ریاض(ملت ٹائمز؍ایجنسیاں)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر اتوار کو قریباً پچاس عرب اور مسلم ممالک کے لیڈروں کے اجتماع سے خطاب کیا ہے ۔ وائٹ ہاؤس نے ان کی اس تقریر کا درج ذیل متن جاری کیا ہے-۔یہاں اس کے اہم اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی اس تقریر کو ان کے دورے میں مرکزی حیثیت ہے۔ انھوں نے اس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو موضوع بنایا ہے۔ اس کے متن میں کہا گیا ہے:’’ ہم ایک اصولی حقیقت پسندی اختیار کر رہے ہیں۔اس کی جڑیں مشترکہ اقدار اور مفادات میں پیوست ہیں‘‘۔
’’ہمارے دوست کبھی ہماری حمایت کے بارے میں سوال نہیں کریں گے اور ہمارے دشمنوں کو ہمارے عزم کے بارے میں کوئی شک نہیں ہوگا۔ ہماری شراکت داری استحکام کے ذریعے سلامتی کو بہتر بنائے گی اور روایتی اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہوگی‘‘۔
’’ہم حقیقی دنیا کے نتائج کی بنیاد پر فیصلے کریں گے اور غیر لچک دار نظریے کے ذریعے ایسا نہیں ہوگا۔ ہم تجربات سے سبق سیکھیں گے اور کٹرپن پر مبنی سوچ کو نہیں اپنائیں گے۔ جہاں کہیں ممکن ہوا ،ہم بتدریج اصلاحات کریں گے اور اچانک مداخلت نہیں کریں گے‘‘۔
’’ ہمارا مقصد قوموں کا ایک ایسا اتحاد تشکیل دینا ہے جس کا مشترکہ مقصد انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور اپنے بچوں کو ایک امید بھرا مستقبل دینا ہے اور جس میں اللہ کا احترام کیا جائے‘‘۔
’’امریکا ایک خود مختار قوم ہے اور ہماری اولین ترجیح ہمیشہ سے اپنے شہریوں کا تحفظ اور سلامتی رہی ہے۔ ہم یہاں کوئی لیکچر دینے نہیں آئے ہیں اور نہ دوسروں کو یہ بتانے آئے ہیں کہ انھیں کیسے رہنا چاہیے اور کیا کرنا چاہیے یا عبادت کیسے کی جاتی ہے بلکہ ہم یہاں مشترکہ اقدار اور مفادات پر مبنی شراکت داری کی پیش کش کے لیے آئے ہیں تاکہ ہم سب ایک بہتر مستقبل کا مقصد حاصل کرسکیں‘‘۔
’’ جب کبھی ایک دہشت گرد ایک بے گناہ شخص کا قتل کرتا ہے اور غلط طور پر اللہ کا نام لیتا ہے تو یہ اس عقیدے کے پیروکار ہر شخص کی توہین ہونی چاہیے‘‘۔
’’ ہم اس برائی پر اسی وقت قابو پا سکتے ہیں جب اچھائی کی قوتیں متحد اور مضبوط ہوں اور ہر کوئی اپنے حصے کا کام کرے اور اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھائے‘‘۔
’’ دہشت گردی دنیا بھر میں پھیل چکی ہے لیکن امن کا راستہ یہاں اس قدیم اور مقدس سرزمین سے نکلتا ہے۔ امریکا مشترکہ مفادات اور سلامتی کے حصول کے لیے آپ کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار ہے‘‘۔
’’ لیکن مشرق وسطیٰ کی اقوام کو اس دشمن کو کچلنے کے لیے امریکی طاقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ان اقوام کو خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے لیے ، اپنے ملکوں اور اپنے بچوں کے لیے کیا مستقبل چاہتے ہیں‘‘۔
’’ یہ مختلف عقیدوں ، مختلف فرقوں یا مختلف تہذیبوں کے درمیان جنگ نہیں ہے بلکہ یہ سفاک مجرموں اور تمام ادیان کے ماننے والے مہذب لوگوں کے درمیان جنگ ہیں اور یہ مہذب لوگ اپنا تحفظ چاہتے ہیں۔ یہ برائی اور اچھائی کے درمیان جنگ ہے‘‘۔
’’اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی سے متاثرہ گروپوں کا دیانت داری سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ بے گناہ مسلمانوں کے قاتل کے مقابلے میں،خواتین کے خلاف جبر ، یہودیوں کے خلاف امتیازی سلوک اور مسیحیوں کے قتل عام کے خلاف اکٹھے مل کر کھڑے ہونا ہوگا‘‘۔
’’مذہبی قائدین کو یہ بات بالکل واضح کر دینی چاہیے: سفاکیت سے تمھیں ( دہشت گردوں) کو کوئی تقدس نہیں ملے گا۔ برائی سے کوئی وقار نہیں ملے گا۔اگر تم دہشت گردی کے راستے کا انتخاب کرو گے تو پھر تمھاری زندگی خالی اور مختصر ہوگی اور تمھاری روح کی مذمت کی جائے گی‘‘۔