نم آنکھوں کے ساتھ استاذ الاساتذہ مولانا ریاست علی بجنوری سپردخاک ,علمی حلقوںکی فضاءمغموم، پوری دنیا میں پھیلے ہزاروں شاگروں میں صف ماتم ،قاسمی قبرستان میں تدفین

دیوبند(ملت ٹائمز۔سمیر چودھری)
ترانہ¿ دارالعلوم دیوبند کے تخلیق کار، مایہ ناز استاذ اور اردو ادب میں ممتاز مقام و حیثیت کے حامل نائب صدر جمعیة علماءہند مولاناریاست علی بجنوری کا آج علی الصبح مختصر علالت کے سبب انتقال پرملال ہوگیا،انا للہ و انا الیہ راجعون۔مرحوم نے تقریباً75 برس کی عمر پائی،جس میں سے 45 سال دارالعلوم دیوبند کی خدمت میں گذارے ۔ ان کے انتقال سے علمی فضامغموم ہوگئی اور اس خبر سے علماءطلباءکے علاوہ پوری دنیا میں پھیلے ان کے تلامذہ اور عوام و خواص میں غم کی لہر دوڑ گئی۔مرحوم دارالعلوم دیوبند میں ممتاز اردو ادیب ، کہنہ مشق سہل شستہ اسلوب کے ماہر مدرس تھے،سادہ طرز کی گفتگو کے عادی اور بہترین مشیر ہونے کے ساتھ طرز زندگی نہایت سادہ اور عام ساتھا۔مایہ ناز استاذمولانا ریاست علی کے انتقال پر ملک کے نامور علماءکرام نے مرحوم کے ورثاءسے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مولانا کے انتقال کو عظیم خسارہ بتایا ۔ نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں دیوبند و بیرون دیوبند کے علماءو طلباءو عوام نے شرکت کی ۔ مولانا ریاست علی بجنوری تقریباً گزشتہ 45 سال سے دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس اپنی علمی ،اصلاحی اور تربیتی خدمات انجام دے رہے تھے۔ مولانا کا شمار دارالعلوم دیوبند کے ان اساتذہ میں ہوتا ہے جو دارالعلوم دیوبند کے قضبہ¿ سے پہلے سے دارالعلوم میں مدرس کی حیثیت سے موجود تھے، 1980ءکے بعد ادارہ کی علمی و انتظامی ترقی میں آپ کا زبردست کردار رہاہے۔ دارالعلوم دیوبند کے تحریرامور کی ذمہ داریوںکے ساتھ مولانا مرغوب الرحمن ؒ کے دور میں ادارہ کے کلیدہ عہدوں پر فائز رہے اور طویل مدت تک شعبہ تعلیمات کے ناظم کی ذمہ دایاں انجام دیں۔مرحو م کااردو ادب سے کافی گہرا رشتہ تھا، آپ ترانہ دارالعلوم دیوبند کے تخلیق کار ہیں اور اپنے استاذ حضرت مولانا فخر الدین ؒ کے درس بخاری ایضاح البخاری کے مرتب بھی ہیں،جس کی تقریباً 10 منظر عام پر آچکی ہیں۔تصنیف و تالیف کا زبردست شوق رکھتے تھے اور اپنے چھوٹی کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے۔گزشتہ نصف صدی پر محیط آپ کی دینی ،علمی ،اصلاحی اور تربیتی خدمات کے سبب آج پورے عالم میں آپ کے ہزاروں شاگر د قال للہ اور قال رسول کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ عام سا رہن سہن اور سادہ زندگی مولانا کا خاصہ تھی۔ مرحوم عہدحاضر کے پایہ بزرگ اور معتبر ادیبوں میں صف اول کی حیثیت رکھتے تھے۔ترانہ دارالعلوم دیوبند کے علاوہ ’ نغمات سحر ‘کے نام سے آپ کاایک مجموعہ کلام بھی منظر عام پر آچکا۔ دارلعلوم دیوبند کی خدمات کے ساتھ جمعیة علماءہند کے پلیٹ فارم سے بھی آپ کی اعلیٰ خدمات ہیں اور فی الوقت جمعیة علماءہند کے نائب صدر کے طورپر پر آپ نمایاں طورپر سماجی و اصلاحی کاموں میں حصہ دار تھے۔ قابل ذکر امر یہ ہے فی الوقت دارالعلوم دیوبند کے اکثر اساتذہ کا آپ کے شاگروں میں شمار ہوتاہے۔ مولانا مرحوم ویسے کافی عرصہ سے مختلف امراض میں مبتلا تھے مگر علاج ومعالجہ کے سہارے وہ مسلسل دارالعلوم آکر درس و تدریس کی خدمات نمایاں طورپر انجام دے رہے تھے۔ مرحوم کا انتقال دارالعلوم دیوبند اور جمعیة علماءہند کے ایک باب کا خاتمہ ہے۔ پسماندگان میں چاربیٹے ہیں۔ نماز جنازہ بعد نماز ظہر احاطہ مولسری میں جمعیة علماءہند کے صدر قاری عثمان منصور پوری نے ادا کرائی۔ بعد ازیں ہزاروں سوگواروںکی موجودگی میں قبرستان قاسمی میںتدفین عمل میں ۔نماز جنازہ میںدارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی،نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی، مولانا عبدالخالق سنبھلی، مولانا سلمان بجنوری،جامعہ امام محمد انورکے مہتمم مولانا احمد خضر شاہ مسعودی، ندائے شاہی کے مدیر اعلیٰ مولانا سید سلمان منصور پوری،جمعیة علماءہند کے خازن مولانا حسیب صدیقی، ماہنامہ ترجمان دیوبند کے مدیر اعلیٰ مولانا ندیم الواجدی،سابق رکن اسمبلی، معاویہ علی،معروف روحانی معالج حافظ فہیم عثمانی،سید وجاہت شاہ،ڈاکٹر انور سعید، سہیل صدیقی،عدیل صدیقی،شمیم مرتضیٰ فاروقی سمیت دارالعلوم دیوبند کے جملہ اساتذہ وکارکنان کے علاوہ کثیر تعداد میں عمائدین شہر اور اطراف کے لوگوں نے شرکت کی۔


مولانا ریاست علی بجنوری کاتعارف!
مرحوم کی زندگی ابتداءتا انتہاءعلم وحکمت ،درس وتدریس اور تعلیم وتعلم کی مکمل کہانی ہے ،9مارچ 1940ءکوعلی گڑھ میں پیدا ہوئے، آپ کا آبائی وطن موضع حبیب والا ضلع بجنور ہے ، ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد اپنے پھوپھا مولانا سلطان الحق بجنوری(ناظم کتب خانہ دارالعلوم دیوبند )کے ہم راہ11برس کی عمر میں1951 میں دارالعلوم دیوبند پہنچے۔7سال تک تعلیم حاصل کرکے 1958 میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی، اس کے بعد بھی حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادی ؒ، کی آغوش تربیت میں رہ کر برسوں استفادہ کیا اور اپنے استاذ محترم کے درس بخاری کی تقریروں کو مرتب کر کے ایضاح البخاری کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ 1972میں دارالعلوم میں مدرس مقرر ہوئے کچھ برسوں تک تدریس کے ساتھ ساتھ ماہنامہ دارالعلوم کی ادارت کی ذمہ داری بھی انجام دی 1405 میں مجلس شوریٰ نے آپ کو مجلس تعلیمی کا ناظم مقرر کیا1408 میں آپ کو شیخ الھند اکیڈمی کا نگراںمقرر کیا گیا ۔