ہم ان حکومتوں کیلئے باہم دست و گریباں ہیں، جہاں کے سربراہ مسلمانوں کے کھلے دشمنوں کو اپنے یہاں بلا کر اعلی ترین اعزازات سے نوازتے ہیں
ڈاکٹر یامین انصاری
یہ پہلی بار نہیں ہے جب خلیجی ممالک میں ہونے والے کسی بھی قسم کے خلفشار یا اتھل پتھل سے ہندوستانی مسلمان متاثر ہو رہے ہیں یا یوں کہیں کہ خود کو متاثر نہیں کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی خلیجی ملک میں کوئی انتشار ہوا ہے، ہندوستانی مسلمان اسے مسلکی، نظریاتی اور مذہبی رنگ دینے سے پیچھے نہیں رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں ہونے والی اتھل پتھل خالص سیاسی اور ذاتی مفادات پر مبنی ہوتی ہے۔ چاہے وہ ۸۰؍ کی دہائی میں ہونے والی ایران عراق جنگ ہو، یا۱۹۹۱ء کی خلیجی جنگ ہو، چاہے یمن، لبنان اور شام کی خانہ جنگی ہو، یا پھر صدام حسین کی حکومت والے عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا حملہ ہو اور اب قطر کے ساتھ دیگر خلیجی ممالک کا ٹکراؤ، کہیں بھی اور کبھی بھی ان سب کے پیچھے مسلکی اور نظریاتی اختلافات کار فرما نہیں رہے۔ بلکہ اس کی اصل وجہ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا، اپنی بالادستی قائم رکھنا، کسی حکمراں کی بڑھتی طاقت کو برداشت نہیں کرنے کا جذبہ اور پھر سب سے بڑھ کر امریکی مفادات کا تحفظ اہم رہا ہے۔ یہاں ہونے والی کوئی ایسی جنگ نہیں جس میں امریکہ کے مفادات شامل نہ رہے ہوں۔ امریکہ نے خطہ میں اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لئے جب چاہا جسے چاہا استعمال کیا اور جب چاہا جسے چاہا تباہ و برباد کیااور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔وہیں ہم(ہندوستانی مسلمان) ہیں کہ اس خطہ میں ہونے والی معمولی سے معمولی اور بڑی سے بڑی اتھل پتھل میں خود کو الجھا لیتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خلیجی ممالک کے سارے مسائل ہندوستانی مسلمانوں سے ہی وابستہ ہیں۔ حالیہ قطر بحران کے بعد ہندوستانی مسلمانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعہ جس طرح کا رد عمل ظاہر کیا ہے اور اس میں مسلکی تڑکا لگایا ہے وہ قابل غور ہے۔ صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان دو خیموں میں تقسیم نظر آ رہے ہیں۔ فیس بک، وہاٹس ایپ اور ٹوئیٹر پر اس طرح سے اپنی اپنی رائے پیش کر رہے ہیں کہ جیسے سعودی عرب اور اس کے ہمنواؤں نے قطر کے خلاف محض مسلکی بنیاد پر کارروائی کی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ حالیہ بحران کے لئے جو وجہات بتائی جا رہی ہیں، ان میں ایران ، اخوان المسلمون اور حماس کا ذکر بھی آتا ہے۔ لیکن جب ہم ان تینوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں کوئی ایسی مماثلت نظر نہیںآتی کہ جس پر ان تینوں کے حامی متحد نظر آتے ہوں۔ پھر آخرہندوستانی مسلمانوں نے قطر کے بحران کو مسلکی بحث میں کیوں بدل دیا ہے؟اس سے یہ تو ثابت ہو ہی گیا کہ اگرہندوستانی مسلمانوں کے سامنے داخلی مسائل نہ بھی ہوں تو ان کے لئے دنیا بھر میں پیش آنے والے حادثات و واقعات میں خود کو الجھا کر مسائل پیدا کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
بہر حال قطر کے حالیہ بحران کی اصل وجوہات کیا ہیں اور اس کے خلیجی ممالک میں اثرات کیا ہوں گے، اس پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ گزشتہ دنوں جب سعودی عرب اور مصر سمیت چھ عرب ممالک نے قطر پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تو ہر کوئی حیران تھا۔ در اصل یہ سب اتنی تیزی سے اور اچانک ہوا کہ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ قطر پورے خطہ کے لئے اتنا خطرناک ہو گیا کہ اگر فوری طور پر اس کا دانا پانی بند نہیں کیا گیا تو یہاں تباہی آجائے گی۔ یہ سب کچھ ویسا ہی تھاجیسے ۲۰۰۳ء میں عراق کے حکمراں صدام حسین نے پوری دنیا کو تباہ کرنے کے لئے ہتھیار جمع کر لئے تھے اور اگر جلد ہی صدام حسین کو ختم نہیں کیا گیا اور عراق کو تباہ و برباد نہیں کیا گیا تو پوری دنیا تباہ ہو جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ صدام حسین بھی ختم ہو گیا اور عراق کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، لیکن جارج ڈبلیو بش کی قیادت والا امریکہ پوری دنیا کو ختم کرنے والا ایک بھی ہتھیار برآمد نہیں کر سکا۔ اُس وقت جارج بُش جیسا جنونی امریکہ کا صدر تھا اور آج ٹرمپ جیسا دیوانہ دنیا کا سپر پاور صدر ہے۔اسی لئے حالیہ منظر نامہ بھی کچھ کچھ ویسا ہی لگتا ہے۔کیوں کہ ابھی تو امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو سعودی عرب سے گئے ہوئے ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ خطہ میں اس کے اثرات نظر آنے لگے۔ قطری حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہمسایہ ممالک نے اپنی سرحدیں بند کر دیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے کہا وہ قطر سے آنے اور وہاں جانے والی پروازیں بند کر رہے ہیں اور قطری فضائی کمپنی قطر ایئرویز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔غور طلب ہے کہ دیوانہ صفت صدر ٹرمپ کے استقبال اور اس کی مہمان نوازی کے لئے سعودی حکمرانوں نے کس طرح اپنے محلوں میں سرخ قالینیں بچھا دیں اور ہزاروں بلین ڈالر کا خزانہ ٹرمپ پر لٹا دیا۔ مقصد صرف اتنا تھا کہ امریکہ بہادر کے سامنے اپنی حیثیت قائم رہے اور خطہ میں بالادستی بنی رہے۔امریکی صدر نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کے کچھ عرب ممالک کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ایشیا کے ان کے دورے کا ’دہشت گردی کے خوف‘ کے خاتمے میں ’فائدہ‘ مل رہا ہے۔ٹرمپ نے ٹوئٹر پر لکھا، ’مغربی ایشیا کے اپنے حالیہ دورے میں میں نے کہا تھا کہ بنیاد پرست نظریات کی اب فائنینسنگ نہیں کی جا سکتی۔ رہنماؤں نے قطر کی طرف اشارہ کیا، دیکھئے۔‘ انہوں نے کہا،’ سعودی عرب میں وہاں کے شاہ اور ۵۰؍ ممالک کے رہنماؤں سے ملنے کا فائدہ ہوا، جسے دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ فائنینسنگ ، انتہا پسندی پر سخت رخ اپنائیں گے اور یہ اشارہ قطر کی جانب تھا۔‘ ٹرمپ نے کہا، ’شاید یہ دہشت گردی کے خوف کے خاتمے کا آغاز ہے۔‘
قطر ان خلیجی ممالک کی آنکھوں کی کرکری کیوں بنا ، اس کی کئی وجوہات ہیں، ان میں چار وجوہات خاص بتائی جا رہی ہیں۔ ان میں سب سے پہلی وجہ خطہ کی با اثر تنظیم اخوان المسلمین ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ عرب بہاریہ کہلانے والی مشرقِ وسطیٰ میں آئی انقلابی لہر کے بعد سیاسی تبدیلیوں کے دوران قطر نے جن اسلام پسندوں کی حمایت کی تھی، ان میں اخوان المسلمین بھی تھی۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۳ء میں جب مصر کے سابق صدر محمد مرسی کو معزول کیا گیا تو قطر نے ان کی جماعت اخوان المسلمین کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ واضح رہے کہ مصری حکومت نے اخوان المسلمین پر پابندی لگا رکھی ہے۔اس کے ساتھ ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔قطر پر پابندی کی دوسری وجہ ایران کو بتایا جا رہا ہے۔ نیا بحران اْس وقت شروع ہوا جب قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے ایک مبینہ بیان پر رپورٹ شائع ہوئی ،جس میں امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف جارحانہ موقف پر تنقید کی گئی۔ قطر کے مطابق ملک کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پر شائع ہونے والے بیان کے پیچھے ہیکرز کا ہاتھ تھا۔ قطر پر یمن میں حوثی باغیوں کی پشت پناہی کرنے کا بھی الزام لگایاگیا ہے۔ تیسری وجہ لیبیا کو قرار دیا جا رہا ہے۔ لیبیا اْس وقت سے عدم استحکام کا شکار ہے جب سے سابق رہنما معمر قذافی کو ۲۰۱۱ء میں بے دخل کرنے کے بعد ہلاک کر دیاگیا تھا۔ لیبیا کی ملٹری میں طاقتور حیثیت رکھنے والے خلیفہ ہفتار جنہیں مصر اور متحدہ عرب امارات کی پشت پناہی حاصل ہے، قطر پر ’دہشت گرد گروہوں‘ کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہفتار ملک کے مشرقی شہر تبروک میں قائم حکومت کے حامی ہیں، جبکہ قطر ترابلس میں قائم حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ قطر بحران میں چوتھی وجہ میڈیا کے رول کومانا جا رہا ہے۔سعودی عرب نے قطر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’میڈیا اداروں کو استعمال کرکے سرکشی کے جذبات ابھار رہا ہے‘ ۔ جبکہ قطر نے شکایت کی ہے کہ ’اکسانے کی تحریک کے جو الزامات ہیں وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں‘ قطری وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’میڈیا پر جو مہم چل رہی ہے (قطر کے خلاف) وہ خطے میں عوام کے خیالات بدلنے میں ناکام ہوئی ہے، خاص طور پر خلیج کے ممالک میں اور یہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجوہات بیان کرتا ہے۔‘ قطر کے الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کے ٹی وی چینل کی انگریزی اور عربی زبانوں میں نشریات دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں اور اکثر اس کی خبروں اور تجزیوں میں خلیجی ممالک کے اندوری مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے اور خلیجی اور عرب حکومتوں کی پالیسیوں پر تنقیدی جائزے اور تجزیے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔اب ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہندوستانی مسلمان خود فیصلہ کریں کہ وہ اس بحران میں خود کو کہاں پاتے ہیں؟