افتخار راغب
سونا چاہت ہیرا من شہزادے کا
عشق سراپا پیراہن شہزادے کا
▪▪▪ شدتِ جذبات و احساسات سے لبریز فوزیہ رباب صاحبہ کی یہ غزل پڑھ کر روح سیراب و سرشار ہو گئی۔ شہزادہ رباب صاحبہ کی شاعری کا محور سا بنتا جا رہا ہے۔ کئی غزلیں اور متفرق اشعار شہزادے پر آپ نے کہے ہیں جن کا رنگ و آہنگ جداگانہ و منفرد ہے۔ شاعر کا اپنے مخصوص لہجے کو پا لینا اس کی شاعری کا معراج سمجھا جاتا ہے۔ یعنی کسی شاعر کا کوئی شعر یا غزل پڑھ کر کوئی یہ اندازہ کر لے کہ یہ فلاں شاعر کا ہے یا ہو سکتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں رباب صاحبہ کی شاعری نے اپنا مخصوص لہجہ پا لیا ہے۔ ان کی شاعری بھیڑ میں الگ خوشبو و روشنی بکھیرتی ہوئی محسوس ہوتی یے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہندی بحروں پر مضبوط گرفت ہونا فطری شاعر ہونے کی ایک شناخت ہے۔ رباب صاحبہ کے یہاں کثرت سے میں نے ہندی بحروں میں کلام دیکھا یے۔ جن میں بلا کی روانی و دلکشی پائی جاتی ہے اور ہہ بڑی خوش بختی کی بات ہے۔
سونے اور ہیرے جیسے الفاظ سے مزئین اس غزل کا مطلع پوری طرح قاری یا سامع کو مسحور کر دیتا ہے۔ سونا چاہت، ہیرا من اور عشق سراپا پیراہن نے جو دلکشی و دلربائی بکھیری ہے اسے بس محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اس سے بڑھ کر کیا دولت کی چاہ کروں
میرے پاس ہے سندر من شہزادے کا
▪▪▪ قافیے کا اعادہ ہو گیا ہے لیکن شعر خوب ہے۔ اس کو دو چار اشعار کے بعد غزل میں رکھا گیا ہوتا تو اور بھلا محسوس ہوتا۔
ان کو آنسو مت کہنا اچھے لوگو
آنکھ میں اترا ہے ساون شہزادے کا
▪▪▪ اچھی اور مرصع شاعری کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اس میں کسی بھی لفظ کی جگہ دوسرا لفظ رکھ کر دیکھا جائے تو شعر کا صوتی و معنوی آہنگ پست ہی محسوس ہو۔ آئیے پہلے مصرع کے ” اچھے لوگو “ کو بدل کر دیکھتے ہیں۔ اس کی جگہ پر ہم” پیارے لوگو “،” سچے لوگو “ یا ” بھولے لوگو “ یا ” دنیا والو “ جیسے کئی الفاظ رکھ سکتے ہیں لیکن وہ بات نہیں آسکتی جو ” اچھے لوگو “ میں ہے۔ آنکھ میں ساون کا اترنا بھی خوب ہے۔
ایک دعا ہی لب پر اٹکی رہتی ہے
کبھی نہ چھوٹے اب دامن شہزادے کا
▪▪▪ عام سی بات ہے لیکن خاص انداز نے شعر میں روح پھونک دی ہے۔ دعا کا لب پر اٹکا رہنا بھی خوب لطف دے رہا ہے۔
میں بھی ہوں انمول نگاہوں میں اس کی
اور بھلا کیا ہوگا دھن شہزادے کا
▪▪▪ بے شک آپ انمول ہیں شہزادے ہی کیا ہم سب کی نظروں میں بھی۔ آپ کی شاعری تو اور زیادہ انمول بنا رہی ہے۔
آس لگائے نین بچھائے ہر لمحہ
رستہ دیکھے یہ برہن شہزادے کا
▪▪▪ شعر میں تھوڑا تعقید ہے لیکن اس کی برجستگی و بے ساختگی اسے پسند کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
کروں دعائیں دیپ بہا کر پانی میں
میرے سنگ کٹے جیون شہزادے کا
▪▪▪ اللہ آپ کی دعا پوری کرے۔ ممکن ہے بعض احباب کو دعا کرنے کا یہ انداز پسند نہ آئے۔ لیکن جذبہء عشق سے سرشار برہن کو کہاں کسی بات کی پروا ہوتی ہے۔ جو ترکیب بھی کوئی بتا دے اس کو کر گزرنے کے لیے بے تاب ہوتی ہے۔ بھر پور نسائی جذبات کا اظہار ہے۔
جب بولے تو صحرا میں بھی پھول کھلیں
شیریں لب، سیراب سخن شہزادے کا
▪▪▪ سیراب سخن کی ترکیب پہلی بار نظر سے گزری ہے اور خوب ہے۔ شہزادے کی بولی اس کے شیریں لب اور اس کے سیراب سخن سے صحرا میں بھی پھول کا کھل اٹھنا خوب لطف دے رہا ہے۔
ہر پل ہر دم رستہ دیکھا کرتی ہوں
میں پگلی، دیوانی بن شہزادے کا
▪▪▪ دیوانی بن میں ” کر “ کی کمی ہے یعنی” دیوانی بن کر “ کا تقاضا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ شعر میں ایسی منظر کشی کی گئی ہے اس انداز سے الفاظ پروئے گئے ہیں کہ اس کمی کا بالکل احساس نہیں ہوتا اور سیدھے دل میں اتر جاتا یے۔
کیسے روٹھتا اور جھگڑتا رہتا ہے
دیکھے کوئی پاگل پن شہزادے کا
▪▪▪ اس بات کا بھی انکشاف ہو گیا کہ شہزادہ بہت خاص انداز سے روٹھتا اور جھگڑتا بھی ہے۔ کیا کرے بے چارہ شاید وہ بھی عشق میں اسی شدت سے پاگل ہے۔ کیوں کہ روٹھنا اور جھگڑنا بھی تو محبت کی علامت ہے۔ بہت اچھا شعر ہے۔
شہزادی کی سانسوں میں وہ بستا ہے
اس کی روح ہے اور بدن شہزادے کا
▪▪▪ شہزادہ شہزادی کی سانسوں میں بستا ہے اور شہزادی کی روح شہزادے کے بدن میں ہے واہ کیا خوب عشق ہے۔ خاکسار نے ایک مطلع کہا تھا کہ
وادیِ عشق میں اب گم ہو جاؤں
مجھ میں بس جاؤ کہ میں تم ہو جاؤں
مجھ میں رباب ہے یوں چاہت شہزادے کی
روح سے باندھ لیا بندھن شہزادے کا
▪▪▪ روح سے بندھن باندھ لینا بھی خوب ہے۔
مجموعی طور پر محبت بھرے جذبات سے لبریز اشعار سے آراستہ ایک بہت عمدہ غزل ہے۔ بے شمار داد و مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ رباب صاحبہ کی شاعرانہ شناخت و انفرادیت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی نذر اپنا ایک شعر کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں :
ڈھونڈ کر لاؤں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر
ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی تو