یوپی میں پچھلے دنوں جرائم کا گراف جس تیزی سے بڑھا ہے، اس نے ریاست کے ہر شہری کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں کھینچ دی ہیں
صدائے دل : ڈاکٹر یامین انصاری
اتر پردیش میں جتنی حیران کن بی جے پی کی جیت تھی، اس ے زیادہ حیران کن یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے کا فیصلہ تھا۔ بی جے پی اعلی قیادت نے چاہے جس مقصد سے یو گی کو وزیر اعلیٰ بنایاہو، لیکن مختلف حلقوں میں اسی وقت کچھ شکو ک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا تھا۔اسی وقت دبی آواز میں یہ سوالات اٹھنے لگے تھے کہ ایک مہنت یا یوگی کو اتر پردیش جیسی اہم اور بڑی ریاست کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کس حد تک درست ثابت ہوسکتا ہے؟ یوں بھی یوگی کی شبیہ ایک فائر برانڈ سخت گیر ہندو لیڈر کی تھی۔ ماضی میں ان کے بیانات اور ان کی تنظیم ’ہندو یووا واہنی‘ کی سرگرمیاں اس بات کی گواہ تھیں کہ یوگی کو مودی اور امت شاہ کی جوڑی نے بہت سوچ سمجھ کر اور کسی خاص مقصدم کے تحت یو پی کا وزیر اعلیٰ بنایا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے مدھیہ پردیش میں ساھوی اوما بھارتی کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے اور مدت سے پہلے ہی ہٹائے جانے کا بی جے پی کا تجربہ سب کے سامنے تھا۔ پھر بھی تمام اندیشوں اور امکانات کے درمیان یو گی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف دلایا گیا۔ امید تھی کہ ایک باوقار اور آئینی عہدہ ملنے کے بعد یوگی کے رویہ میں تبدیلی آئے گی اور اب تک وہ جو کہتے آئے ہیں، وہ محض سیاسی بیان بازی ثابت ہوگی۔اور پھر حلف اٹھانے کے بعد یو گی نے اپنے بیانات میں جس طرح کے عزم کا اظہار کیا، اس سے لگا بھی کہ اب یو پی میں قانون کا راج ہوگا۔ انھوں نے بہ بانگ دہل کہا تھا کہ اب یو پی میں مجرموں کی خیر نہیں۔ جرائم پیشہ افراد یو پی چھوڑ کر چلے جائیں۔ حکومت بنتے ہی خواتین کے تحفظ کے لئے اینٹی رومیو اسکواڈ بنا دیا گیا، جو ایک مضحکہ خیز فیصلہ ثابت ہوا۔ اس سے خواتین کا تحفظ تو کیا ہوتا، انھیں پریشان کئے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ غرض یہ کہ جرائم بڑھتے گئے۔
اتر پردیش میں محض دو ماہ کی مدت میں ہی یوگی حکومت سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہونے لگا ہے۔ جرائم پیشہ افراد ریاست چھوڑ کر تو کیا جاتے، پوری ریاست میں ان کے حوصلے ساتویں آسمان پر پہنچ گئے ہیں۔ یوپی میں نہ مسلمان محفوظ ہیں اور نہ ہی دلت۔ ظاہر ہے جب پولیس اہلکار یہاں تک کہ اعلیٰ پولیس افسران بھی محفوظ نہ ہوں، وہاں دلتوں اور مسلمانوں کی کون بات کرے۔ بلند حوصلوں کے ساتھ بے قابو مجرم، قانون اپنے ہاتھوں میں لئے گھوم رہے بی جے پی اور اس کی ہم نوا تنظیموں کے لیڈران، گﺅ رکشا اور لو جہاد کے نام پر کھلی غنڈہ گردی، نفرت کی بنیاد پر سر عام مسلمانوں اور دلتوں پر حملے، کیا اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ یا تو ریاست کا نظم و نسق چلانا یوگی کے بس کی بات نہیں، یا پھر ان شر پسند اور غیر سماجی عناصر کو بالواسطہ طور پر چھوٹ ملی ہوئی ہے؟اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گونڈہ میں پولیس چوکی سے صرف ۰۰۲ میٹر کے فاصلے پر دو نمازیوں پر دھار دار ہتھیار سے نفرت انگیز نعرہ لگا کر حملہ کیا گیا۔ ان میں سے ایک نمازی نیاز احمد عرف پپو مستری کی اسپتال لے جاتے وقت موت ہو گئی، جبکہ دوسرا شدید زخمی ہو گیا اور وہ ابھی موت و زیست کے درمیان جھول رہا ہے۔ یہ دونوں تراویح کی نماز ادا کر کے مسجد سے اپنے گھر واپس آ رہے تھے۔ اسی فرقہ وارانہ منافرت کا نتیجہ تھا کہ بلند شہر میں گزشتہ ماہ ایک ادھیڑ عمر کے مسلمان کو صرف اس لئے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا کہ اس کے گاو ¿ں کا ایک لڑکا دوسرے مذہب کی لڑکی کے ساتھ فرار ہو گیا تھا۔ مارنے والے گروہ کی شناخت وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی تنظیم ہندو یووا واہنی کے ممبران کے طور پر ہوئی۔ اس کے علاوہ بے قابو مجرموں اور شدت پسندوں کے ذریعہ پولیس اہلکاروں اور اوراعلیٰ پولیس افسران پر حملوں کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ پولیس تھانوں میں توڑ پھوڑ اور آتشزنی کے کئی معاملے ریاست میں اب تک ہو چکے ہیں۔ سہارنپور میں دلتوں اور ٹھاکروں کے درمیان تصادم کے بعد نفرت کی چنگاری بار بار سلگتی رہی۔ کتنے لوگوں کے گھر جلا دئے گئے، کتنے لوگ زخمی ہو گئے اور یہاں تک کہ ایک شخص کی جان بھی چلی گئی۔ اسی طرح بلند شہر کے نزدیک جیور-بلند شہر ہائی وے پر پیش آیا لوٹ، قتل اور مبینہ اجتماعی آبروریزی کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں پڑا تھا کہ رام پور میں دو لڑکیوںکے ساتھ سرعام ہوئی چھیڑ خانی کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ریاست میں سنسنی پھیل گئی ۔ وائرل ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ تقریباً ۰۱ سے ۲۱ لڑکے دو لڑکیوں کے ساتھ کھلے عام اور سر راہ چھیڑ خانی کر رہے ہیں۔ قانون کا خوف اس قدر نکل چکا ہے کہ وہ ایک لڑکی کو گود میں اٹھا کر اس کے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا پیچھا کرتے ہوئے مذاق اڑا رہے ہیں۔ بہر حال ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے از خود نوٹس لیا اور چھ ملزمین کو گرفتار کر لیا۔مذکورہ بالا تمام واقعات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یوگی نہ تو پارٹی اور تنظیم کے لیڈران پر اور نہ ہی افسران پر کوئی کنٹرول کر پا رہے ہیں۔ جس طرح یو پی میں جرائم کا گراف تیزی سے بڑھا ہے، اس نے ریاست کے ہر شہری کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں کھینچ دی ہیں۔ریاست میں جرائم کے حالیہ اعداد و شمار بھی کچھ اسی طرح کے حالات بیان کر رہے ہیں۔ اعداد و شمار پر اگر یقین کریں تو یو گی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد اب تک جرائم میں ۶۲ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ خود یو پی حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نئی حکومت بننے کے بعد محض تقریباً ڈیڑھ ماہ میں پچھلے دو سال کے مقابلے میں جرائم میں ۷۲ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جرائم پر اگر غور کریں تو سب سے زیادہ لوٹ اور آبرو ریزی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار ۶۱ مارچ سے ۰۳ اپریل کے درمیان کے ہیں۔ ان پر غور کریں تو ۶۱۰۲ءمیں ڈکیتی کے ۷۲ واقعات درج ہوئے تھے، ۷۱۰۲ءمیں اس طرح کے واقعات کی تعداد بڑھ کر۷۴ ہو گئی۔ سال ۶۱۰۲ءمیں آبروریزی کے ۰۴۴ معاملے درج ہوئے تھے، وہیں ۷۱۰۲ءمیں ۳۰۶ کیس درج ہو چکے ہیں۔ کل جرائم کی اگر بات کریں تو ۶۱۰۲ءمیں ۴۵۹۲۳ کیس درج ہوئے اور ۷۱۰۲ءمیں ۴۴۴۲۴ معاملے سامنے آئے۔ یہ سب اس وقت ہے جب تقریباً ہر شہر، ہر ضلع اور ہر قصبہ کے پولیس افسران کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔پورے پورے پولیس تھانے اورچوکیاں بدل دی گئیں۔ خود وزیر اعلیٰ نے مختلف پلیٹ فارم سے غنڈوں کو کھلی چنوتی دی، انھیں للکارا۔ کبھی انھوں نے کہا کہ دو ماہ میں کبھی چار ماہ میں یوپی سے جرائم اور مجرموں کا صفایا کر دیا جائے گا، لیکن نتیجے ہمیں مایوس کرتے ہیں۔ کبھی مظفرنگر، تو کبھی سہارنپور، کبھی بریلی تو کبھی متھرا، کبھی لکھنو ¿ تو کبھی الہ آباد، کبھی آگرا تو کبھی مرادآباد اور اب جیور اور گونڈہ۔
غرض یہ کہ اتر پردیش میں نئی حکومت کے آنے کے بعد بھی قانون وانتظام میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ غور طلب ہے کہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے قانون و انتظام کو ایک بڑا ایشو بنایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کی حکومت بنی تو وہ یوپی کو جرائم سے پاک ریاست بنا دے گی، لیکن ریاستی حکومت اس میں اب تک کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔جرائم اور مجرموں کے بلند حوصلوں کو دیکھ کر اب یہ کہا جا نے لگا ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ یوگی کے ایک وزیر تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اتر پردیش ایک بڑی ریاست ہے، لہذا ہر جگہ پولیس لگانا ممکن نہیں۔لیکن اب اس طرح کی دلیلوں سے کام نہیں چلنے والا۔مان لیتے ہیں کہ کچھ لوگ یوگی حکومت کےخلاف سازش کر رہے ہوں، لیکن کیا یہ اتنی کمزور حکومت ہے کہ اس کے خلاف سازش کرنے والے کامیاب ہوجائیں؟ بہتر ہوگا کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سرکاراور افسر شاہی میں تال میل درست کریں۔ اپنی پارٹی، تنظیم اور دیگر تنظیموں کے بے قابو لیڈران، کارکنان کے بیانات اور ان کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کو قابو کریں۔ انہیں سختی سے یہ پیغام دےں کہ کوئی بھی لیڈر یا کارکن خودکو قانون سے اوپر نہ سمجھے۔ وہ ایماندار ، غیر جانبدار اور غیر متعصب افسروں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں اعتماد میں لیں ۔ اور یوگی کو یہ سب عملی طور پر کر کے دکھانا ہوگا۔حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ذات یا مذہب کے نام پر کسی بھی قسم کے تشدد کے حالات پیدا نہ ہونے دے، بلکہ ایسی کوشش کی جائے کہ جس سے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہو۔