پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
(گذشتہ سے پیوستہ )
خادم الحرمین الشرفین شاہ سلمان نے بادشاہت کی ذمہ داری سنھبالنے کے بعد پیش رو فرماں روا مرحوم شاہ عبد اللہ کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے اپنی علاحدہ شناخت قائم کی،اوبامہ کو تنہا چھوڑ کر نماز کیلئے جانے اور کرین حادثہ میں شہید حجاج کرام کے جنازے کو کندھا دینے جیسے متعدد واقعات نے ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کردیا،یہ خبر بھی آئی کہ شاہ سلمان اخوان نواز ہیں،کئی ریاستوں کا گورنر انہوں نے اخوانی فکر کے حامل رہنما کو بنایاہے ،گذشتہ ڈھائی سالوں میں انہوں نے ایسا کوئی قدم بھی نہیں اٹھایا جس سے یہ تاثر مل سکے وہ اخوان کے خلاف ہیں،انہوں نے اس دوران عالم اسلام کو متحد کرنے کی متعد د کوششیں کی ،ناٹو کے طرز پر مسلم ممالک کی متحدہ فوج تشکیل دی ،مشرق میں واقع کئی مسلم ممالک کا انہوں نے دورہ کیا،یمن میں حوثیوں کی بغاوت کے خلاف انہوں نے ایک اتحاد تشکیل دیکر فوجی چڑھائی کی ،مجموعی طور پر بطور فرماں روا ان کے اقدامات اور طرز حکمرانی سے مسلمانان عالم میں خوشی کی لہر تھی ،شاہ سلمان کو شاہ فیصل کے بعد ان کی فکر کا حامل سمجھا گیا لیکن سابق امریکی صدر باراک حسین اوبامہ کے آخری دنوں میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جس کی بنیاد پر شاہ سلمان کو اپنے نظریات سے سمجھوتہ کرناپڑا ،گذشتہ کالم میں ان امور کے بارے میں ہم نے لکھنے کا وعدہ کیاتھا اس لئے آج کے کالم میں انہیں امورکی جانب حسب وعدہ اشارہ کررہے ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر باراک حسین اوبامہ کے آخری دور میں امریکہ۔ سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہت زیادہ کشیدگی آگئی تھی ،امریکی ایوان نے جاسٹابل پاس کرکے نائن الیون حملہ کا تعلق سعودی عرب سے بھی جوڑ دیاتھا،اوبامہ نے ویٹو پاور کا استعمال کرکے اس بل کو مسترد کرنے کی کوشش کی لیکن امریکی کانگریس نے ایک نہیں سنی اور یوں جاسٹا پاس ہوگیا جس کی روشنی میں نائن الیون متاثرین کے اہل خانہ امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کرکے وہاں موجود سعودی عرب کے اثاثہ سے ہر جانہ وصول کرسکتے تھے ،امریکہ کے اس اقدام نے سعودی عر کو بہت پریشان کیا،سعودی عرب نے وہاں کے بینکوں سے اپنا پیسہ نکالنے کی بھی دھمکی دی لیکن امریکہ اپنی ضدپر اٹل رہاہے،جس وقت امریکی ایوان میں سعودی عرب کے خلاف یہ اقدامات اٹھائے جارہے تھے وہاں کی گلیوں میں سیاسی شور شرابہ تھا ،ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن صدارتی مہم چلارہے تھے اور اوبامہ الوادع کہنے کی تیاری میں مصروف تھے، عالم عرب سمیت پوری مسلم دنیا کے تجزیہ نگاروں کا یہ مانناتھاکہ اگر ٹرمپ کی جیت ہوگئی تو سعودی عرب کیلئے اور مشکل کھڑی ہوجائے گی ، ترکی ،پاکستان سمیت متعدد ممالک نے سعودی عرب کی حمایت کرتے ہوئے امریکہ کے اس اقدام کی مذمت کی ،لیکن ٹرمپ کی جیت کے بعد سعودی حکومت نے ٹرمپ کے ماضی کو بنیاد بنائے بغیر ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ، ٹرمپ نے بھی اپنانظریہ تبدیل کیا ،سعودی عرب نے ایک بڑے خطرے سے بچنے کیلئے امریکی دباؤمیں ہتھیاروں کا ایک عظیم سودا کیا اور یوں ٹرمپ نے اپنی بد سے بدتر پالیسی کو سعودی کے ساتھ یہ معاہدہ کرکے کامیاب بنالیا،ریاض سے ٹرمپ کے پہلے دورے کی شروعات،ایک سودس بلین ڈالر کا سودااورمسلم ممالک سے مشترکہ خطاب کی کڑی اسی واقعہ سے جڑتی ہے ۔
امریکہ ہتھیاروں کا سوداگر ہے ،وہ ہتھیاربناکر دنیا بھر کے ممالک پر خریدنے کا دباؤ بناتاہے اور اپنی معیشت کی رفتار کو بڑھاتاہے جو امریکہ سے ہتھیار نہیں خریدتاہے مختلف شکلوں میں امریکہ اس سے انتقام لیتاہے ،ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی عرب کے ساتھ قطرسے بھی ہتھیاروں کے سودے کا معاہدہ کرنا چاہے ،جاسٹا کی مجبوری کی پیش نظر سعودی عرب نے یہ معاہدہ قبول کرلیا لیکن قطر نے ایسا کرنے سے انکار کی جس کی پاداش میں سفارتی بائیکاٹ کی سزا قطر کو دی گئی ،ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ سے خود ہی بتادیاتھاکہ اس بائیکاٹ کے پس پردہ کون ہے،اب یہ خبر ہے کہ مجبور ہوکر قطر نے امریکہ سے ہتھیاروں کا سودا کرلیاہے ،الجزیرہ کی رپوٹ کے مطابق دوحہ اور واشنگٹن نے کل ایک معاہدہ پر دستخط کیاہے جس کے مطابق قطر امریکہ سے 12 بلین ڈالر کے عوض ایف ۔15 فائٹر خریدے گا ۔
امریکہ کی دوسری پریشانی گیس کی عالمی منڈی میں قطر کا بڑھتا قدم ہے،قطر کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ گیس کا ذخیر ہ ہے ،دوسرے نمبر پر آسٹریلیا ہے ،امریکہ قطر کے نمبر ون کی پوزیشن ختم کرکے خود اس پر قابض ہونااور ایل این جی کی ایشیائی اور لاطینی منڈیوں سے قطر کو بے دخل کرنا چاہتاہے،ترک میڈیا کے مطابق انٹرنیشنل گیس یونین اورمائع قدرتی گیس درآمد کنندگان کے بین الاقوامی گروپ کی جانب سے باضابطہ اعداد و شمار کے مطابق قطر نے سن 2016 میں ایل این جی کی 77 ملین ٹن برآمد کی تھی،قطر کی این ایل جی کی کل برآمدات کا ساٹھ فی صد فائدہ ایشیائی خطے کو ہو رہا ہے،قطر سے ایل این جی لینے والوں میں سرفہرست ممالک میں جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، برطانیہ اور چین ہیں،قطر کی ایل این جی کی مجموعی صلاحیت 77 ملین ٹن ہے،اس معاملے میں امریکہ قطر کا مضبوط ترین حریف ہے جس کی سن 2015میں مجموعی سالانہ ایکسپورٹ330ہزار ٹن تھی،مستقبل قریب میں امریکہ ایل این جی ٹرمینلز میں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کے ساتھ ایشیا میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہتاہے ،امریکی منصوبوں کی تکمیل 2018اورسن 2024 کے درمیان ہونے کی توقع ہے، اس وقت امریکہ کے دو ٹرمینلز ایل این جی برآمد کرنے میں فعال ہے۔امریکا کے زیر تعمیر چھ ایل این جی منصوبوں کی مجموعی صلاحیت57عشاریہ55ملین ٹن ہے۔تمام مجوزہ منصوبوں کی تکمیل کے بعد ایل این جی درآمد میں امریکا کی مجموعی صلاحیت تین سو ملین ٹن سے تجاوز کر جائے گی،اس لئے وہ ا س طرح کی حکمت عملی سے دنیا میں ایل این جی کے رہنما کے طور پر قطرکو بے دخل کرکے خود یہ مقام حاصل کرنے کے فراق میں ہے۔
قطر سے امریکہ کی تیسری پریشانی الجزیرہ چینل ہے ،الجزیزہ دنیا کا اہم ترین انٹرنیشنل نیوز نیٹ ورک ہے ،بی بی سی اور سی سی این جیسے عالمی میڈیا ہاؤس کو الجزیزہ پیچھے چھوڑ چکاہے ، دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کے بیوروز کام کررہے ہیں،عرب ،ایشاء اور یورپین ممالک میں اس کے علاقائی دفاتر موجود ہیں،دنیابھر میں یہ مسلمانوں کی مضبوط آواز ہے ،اسرائیلی مظالم،مشرق وسطی میں امریکی مداخلت کے غلط اثرات اور جارحانہ پالیسی کو الجزیرہ نے بہت بیباکی کے ساتھ بے نقاب کیاہے ،حماس اور اخوان کے رہنماؤں کو اس پلیٹ فارم سے بولنے کی اجازت دینے پر بھی امریکہ ہمیشہ چراغ پارہاہے،مہاجرین اور عراق وافغانستان کے مسئلے پر الجزیرہ نے متعدد ایسی رپوٹ شائع کی ہیں جو امریکہ کا کی شرمندگی کا باعث بناہے اس لئے الجزیرہ امریکہ اور اسلام دشمن عناصر کے نشانے پر شروع سے ہے ، الجزیرہ کا مرکزی دفتر دوحہ میں واقع ہے اور قطر کی حکومت کی حمایت حاصل ہے اس لئے اس چینل کے اثر ورسوخ کو کم کرنے او راس کی حیثیت کو ختم کرنا بھی امریکی اہداف میں سرفہرست ہے جس بنیاد پر قطر کو ٹارگٹ کیا گیاہے۔
امریکہ براہ راست قطر کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتاہے کیوں کہ قطر امریکہ کا اتحاد ی ہے ،1999 سے قطر کا دفاع بھی امریکہ کا ذمے ہے ، قطر میں امریکی فوجی اڈہ بھی قائم ہے جہاں سے امریکی طیارے عراق ،افغانستان اور شام میں آپریشن کیلئے اڑا ن بھرتے ہیں،اس لئے امریکہ نے جاسٹا بل کے مضمرات سے سعودی عر ب کو محفوظ رکھنے کیلئے بیک وقت سعودی حکومت سے دومعاہدہ کیا ،ایک ہتھیاروں کی فروخت کا جس سے امریکہ کی لرکھڑاتی معیشت کو فروغ ملے گا ،دوسرے قطر کے خلاف اقدام کا تاکہ قطر کی معاشی اور اقتصادی حالت کمزور ہو،قطر امریکی مفاد کے سامنے گھٹنے ٹیکے،وہ اسلام پسندطاقتوں کی حمایت بند کرے ،اسرائیل کی آر میں رکاٹ حماس اور اسلام کے سیاسی نظام پر عمل پیرا اخوان روئے زمین سے نیست ونابود ہوجائے ۔
سعودی عرب اور ان کے ہم نواممالک کے قطر کے خلاف اقدامات کرنے سے قطر جہاں مشکلات سے دوچار ہے وہیں اس کا خسارہ اور نقصان سعودی عرب کو بھی اٹھانا پڑے گا دوسری طر ف ایران خطے میں مزید فائدہ اٹھائے گا اور مضبوط ہونے کی کوشش کرے گا، قطر کے خلاف ایکشن لینے کے بعد یمن سے سعودی عرب کی توجہ ہٹ گئی ہے جبکہ سعودی عرب کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یمن سے حوثی ملیشائیوں کا خاتمہ ہے ،ایران کی حمایت سے حوثی ملیشیاؤں کا اثر یمن میں مسلسل بڑھتاجارہاہے،دوسالوں سے مسلسل جاری جنگ کے باوجود اب تک حوثی باغیوں کو شکست دینے میں سعودی اتحاد ناکام ہے ۔حالیہ بحران کے بعد شام سے بھی سنی مسلم ممالک کی توجہ ہٹ گئی ہے ،شامی باغیوں کی مدد نہ ہونے سے بشار الاسد کے قدم مزید مضبوط ہوجائیں گے اور یوں چھ سالوں سے جاری جنگ میں بشار الاسد کو ہٹانے کی مہم ذرہ برابر بھی کامیاب نہیں ہوپائے گی ،سفارتی بحران کے بعد پورے عرب ممالک آپس میں الجھ گئے ہیں ،یمن اور شام سے پوری توجہ ہٹ گئی ہے اور ایران کے حق میں ماحول سازگار نظر نہیں آرہاہے ،گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تویہ معلوم ہوتاہے کہ امریکہ بظاہرایک طرف دوستی کا ہاتھ سعودی عرب کی طرف بڑھاکر اس کی ہمدردی کررہاہے اور اندرونی سطح پر وہ ایران کو فائدہ پہونچارہاہے۔ ایران ۔امریکہ خفیہ دوستی کوئی نئی بات نہیں ہے خطے میں ایران کے بڑھتے اثر ورسوخ میں بھی امریکہ کا خصوصی کردار ہے اور امریکہ یہی دوہری پالیسی سعودی عرب کیلئے خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔
حالیہ تنازع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی نے بھی خلیج میں اثر ورسوخ بڑھانے کی سمت میں قدم اٹھاتے ہوئے فوری طور پر پارلیمنٹ سے قرارداد منظور کرکے قطر میں اپنا فوجی اڈہ قائم کرلیاہے ،اطلاع کے مطابق بیس ہزار سے زائد ترک فوج قطر پہونچ چکی ہے ، گلف میں ترکی فوجی اڈہ کا قیام ایک اہم اور مثبت پیش ر فت ہے ،اس سے خلیجی ممالک کے تحفظ اور سیکوریٹی میں اضافہ ہوگا،ترک صدر طیب اردگان بھی کئی مرتبہ یقین دہانی کراچکے ہیں ک ترکی کے فوجی اڈے کا مقصد پورے گلف کا تحفظ ہے کسی خاص اسٹیٹ کے تحفظ اور کسی کے خلاف اس کا استعمال نہیں ہوگا ، قطر میں ترکی کی موجودگی سے امریکہ کو بھی اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ ہوگی اور مشرق وسطی میں اس کا اثر ورسوخ کم ہوگا۔
سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ،مصر ،بحرین اور یمن کی جانب سے سفارتی بائیکاٹ کے بعد قطر کو درپیش اہم مسئلہ 2022 میں وہاں ہونے والا فیفا ولڈ کپ ہے ،یہ یورپین کا اہم گیم ہے ،پہلی مرتبہ ایشاء اور عرب کے کسی ملک کو اس کھیل کی میزبانی کا شرف حاصل ہورہاہے ،قطر میں کڑوروں بلین ڈالر کے بجٹ سے اس کھیل کے انعقاد کی تیاری جاری ہے ،بیس میں سے 12 اسٹیڈیم بن کر تیار ہوچکے ہیں،ایسے میں یہ اندیشہ ہے کہ دہشت گردی کا الزام عائد کردیئے جانے اور سفارتی بحران کے پیش نظر فیفا قطر سے میزبانی موقع چھین لے ۔اسی لئے قطر کی حکومت اندرونی طور پر کچچھ پریشان ہے اور کسی طرح وہ مذاکرت کے ذریعہ یہ بحران ختم کرنا چاہتی ہے ،جہاں تک بات ہے فوڈ سپلائی اور فضائی حدود کے استعمال کی تو قطر کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،ترکی ،ہندوستان ،پاکستان ،ایران ،امریکہ اور روس سمیت سبھی ممالک مذاکرات کرکے اس بحران کو ختم کرنے کی مسلسل اپیل کررہے ہیں،امیر کویت شیخ الصباح اس سلسلے میں خصوصی کردار نبھارہے ہیں اور خلیجی ممالک کے تنازع کو حل کرنے کیلئے وہ تمام رہنماؤں سے مل چکے ہیں ،پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی سعودی عرب میں جلوہ افروز ہیں ،مصالحت کرانے کیلئے ترکی کے وزیر خارجہ بھی وہاں پہونچ چکے ہیں،واشننگٹن سکریٹری کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں سعودی وزیر خارجہ نے قطر کے خلاف اپنی پالیسی میں کچھ نرمی برتنے کا وعدہ کیا ہے ،امید ہے آئندہ دنوں میں بہت جلد یہ تنازع ختم ہوجائے گااور ملت ادسلامیہ کو ایک عظیم خوشخبری ملے گی ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)