مولانا ندیم الواجدی
سعودی عرب سمیت سات ملکوں نے برادر ملک قطر سے اپنے تمام سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں، بل کہ اگر یہ کہا جائے کہ اپنے انسانی رشتے بھی توڑ لئے ہیں تو زیادہ غلط نہ ہوگا، کویت کے امیر شیخ صباح احمد الصباح نے مصالحت کی کوشش کی تھی لیکن ابھی اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے سعودی حکومت کے اس اقدام کو پسند نہیں کیا، اگرچہ مسلم ملکوں کی حکومتیں لب کشائی نہیں کررہی ہیں مگر سوشل میڈیا کے ذریعے عام آدمی کے دل کی پوری ترجمانی ہورہی ہے، صرف ترکی کے صدر طیب اردگان کا استثناء کیا جاسکتا ہے جنھوں نے پوری جرأت کے ساتھ قطر کی حمایت کی اور اس کی مدد کرنے کا اعلان بھی کیا، یوں تو ایران بھی مدد دینے کو بے قرار ہے مگر اصل جھگڑے کی جڑ ہی ایران ہے، اس لئے اس کی پیش کش کی کوئی اہمیت نہیں ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پورے قضیے کو مسلکی اختلاف کے آئینے سے بھی دیکھنے کی کوشش ہورہی ہے، سوشل میڈیا پر جہاں قطر کی حمایت میں لوگ کھل کر اظہار خیال کررہے ہیں وہاں کچھ لوگ ایسے بھی سامنے آئے ہیں جنھوں نے اس حمایت کو مسلکی اختلاف کا شاخسانہ قرار دے کر سعودی عرب کی بے جا حمایت کا آغاز کردیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ حرمین شریفین کے حوالے سے عالم اسلام کا ہر فرد سعودی عرب سے محبت رکھتا ہے، اور سعودی حکمرانوں کے لئے بھی ان کے دلوں میں نرم گوشہ موجود ہے، مگر قطر کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے سند جواز عطا کرنے کا حوصلہ کسی میں نہیں ہے۔ سعودی عرب کی ہمدردی کی آڑ میں مسلکی منافرت پھیلانے والوں کو چاہئے کہ وہ اس پورے معاملے میں ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرکے کوئی رائے قائم کریں، قطر پر ایران نوازی، اور دہشت گردی کی پشت پناہی کے دو سنگین الزامات لگائے گئے ہیں ، ہوسکتا ہے ایسا ہو، مگر کیا قطر نے یہ کام ابھی دو چار ہفتوں یا دو چار مہینوں سے شروع کیا ہے یا وہ برسہا برس سے ایران کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہے اور دہشت گردوں کی مالی اور اخلاقی مدد کررہا ہے اور انہیں پناہ بھی دے رہا ہے، یقینی طور پر یہی کہا جائے گا کہ اس طرح کے معاملات ایک دم وجود میں نہیں آتے، اور نہ اس طرح کی چیزیں چھپ کر کی جاتی ہیں، اگر ایسا ہے تو سعودی عرب نے آج سے پہلے اس کی خبر کیوں نہیں لی، قطر اس کے ساتھ اسلامی ملکوں کے بلاک میں بھی ہے، عرب ملکوں کے اتحاد میں بھی شریک ہے، تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی فیڈریشن میں بھی شامل ہے، آخر کسی جگہ اور کسی موقع پر تو اس کا اظہار ہوتا اور کبھی تو پتہ چلتا کہ قطر ایسا کررہا ہے، یہ سوال اس وقت اور زیادہ اہم ہوجاتا ہے جب ہم قطر کو یمن کے حوثی باغیوں کی سرکوبی کے لئے سعودی عرب کے شانہ بہ شانہ کھڑا دیکھتے ہیں، سب جانتے ہیں کہ حوثی باغی ایران کی مدد سے برسر پیکار ہیں گویا ان کی آڑ میں ایران ہی جنگ لڑ رہا ہے، اس صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ قطر ایران نواز بھی ہو اور ایران کے خلاف جنگ میں حصہ بھی لے رہا ہو، اور اگر قطر کا کردار مشکوک تھا بل کہ دوغلا تھا تو اسے آج سے پہلے ہی اتحاد سے باہر کیوں نہیں کیا گیا، بلاشبہ قطر کا نقطۂ نظر ایران کے سلسلے میں سعودی عرب سے مختلف ہے ،وہ یہ سمجھتا ہے کہ ایران اسٹراٹیجک اعتبار سے ایک اہم ملک ہے اسے اس طرح نظر انداز کرنا صحیح نہیں ہے، لیکن اپنے اس نقطۂ نظر کے باوجود وہ اس جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ایران نواز نہیں ہے، چلئے ہم مان لیتے ہیں قطر ایران نواز ہے مگر خلیج میں کچھ اور ملک بھی ایران کے سلسلے میں بعینہ یہی نقطۂ نظر رکھتے ہیں، ان میں سر فہرست کویت ہے، سوال یہ ہے کہ اس طرح کی کاروائی قطر کے خلاف ہی کیوں کی گئی، کویت یا کسی دوسرے ملک کے خلاف کیوں نہیں کی گئی، صاف ظاہر ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا کہ امریکہ ایسا چاہتا تھا۔
ریاض سے واپسی کے بعد امریکی صدر صاف لفظوں میں کہہ چکے ہیں میں نے سعودی عرب سے ایسا کرنے کے لئے کہا تھا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ قطر کو الگ تھلگ کیوں کرنا چاہتا ہے، جواب کے لئے بہت زیادہ دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں ہے، افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کا حشر ہمارے سامنے ہے، آج یہ تمام ملک اپنی رونقیں کھوکر کھنڈر بن چکے ہیں، اب امریکہ کو نئے شکار کی تلاش ہے، قطر سے اچھا شکار ملنا مشکل ہے، کیوں کہ وہ خلیجی ملکوں میں معاشی ترقیات اور فی کس آمدنی کے لحاظ سے سرفہرست بھی ہے، اور بدقسمتی سے کچھ اسلام پسند بھی ہے ، یہ دونوں وجوہات اسے سزا دینے کے لئے کافی ہیں، اسی لئے اسے جناب صدر کے کہنے پر سزا سنادی گئی ہے، مصالحت کی کوشش چل رہی ہے، ہوسکتا ہے کامیاب ہوجائے، یہ بھی ممکن ہے کامیاب نہ ہو، یا امریکہ جیسے ملک اس طرح کی کسی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیں، اس صورت میں قطر کے اڑیل رویّے کو بنیاد بنا کر اس پر بمباری بھی کی جاسکتی ہے، جس طرح افغانستان پر کی گئی، عراق پر کی گئی، لیبیا پر کی گئی اور شام پر کی جارہی ہے، اگر ایسا ہوا تو کسی وقت اس کی زد میں ترکی بھی آئے گا کیوں کہ وہ بہت بڑھ بڑھ کر بولتا ہے، اس کی آنچ سعودی عرب تک بھی پہنچ سکتی ہے کیوں کہ نائن الیون کے مجرموں کا تعلق سعودی عرب سے تھا، اور القاعدہ بھی سعودی شہری بن لادن کی تنظیم ہے، یوں بھی تھوڑا بہت اسلام اگر کہیں نظر آتا ہے تو وہ سعودی عرب میں ہے، قطر کو تباہ کرنا مقصود نہیں ہے، بل کہ خلیجی ملکوں کی ترقیات کو برباد کرنا مقصد ہے، کیوں کہ یہ تمام ملک قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ دولت بھی رکھتے ہیں، گلف نیوز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تنہا قطر، کویت اور سعودی عرب کے پاس اس قدر دولت ہے کہ اگر وہ اپنی دولت کا صرف دس فی صد نکال دیں تو صومالیہ جیسے چھ ملکوں کے آٹھ کڑوڑ افراد تیس (۳۰) سال تک اپنی غذائی ضرورتوں سے بے نیاز ہوسکتے ہیں۔
بائیکاٹ کے فوراً بعد سعودی عرب اور تین دوسرے ملکوں نے ایک فہرست جاری کی ہے جس میں انسٹھ (۵۹) ممتاز علماء کرام کے نام شامل ہیں جن کا تعلق مختلف عر ب ملکوں سے ہے اور جو فی الوقت قطر میں مقیم ہیں اسی طرح بارہ خیراتی اداروں کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے ان کا تعلق بھی قطر سے ہے، ان سب پر الزام ہے کہ یہ دہشت گردی پھیلا رہے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا الزام ان شخصیات پر لگایا گیا ہے جن کا تعلق تصنیف وتالیف سے ہے، دعوت وتبلیغ سے ہے یا درس وتدریس سے ہے، ان کا جرم یہ ہے کہ وہ اسلام کی بات کرتے ہیں، ان شخصیات میں اہم اور ممتاز نام مصر کے علامہ یوسف قرضاوی کا ہے جو جمال عبد الناصر کے ظلم وستم سے عاجز آکر ۱۹۶۰ء سے قطر میں رہ رہے ہیں، نوے سال کے شیخ قرضاوی سو سے زیادہ اسلامی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ مصر کی اسلام پسند جماعت اخوان المسلمین سے وابستہ رہ چکے ہیں اور اب بھی اس کے نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں، بس یہی قصور ہے جس کی بنا پر جنرل سیسی ان کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، ورنہ آج سے قبل تو سعودی عرب سمیت تمام عرب ملکوں کے حکمراں اور عوام سب ان کے گرویدہ تھے، یہاں تک کہ چند سال قبل وہ سعودی عرب کا سب سے بڑا ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں جو ظاہر ہے کسی دہشت گرد کو نہیں دیا جاسکتا، وہ رابطۂ عالم اسلامی کے رکن بھی رہے ہیں جو عالم اسلام کی سب سے مؤثر تنظیم ہے، اس فہرست کے دوسرے افراد بھی اپنی تصنیفی، دعوتی اور اصلاحی خدمات کے حوالے سے غیر معروف نہیں ہیں۔
امریکی صدر کے دورے کے بعد ان افراد میں جو سالہا سال سے قطر میں مقیم تھے ایسا کیا نظر آیا کہ جو سب کے سب دہشت گرد قرار دے دئے گئے، یہ سوال بہت اہم ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے، ان کو بھی جو مسلک کو بنیاد بنا کر سعودی عرب کی بے جا حمایت کررہے ہیں، اور ان کو بھی جو کسی مصلحت کی بنا پر ابھی تک خاموش ہیں، بات اصل یہ ہے کہ اب دہشت گردی کے مفہوم کو وسعت دینے کی کوشش ہورہی ہے، آج سے پہلے طالبان، حماس، القاعدہ اور داعش کے مسلح جنگ جوؤں کو دہشت گرد کہا جاتا تھا اب وہ لوگ بھی دہشت گرد کہلائیں گے جو اپنی کتابوں میں اسلام کی بات کرتے ہیں، جو اپنی تقریروں میں مسلمانوں کے مسائل پر بولتے ہیں، جو مسلمانوں میں اتحاد کے داعی ہیں، جو مسلم ملکوں میں اسلام کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، جو مظلوم فلسطینیوں کے حق کی بات کرتے ہیں جو نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں،اب وہ ادارے بھی دہشت گرد کہلائیں گے جو کسی بھی ملک کے مظلوم اور بے کس مسلمانوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کردیتے ہیں یا ان کے ننگے جسموں کے لئے لباس فراہم کردیتے ہیں، اگر امریکہ سعودی عرب جیسے ملکوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو نیا رنگ نیا آہنگ دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو دنیا کے دوسرے ملک بھی اس طرح کی ’’دہشت گردی‘‘ سے نمٹنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے، پھر اس کی آنچ ان مصلحت پسندوں تک بھی پہنچے گی جو خاموشی کی چادر تانے خواب خرگوش کا مزہ لے رہے ہیں، میں اپنے اس مضمون کو علامہ اقبال کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں جو خلیجی ملکوں میں جاری اتھل پتھل کے پسِ منظر میں کس قدر برمحل ہے ؎
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
nadimulwajidi@gmail.com