو ناظم بنایا اور اپنے بھائی حافظ اسحاق کو مدرس بنایا ، طلبہ کی تعداد بڑھتی رہی اور میرا آنا جانا لگارہا۔ میرا عربی سے ذوق تھا اس لئے ان دنوں میں نے رابطہ عالم اسلامی سے رابطہ کیا ، تو انہوں نے فارم بھیجا اور لکھاکہ کہ سعودی سفارت خانہ سے تصدیق کراکر بھیجیں ، وہ فارم پُر کرکے میں نے درالعلوم کندھاریہ جہاں میں پڑھا تھا اس کا بھی اور اپنا بھی بھیجا، اس کے بعد بہت جلد میرے پاس سعودی سفارت خانہ سے بلاوا آیا ، ہم وہاں گئے اور انہوں نے ہمیں ایک لاکھ بیس ہزار رو پے دیئے، اس روپیہ کے بعد میرے یہاں وسعت پیدا ہوئی ۔
سوال :آج آپ کا ادارہ دینی اور عصری درس گاہوں پر مشتمل ہے دس ہزار سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں تو کیا اسی وقت آپ نے اس انداز کا ادارہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا یا اتفاقی طور پر اسبا ب پیدا ہوتے رہے اور آپ اضافہ کرتے رہے۔
جواب:اس وقت اس طرح کا کوئی پروگرام نہیں تھا، کوئی خاکہ نہیں تھا، بس افراد ملتے گئے کام بنتا گیا ، لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا، اس وقت ایک بہت اچھے آدمی اے جی شیخ صاحب ، ریٹائرڈ بی ڈی او تھے ، انہوں نے آئی ٹی آئی کی تحریک شروع کی ۔
سوال :حفظ قرآن کے فروغ اور مسابقہ کی سطح پر آپ کی خدمات ہندوستان بھر میں نمایاں ہے اور آپ کے کاموں کو ملک بھر میں سراہا جاتا ہے، یہ جذبہ آپ کو کہاں سے ملا۔
جواب :ایک مرتبہ میں عمرہ کے سفر پر تھا، وہاں میرے فلاحی کچھ احباب آئے ہوئے تھے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ مسابقے میں آئے ہیں ، یہاں دنیا بھر سے لوگ مسابقہ قرآن میں شریک ہونے کیلئے آتے ہیں، میں نے پوچھا یہ مسابقہ کیا ہوتا ہے ، تو انہوں نے کہاکہ سعودی عرب جو عالمی پیمانے کا مسابقہ کراتی ہے اس میں ہم لوگ آئے ہیں، وہاں انٹر کانٹر ہوٹل میں یہ سارا منظر میں نے دیکھا اور میرے دل میں جذبہ پیدا ہو اس کے بعد حرم شریف میں آکر میں نے دعا کی” یا اللہ مجھے بھی یہ خدمت کرنے کی توفیق نصیب فرما” اس کے بعد میں نے رابطہ کیا اور دوسرے سال مجھے بھی دعوت ملی ، لیکن سوئے اتفاق انہیں دنوں کویت اور عراق کی جنگ چل رہی تھی اس لئے ممبئی سے واپس آنا پڑا ، لیکن اگلے سال پھر دعوت ملی اور ہم وہاں گئے۔
سوال:اشاعت العلوم کا نصاب تعلیم دارالعلوم دیوبند کے موافق ہے یاکچھ مختلف ؟
جواب :ہمارے یہاں کا نصاب تعلیم دونوں اداروں سے ماخوذ ہے ، فقہ میں دارالعلوم دیوبند کا نصاب تعلیم لیا گیا ہے اور ادب عربی میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کا نصاب شامل کیا گیا ہے، اس کے علاوہ عالم عرب کی کئی اہم یونیور سٹیوں سے بھی یہاں کے نصاب میں کچھ شامل کیا گیا ہے اور حالات کے مطابق جدید فقہ اور عربی ادب کی تعلیم یہاں ترجیحی طور پر دی جاتی ہے ۔
سوال :دارالعلوم دیوبند کے نصاب تعلیم کے بارے میں مسلسل لوگ اعتراض کررہے ہیں ، جزوی ترمیم کا مطالبہ کررہے ہیں، ایسے میں آپ کا کیا نظریہ ہے اور بطور رکن شوری آپ کیا کہنا چاہیں گے۔
جواب:نصاب تعلیم کوئی اہم نہیں ، مسئلہ جدید و قدیم کا نہیں بلکہ افراد سازی کا ہے ، مدارس میں افراد سازی اور تربیت نہیں ہو پارہی ہے، مدارس میں لاکھوں طلبہ پڑھتے ہیں لیکن کام کے کتنے نکل رہے ہیں؟، طلبہ میں وہ شوق نہیں رہا اور نہ اساتذہ میں اب پڑھانے کا جذبہ ہے، مجھے تو یہ دیکھ کر بہت قلق ہوتا ہے کہ یوپی، بہار اور بنگال کے مدرسوں میں جماؤ بالکل نہیں ہے، اچھے طلبہ ہوتے ہیں تو اساتذہ کہتے ہیں کہ دارالعلوم چلے جاؤں یہاں کیا کررہے ہو، یہ نالائق اساتذہ محنت نہیں کرنا چاہتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ کلاس میں ذہین بچہ ہوگا تو وہ دماغ کھائے گا، بار بار سوال کرے گا اس لئے جان چھڑاتے ہوئے ان ذہین بچوں کو دارالعلوم دیوبند میں بھیج دیتے ہیں اور اپنے مدرسے کی شبیہ خراب کرتے ہیں ۔
سوال :آپ نے کہا کہ مدارس میں افراد سازی نہیں ہورہی ہے تو اس کیلئے کون ذمہ دار ہے طلبہ، اساتذہ یا ذمہ داران ؟
جواب :اس کیلئے سبھی ذمہ دار ہیں ، اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ، دارالعلوم دیوبند ، مظاہر علوم سہارنپور اور دار العلوم ندوۃ العماء سمیت تمام ادارے کی یہی صورت حال ہے، افراد سازی اور تربیت میں یہ ادارے اپنی روشن تاریخ سے محروم ہوچکے ہیں ، اس لئے میرا ماننا ہے کہ نصاب تعلیم سے زیادہ افراد سازی اور تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ بات قابل غور ہے کہ روشن تاریخ کے باوجود مدارس کا حال تاریک کیوں ہوتا جارہا ہے مستقبل اور غیر واضح ہےنظر آرہاہے۔
سوال :آپ نے د ینی اداروں کے ساتھ عصری ادارہ بھی قائم کیا ہے اس کا آپ کیا فائد ہ محسوس کررہے ہیں اور اب تک آپ نے کیا کامیابی حاصل کی ہے؟ ۔
جواب:اس کے بہت فوائد ہیں، قوم کے بچے ڈاکٹر س، ایجینئرس بن رہے ہیں، عصری تعلیم سیکھ رہے ہیں اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عصری تعلیم وہ دینی ماحول میں سیکھ رہے ہیں ۔ لیکن اس میں بھی ہم سو فیصد کامیاب نہیں ہیں ، ان کے ساتھ ہم سختی نہیں کرسکتے ہیں ، ان بچوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے علاوہ ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے ، یہ بچے جس نظام اور سسٹم سے آتے ہیں انہیں رکھنا ہی بہت مشکل ہے ، ایک جگہ میں نے انٹرویو میں کہاکہ “ہمارے بارے میں بعض لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ مولانا صاحب نے یہ کیا کیاکہ دینی مدرسہ میں انہوں نے کالج بنا رکھا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ یہ کیا کیا مولانا نے کہ انگریزی پڑھنے والوں کو دین سکھارہے ہیں”۔ یہ دونوں غلط فہمی میں ہیں، عصری اداروں کا نظام الگ ہے، دینی ادارے کا نظام الگ ہے ، دونوں مستقل ہے۔ ایک کی وجہ سے دوسرے کو کوئی زک اور نقصان نہیں پہونچ سکتا ہے۔ کالج حکومت کے نظام کے مطابق چلتے ہیں ۔
سوال :مدارس کی سرٹیفیکٹ عموما معتبر نہیں ہوتی ہے، اس کا اعتبار نہیں ہوتا ، دسویں کی سرٹیفیکٹ نہ ملنے کی وجہ سے طلبہ کی پریشانی مزید بڑھ جاتی ہے ؟
جواب:نہیں اب ایسی بات نہیں ہے ، علی گڑھ مسلم یونیور سیٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی نے ہماری فضیلت کی سرٹیفیکٹ کو گریجویشن کے مساوی تسلیم کیا ہے ، جہاں تک بات دسویں کی سرٹیفیکٹ کی ہے تو ہم نے اس سلسلے میں بھی اقدام کیا ہے ، نیشنل اوپن اسکول کی ہم نے یہاں منظوری لے لی ہے، سال رواں 150 طلبہ نے امتحان بھی دیا ہے اور آئندہ سال بھی دیں گے ، ہمارا مستقبل کا نظام ہے کہ ہمارا ہر فاضل بارہویں پاس ہو ۔
سوال :دارالعلوم دیوبند کے طلبہ دسویں کی سرٹفیکیٹ نہ ہونے اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر یونیورسٹیز اور عصری اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بہت دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں، آپ وہاں کے رکن شوری ہیں تو کیا اس طرح کی کوئی تجویز پیش کریں اور وہاں بھی ایسا کوئی نظام لانا چاہیں گے ۔
جواب :نہیں! دارالعلوم دیوبند میں یہ سب مشکل ہے ، شوری کی میٹنگ میں بھی ہم نہیں کہہ سکتے ہیں، کبھی کبھی اس طرح کی بات آتی ہے لیکن دارالعلوم دیوبند والوں کو یہ بات گلے کے نیچے نہیں اتر رہی ہے ، انہیں مولانا بدر الدین اجمل صاحب کی انگریزی سکھانے کی کوشش اچھی نظر آئی تو انہوں نے اپنے یہاں انگریزی کا شعبہ قائم کیا ہے اور اس سے کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے وہ شعبہ اچھا چل رہا ہے، لیکن اس کو عصری تعلیم کا نظام بھی نہیں کہہ سکتے ہیں، جن دنوں میں دارالعلوم دیوبند کا مہتمم تھا تو ایک بات یہ بھی آئی کہ وستانوی صاحب دارالعلوم دیوبند کو کالج بنادیں گے ، یہاں کی روحانیت ختم کردیں گے، اور طرح طرح کے پیروپیگنڈے کئے گئے ۔
سوال :دارالعلوم دیوبند کے اہتمام سے آپ نے استفعی کیوں دیا ،اور کن لوگوں کو اس پورے واقعہ کیلئے ذمہ دار مانتے ہیں ؟
جواب :دارالعلوم دیوبند سے ہمارا روحانی ، قلبی اور علمی تعلق ہے وہ ہمیشہ برقرار رہے گا ، جہاں تک اہتمام سے استعفی کی بات ہے وہ ہمارا فیصلہ تھا ، ہاں یہ ضرور ہے کہ طلبہ کا غلط استعمال کیا گیا ، دارالعلوم دیوبند میں کچھ لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر سیاست کی اور اس عظیم ادارے کی عظمت کو نقصان پہونچایا۔
سوال :صوبائی اور ضلعی سطح پر ایسے اسکول اور کالجز کے قیام کی ضرورت ہے جہاں اسلامی ماحول میں مسلمان بچوں کو عصری تعلیم دی جائے ، آپ کو اللہ تعالی نے بہت سارے وسائل سے نوازا ہے ، تو آپ کیا کررہے ہیں اور کیا عزائم ہیں آپ کے اس بارے میں ۔
جواب:اس وقت دنیا کے حالات ایسے ہیں کہ بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے واقف کرانا بہت ضروری ہے ، جو کالجز ، علی گڑھ ،جامعہ ملیہ اور ہم نے قائم کئے ہیں وہ اور ہونے چاہیئے ، ہر صوبے اور ضلع میں اس طرح کالجز ہونے چاہیئے جہاں اسلامی ماحول میں عصری تعلیم دی جائے ۔ یوپی میں مسلمانوں کا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے ، بہار میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے ، بنگال میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے ، مدارس اپنی جگہ کام کررہے ہیں لیکن مسلمانوں کے عصری ادارے نہیں ہیں ، سچر کمیٹی کی رپوٹ کہتی ہے کہ مدارس میں صرف دو فیصد مسلم بچے پڑھتے ہیں تو پھر 98 فیصد کہاں ہیں ، ان کی تعلیم کا ہم نے کیا انتظام کیا ہے ، اس لئے بہت ضروری ہے کہ مسلمان اپنا تعلیمی ادارہ قائم کریں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس مال نہیں ہے ، معاملہ یہ ہے کہ جن کے پاس مال ہے انہیں دلچسپی نہیں ہے ، جنہیں دلچسپی ہے ان کے پاس اسباب نہیں ہے ، اس لئے سرمایہ کاروں اور کام کرنے والوں کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔
سوال :یوپی اے حکومت نے 2011 میں ایک بل پیش کیا تھا لازمی حق تعلیم کا ، جس میں 14 سال کی عمر تک ہر ایک کیلئے پڑھنا لازمی تھا، ایک مسلم تنظیم نے اسے مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیکر مسلمانوں کو اس سے الگ کرادیا ، آپ کی کیا رائے ہے ؟۔
جی یہ جو کچھ ہوا بالکل غلط ہوا ، جس مسلم تنظیم کی بات کررہے ہیں آپ ؛ اس نے اس بل کی مخالفت کرکے مسلمانوں کو جاہل بنانے کی وکالت کی اور مسلمانوں کو پڑھنے کے حق سے محروم کردیا، آپ بتائیں اس قانون کی کون سی شق مسلمانوں کے مذہب ، عقیدہ اور شریعت کے خلاف تھی، اس میں مسلمانوں کا اور فائدہ تھا کہ غربت اور پسماندگی کے سبب پچاس فیصد والدین اپنے بچوں کو نہیں پڑھا پاتے ہیں ایسے میں فری میں مسلم بچے تعلیم یافتہ ہوجاتے۔ رائٹ ٹو ایجوکیشن میں اپنے بچوں کو الگ کرکے ہم نے غلط کیا ، وہاں بچے پڑھ کر بچے مدرسے میں بھی آسکتے تھے اور یہ بہت اچھا تھا لیکن جس تنظیم نے بھی کیا اس نے مسلمانوں کے ساتھ غلط کیا اور کانگریس نے بھی دباؤ میں آکر اسے تسلیم کرلیا جس پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتاہے۔برطانیہ میں یہ قانون ہے اور وہاں اس کے بہتر فوائد مرتب ہورہے ہیں ،شرح خواندگی قابل رشک ہے۔
سوال :ملک کے سیاسی منظرنامہ اور موجودہ ماحول سے مسلمان خوف زدہ نظر آرہے ہیں ، آپ کس طرح اسے دیکھ رہے ہیں ؟
جواب :مسلمانوں کو سیاست سے الگ ہوجا نا چاہیئے، سیاست چھوڑ کر تعلیم میں لگ جانا چاہیئے ، جب ایک آدمی کہہ رہاہے کہ تمہاری ضرور ت نہیں ہے تو پھر تم کیوں وہاں جارہے ہو ، تعلیم حاصل کرو ، تجارت کرو ، کون کہہ رہاہے کہ تم ایم پی بن جاؤ ، منسٹر بن جاؤ ، کامیابی چاہتے ہوتوتعلیم پر توجہ دو ۔
سوال :ہندوستا ن میں آزاد ی کے بعد سینکڑوں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ، مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ، لیکن ہندوستان کی مسلم قیادت سبھی کو فراموش کرکے 2002 کے گجرات فساد کو یاد رکھی ہوئے ہوئی ہے، اس نام پر ہمیشہ وہ سیاست کرتی ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟ ۔
جواب :یہ سوال ان سے پوچھیے جو اس نام پر سیاست کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں ،گجرات کے مسلمان تعلیم اور تجارت میں مصروف ہیں اور ترقی کی جانب ان کے قدم رواں دواں ہیں ۔
مذکورہ گفتگو کے ساتھ مولانا غلام محمد وستانوی صاحب نے ملت ٹائمز کا شکریہ ادا کیا ساتھ ہی سائبر میڈیا کے ذریعہ ملت کی ترجمانی اور مسلم مسائل کی آواز اٹھانے کے سلسلے میں ملت ٹائمز کی ستائش کی اور اسے بہتر قدم قرار دیا ۔
مکمل انٹر ویو پڑھنے کیلئے آپ قارئین کے بہت شکریہ ، آپ اپنا تبصرہ یہاں ضرور لکھیں یا ہمیں میل کریں، بہت جلد ہم ایک نئی شخصیت کے افکار و خیالات آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔