علی الشہابی
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی صدر کی حیثیت سے اپنے پہلے غیرملکی دورے پر سب سے پہلے سعودی عرب جائیں گے۔اس سے سعودی عرب کے نئی امریکی انتظامیہ سے رابطوں اور صدر ٹرمپ کے عدم استحکام کا شکار خطے کو مستحکم بنانے کی غرض سے تزویراتی اتحاد کے لیے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ علامتی اظہاریہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مشرق ِ وسطیٰ میں آج کے ایشوز سے آگاہ ہے۔
آج کے مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی بادشاہتوں کو نیچا دکھانے کے لیے بھرپور کوشش کی جارہی ہے حالانکہ یہ بادشاہتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں محاذِ اوّل ( فرنٹ لائن) کا کردار ادا کررہی ہیں۔اس کے باوجود ان بادشاہتوں کی کوئی تعریف وتحسین نہیں کی جاتی ہے۔سعودی عرب اور دوسرے ممالک کے حکمراں خاندان مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں کھیلے جانے والے ” عظیم کھیل“ میں آخری دفاعی حصار کے طور پر سامنے آئے ہیں جبکہ عالمی استحکام بھی اسی سے جڑا ہوا ہے۔
ایران ، داعش اور القاعدہ یہ سب خلیجی بادشاہتوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ایران کی شیعہ ملّائیت اپنے تحت حکمراں چاہتی ہے۔جہاں تک القاعدہ اور داعش کا معاملہ ہے تو وہ سخت گیرسنی خلافت کا قیام چاہتے ہیں۔ایران اور سنی جہادی دونوں ہی اسلام کے مقدس شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔وہ سعودی عرب کے تیل کے کنووں پر بھی قابض ہونا چاہتے ہیں۔یہ ایک ایسا تحفہ ہوگا جو انھیں اسلامی دنیا اور اس سے ماورا اثرورسو خ دلا دے گا۔
سعودی عرب کے نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خبردار کیا ہے کہ ان کا ملک ایرانی رجیم کا بنیادی ہدف ہے۔
جی سی سی سے تعلقات
ان تینوں کا راستہ سعودی عرب کی قیادت میں روایتی خلیجی حکمراں نظم یعنی خلیج تعاون کونسل ( جی سی سی) کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے۔چھے خلیجی بادشاہتیں۔۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ،بحرین ، کویت ،اومان اور قطر۔۔۔ایسی آخری اساسی ستون ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ خطے میں قومی ریاست کے ڈھانچے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔وہ نہ صرف ایران اور داعش کے پھیلاو¿ کے خلاف ایک قلعہ کا کردار ادا کررہی ہیں بلکہ وہ اپنی سرحدوں سے ماورا اردن ، مصر ، پاکستان اور دوسری علاقائی ریاستوں کی مدد و حمایت کرکے ان کے قومی ریاست کے ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں بھی مدد دے رہی ہیں۔وگرنہ ان کی فعال مدد کے بغیر ان ممالک کے ریاستی ڈھانچوں کا دھڑن تختہ ہوسکتا تھا۔عرب بادشاہتوں کے بڑے بڑے امدادی چیکوں کے بغیر مصر اب تک گھٹنوں کے بل گر چکا ہوتا۔اردن کا بھی یہی معاملہ ہے۔یمن ،جہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی ایک قانونی حکومت کے خلاف سفاکانہ جنگ لڑرہے ہیں ، اب تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹتا نظر آرہا ہے لیکن اگر خلیج کی بھرپور مدد نہ ہوتی تو یہ ملک تباہی سے دوچار ہوچکا ہوتا۔جی سی سی کے ممالک نے لاکھوں یمنی مہاجرین اور ورکروں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔
تاہم بہت سے مغربی دانشوروں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ خلیجی بادشاہتوں کے وجود کو پسند نہیں کرتے ہیں۔اس لیے وہ ان بادشاہتوں کو امریکا کےا تحادی کے طور پر کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے ہیں۔تاج شاہی پہننے والے یہ سر بہت سی چیزوں کے نمائندہ ہیں مگر وہ ان دانشوروں کے نزدیک ضرررساں ہیں۔ وہ یہ کہ : مطلق العنان حکمرانی ،وراثتی اقتدار ، بغیر کمائی حاصل ہونے والی دولت اور مراعات اور خواتین کے حقوق کو دبانے کی پالیسیاں۔ان سب کو اسلام کی اس تعبیر وتشریح سے مہمیز ملتی ہے جس کا بیانیہ جہادیوں اور دہشت گردوں کی کارروائیوں کے تناظر میں بیان کیا جاتا ہے۔
یہ رویہ بہت ہی خطرناک ہے۔خلیجی بادشاہتوں میں ابھی سماجی ترقی کے محاذ پر بہت کچھ ہونا باقی ہے لیکن یہ بادشاہتیں اپنے عوام کو بہترین سہولتیں مہیا کرتی ہیں۔ان ممالک میں عشروں سے استحکام اوربہتر نظم ونسق جاری ہے اور گذشتہ ستر سال کے دوران میں آزاد ہونے والے نو آبادیاتی نظاموں ،خواہ یہ سوشلسٹ ممالک ہوں ،عرب قوم پرست ،کمیونسٹ ،اسلام پسند ہوں یا لبنان ایسے جمہوری ممالک ،ان کی نسبت عرب بادشاہتوں کے ہاں صورت حال کہیں بہتر ہے۔
جی ہاں !ان بادشاہتوں نے یقینی طور پر آزادیوں پر قدغنیں لگائی گئی ہوں گی لیکن ان کی اپنے ہی عوام کی آزادیوں کو محدود کرنے کی کاوشیں اپنے ہم زاد جمہوریوں اور اسلامیوں کے مقابلے میں ماند نظر آتی ہیں۔ ایران میں 1979ئ کے انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے ایرانیوں کی تعداد شمار کیجیے۔ یہ تعداد تمام عرب بادشاہتوں میں تہ تیغ کیے گئے ا پھانسی چڑھائے گئے افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ایرانی رجیم کی سفاکیت کا صرف شام اور عراق کے بعثی جمہوریوں ہی سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
اشرافیہ کے کسی قسم کی بدعنوانی میں ملوث ہونے کے باوجود ان بادشاہتوں کی رعایا معیشت میں سے اپنا کچھ نہ کچھ حصہ وصول کررہی ہے اور انھیں مذکورہ بالا ریاستوں کے شہریوں سے کچھ زیادہ ہی حصہ ملا ہے۔یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ عرب ریاستیں اپنے عوام پر بہتر سماجی اثرات کی بدولت عرب بہار کے عنوان سے ہونے والی طوائف الملوکی اور خونریزی سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی ہیں۔
تزویراتی شراکت دار
خلیجی بادشاہتیں ہی اپنی خوبیوں اور خامیوں کے باوصف مشرق وسطیٰ کے خطرناک خطے میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ کمزور ہوتیں یا ان کا سقوط ہوجاتا تو یہ بات ناقابل یقین نہیں کہ ان کے ساتھ ہی بین الاقوامی نظام دھڑام سے نیچے آگرتا۔
دنیا کے نقشے کے وسط میں انقلاب اور انارکی کا ذرا تصور کیجیے۔اس سے خطے میں سمندری اور فضائی راستے خطرے سے دوچار ہوجاتے اور تیل کے انفرااسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچتا اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی مسلم کمیونٹی مزید غیظ وغضب کا شکار ہوجاتی۔یہ آئیڈیا کوئی مبالغہ آمیز نہیں لگتا کہ اس طرح عالمی تنازع کی راہ ہموار ہوسکتی تھی۔ماضی کی عالمی جنگیں تو اس سے بھی کم تر واقعات کی وجہ سے شروع ہوئی تھیں۔
مغرب کو خلیجی بادشاہتوں کے نظام کو اپنے تزویراتی شراکت دار کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اس کی مکمل حمایت کرنی چاہیے کیونکہ وہ خطرناک انقلابی فورسز کے مقابلے میں کھڑی ہیں۔وہ نہ صرف داعش اور القاعدہ کے مقابل کھڑی ہیں بلکہ ایران کے سامنے بھی کھڑی ہیں جو ایک خطرناک اور منظم انقلابی اداکار ہے اور وہ داعش یا القاعدہ سے زیادہ خطرناک ہے۔ایران کی انقلابی صلاحیت ان سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ اس کو ایک جدید ریاست کے وسائل حاصل ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بھی خطرناک ہے کہ یہ خود کو بین الاقوامی نظام کے ایک ذمے دار رکن کے طور پر پیش کرتا ہے۔وہ امن کے لیے کوشاں ہوتا ہے اور سفارتی کھیل کھیلتا ہے جبکہ وہ پاسداران انقلاب کور اور اپنے غیر ریاستی اداکاروں اور دہشت گرد گماشتوں کے ذریعے خطے بھر میں عرب نظام کو گرانے کے لیے کام کررہا ہے۔
عرب بادشاہتوں کی کامیابیوں کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے، اگر مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں خطرناک لڑھکتے ہوئے رجحان کو روکنا اور واپسی کا راستہ دکھانا ہے تو۔
صدر ٹرمپ نے یہ اعلان کرکے کہ ان کا پہلا غیرملکی دورہ سعودی عرب کا ہوگا،یہ ظاہر کردیا ہے کہ ان کی انتظامیہ یہ بات واضح طور پر سمجھتی ہے کہ دنیا کا کیا کچھ داو¿ پر لگا ہوا ہے۔
بشکریہ العربیہ اردو