کسانوں کے مسائل کی فکر اور اندازِ خبرگیری دیدنی ہے

عمیر کوٹی ندوی
کسانوں کے مسائل،ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے خودکشی کے واقعات، مدھیہ پردیش میں اپنے حقوق کے لئے مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو اپنی آواز کو بلند کرنے سے باز رکھنے کی کوشش اور پھر بھی باز نہ آنے پر ان کے خلاف طاقت کے استعمال نے اس پورے مسئلہ ہی کیا ملک وعوام کو درپیش تمام مسائل میں حکمراں طبقہ کی طرز سیاست کو بیان کردیا ہے۔ در اصل اس وقت حکمراں طبقہ اپنے دور حکمرانی کے تین سال مکمل ہونے پر جشن منا رہا ہے۔ پورے ملک میں “مودی فیسٹ” اور “جئے جیکار”کے ذریعہ ایک سماں باندھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ “دیش بدل رہا ہے”، “انڈیا شائن” کررہا ہے، اس لئے “گڈ فیل” کرو۔ لیکن گرانی اور کاروبار میں مندی کا سامنا کرنے والے عوام خاص طور پر کسان جن کی پیداوار حکومت کے یہاں بے قیمت ہے، سرکاریں اسے خرید نہیں رہی ہیں اور دلال “بازار کی مندی” کا رونا روکرکوڑیوں کے بھاؤ خرید رہے ہیں وہ اس دور حکمرانی میں حاصل ہونے والے مندی کے دور میں کیسے “گڈ فیل” کرسکتے ہیں۔ لہذاجن حالات سے وہ دوچار ہیں اس سے فرار کی کوئی راہ نہ پاکر بہت سے ماضی کی طرح اپنے ہی ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے۔اس پر بھی جب اہل اختیار کی نیندیں نہیں کھلیں تو اپنے درد کو بیان کرنے کے لئے وہ سڑکوں پر آگئے۔ لیکن یہاں پر ان کی آواز سنی جاتی اس کے بجائےسرکاری لاٹھی، ڈنڈوں اور گولیوں سے ان کی ملاقات ہوگئی، بہت سے زخمی ہوگئے تو کئی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔

یہ صورت حال کسانوں کی بدترین حالت اور ان کی کسمپرسی کو بیان کرتی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اولین فرست میں ان کے مسائل پر توجہ دی جاتی ،ان کے حالات کا مطالعہ کیا جاتا اور فوری و پائدار حل تلاش کیا جاتا لیکن ایسا کچھ نہ ہوکر اس پر سیاست شروع ہوگئی۔ سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ چل پڑا۔ لیکن کسانوں کی بیچینی اور عدم طمینان کی صورت مہاراشڑ، گجرات، ہریانہ، تمل ناڈو، اترپردیش کے بعد مدھیہ پردیش کے تشدد کے سامنے بھی نہیں رکی بلکہ چھتیس گڑھ میں دستک دیدی ہے اور خبر ہے کہ وہاں پر بھی ریاست گیر سطح پر سڑک اور ریل روکنے کی دھمکی کسانوں کی طرف دی جانے لگی ہے۔لیکن اسی درمیان مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے وہ کردیا جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا اور وہ بھی کردیا جو انہیں بہت پہلے کرنا چاہئے تھا۔ایک ریاست کی باگ ڈور آج سے نہیں29؍نومبر2005سےہاتھ میں ہوتے ہوئے کسانوں سے بات کرنے، متاثرین سے ملاقات کرنے ، ان کے مسائل کو حل کرنے یا کم از کم ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی جگہ غیر معینہ مدت کے لئے بھوک ہڑتال شروع کردی اور اگلے ہی روز اسے توڑ بھی دیا۔کہا جارہا ہے کہ کسانوں کی تحریک سے آرایس ایس کے کسان لیڈر بھی جڑے ہوئے ہیں، اپوزیشن نے بھی یہ بات کہی ہے لیکن مدھیہ پردیش پولیس ایکشن کے ذریعہ معاملہ کو دبانے کی چال الٹی پڑگئی اس سے حکومت اور آرایس ایس دونوں کے لئے مشکلیں پیدا ہوگئی ہیں۔

آرایس ایس کے کسان لیڈر حکومت کے اقدام اور طرزعمل سے اس قدر ناراض ہیں کہ سنگھ سے وابستہ ایک کسان تنطیم بی کے ایس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ “کسان مرکزی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں”تو دوسری طرف کسانوں کی تحریک سے منسلک آرایس ایس کے کسان لیڈر خود کو گھر کے بھیدی قرار دیدئے جانے کے خوف سے معاملہ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اگر کوئی کچھ کہنے کی کوشش بھی کر رہا ہے تو اس کی آواز بہت دھیمی ہے۔اسی طرح بی جے پی اس لئے تو پریشان ہوہی گئی ہے کہ کسان آندولن نے”مودی فیسٹ”اور “جئے جیکار” کے رنگ میں بھنگ تو ڈال ہی دیا ہے ساتھ ہی اس نے انتخابی سیاست میں بھی اسے نفع اور نقصان کا جائزہ لینے کے لئے مجبور کردیا ہے۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے وہ بھی عجب صورت حال سے دوچار ہو گئی ہے۔اس کے نتیجہ میں سب نےمدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کو مسئلہ سےنمٹنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا ہے۔اس کی وجہ سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں یکے بعد دیگرے اٹھنے والا قدم خود ان کے لئے مسائل پیدا کررہا ہے۔سب سے پہلے انہوں نے کسان آندولن واقعہ کو”غیر سماجی عناصر کی نقل وحرکت” قرار دیا، بات الٹی پڑگئی تو مہلوکین کے ورثاء کو اب تک کا سب سے زیادہ معاوضہ ایک کروڑ روپیےدینے کا اعلان کردیا۔پھر بھی معاملہ نہیں تھما تو “غیر معینہ بھوک ہڑتال” شروع کردی۔اس کے بعد اگلے ہی دن اسے ختم بھی کردیا۔

اس بھوک ہڑتال کے درمیان جو رات آئی اس میں انہوں نے وہ کارنامہ انجام دے ڈالا جو وہ29؍نومبر2005سے لے کر 10؍جون 2017کے درمیان بارہ برسوں میں نہ کرسکے تھے، جب کہ بارہ برس میں کتنی راتیں آئیں گئیں شمار کرنے والے انہیں شمار کرسکتے ہیں۔بھوک ہڑتال کے درمیان میں آنے والی رات میں پوری رات جاگ کرانہوں نے سوامی ناتھ کمیٹی کی رپورٹ کا مطالعہ کرڈالا، کئی فیصلےاس کی سفارشات کے مطابق تو کئی فیصلے اس سے بھی آگے بڑھ کر لئے۔ یہ باتیں کسی اور نے نہیں خود انہوں نے ہی کہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ “میں نے رات بھر سال 2002 میں آئی سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ کا مطالعہ کیا۔اس کی سفارشات کے مطابق کئی فیصلے لئے ہیں اور بعض معامالات میں اس سے بڑھ کر بھی کسانوں کے مفاد میں فیصلے لئے ہیں”۔یہ فیصلے کسانوں کے آندولن سے پہلے بھی لئے جاسکتے تھےاس سے پہلے تو یقیناًلئے جاسکتے تھے جب نہتھےکسانوں پر پولس کے ذریعہ گولی نہیں چلائی گئی تھی اور اس میں چھ کسان اپنی جان سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھے تھے۔اسی طرح مہاراشٹر کی حکومت نے بھی کچھ اعلانات کئے ہیں لیکن یہ اعلانات کسانوں کی فصلوں کی بربادی اور خاص طور پر کسانوں کی خودکشی اور سڑکوں پر پیداوار کو برباد کئے جانےسے پہلے بھی لئے جاسکتے تھے۔ اس سیاست کو کیا کہا جائے کہ وہ عوام کے نفع اور نقصان کونہیں اپنے فائدے کو دیکھتی ہے اور اسی کے مطابق فیصلے لیتی ہے۔پہلے حکمرانوں کی ناقص کارکردگی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے مسائل پیداہوتے ہیں، جب اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، متاثرین پریشان ہوکر سڑکوں پر نکل پڑتے ہیں تو انہیں باز رکھنے اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب بات بگڑجاتی ہے تواسے بنانے اور معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لئے بے دلی سے آنا فانا میں فیصلے لے کر عوام کی مسیحائی کے دعوے کردئےجاتے ہیں۔ یہ توبعد میں پتہ چلتا ہے کہ لئے جانے والے فیصلے صحیح تھے کہ غلط،ان کا فائدہ کتنا ہوا اور یہ کتنے نقصاندہ ثابت ہوئے۔حالیہ فیصلوں کا بھی یہی معا ملہ ہے۔اگر فیصلوں میں اپنی کامیابی اور مفادات سے زیادہ عوام کا خیال رکھا جائے تو نتائج بھی بہتر ہوں گے اور حالات بھی خراب نہیں ہوں گے۔