ذات بھی گنوا دیا اور سواد بھی میسر نہیں

 عمر فاروق قاسمی 

گزشتہ دنوں میڈیا میں ایک خبر آئی کہ :
ابوظہبی کی عالمی شہرت یافتہ مسجد کا نام تبدیل کرکے” مریم ام عیسی “ رکھا گیا ۔ مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا مقصد ہے،

بلا شبہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی والدہ طاہرہ ہمارے یہاں اس سے کہیں زیادہ محترم ہیں جتنا عیسائیوں کے یہاں ہے بلکہ ان کی طہارت و پاکیزگی کو قرآن نے جس طرح بیان کیا ہے خود بائبل نے بھی اس طرح بیان نہیں کیا ، اس لیے ایسی پاکیزہ ہستی کے نام پر ایک مسجد تو کیا سینکڑوں مساجد کا نام رکھا جاسکتا ہے اس لیے ان کے نام پر اس مسجد کا نام رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، تاہم اگر ہم آہنگی مطلوب ہے تو یہ تب بھی حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ ہم نے ہم آہنگی کی تلاش میں شکل و صورت لباس و کپڑے سب تبدیل کر دیے ، زلفیں بدلیں، ڈاڑھی تراشوائیں ، شلوار جمپر اتار کر اسکرٹ پہن لئے، کرتا پاجامہ بدل کر پتلون اور شڑٹ میں آ گئے، السلام علیکم کی جگہ گڈ مارننگ، خدا حافظ اور فی امان اللہ کی جگہ بائی بائی اور ٹاٹا ہو گیا، ہمارے اپنے جنہوں نے اصلاح کا کام کیا انہیں ہم نے بنیاد پرست اور قدامت پسند کہا، غیر کے مسلح جد و جہد کو اصلاح اور اپنوں کی اسی جدو جہد کو فساد اور دہشت گردی سے تعبیر کیا، اپنے پیارے وطن میں ہمارے مسلم سیاسی رہ نما اکثریت کی ہمنوائی میں ہولی ملن تقریب کرکے رنگین بھی ہوئے ، تو رکچھا بندھن میں کلائی پر راکھی کا شوق بھی پورا کرلیا، ہماری قوم کے پولیس کے جوانوں نے قومی یکجہتی کو نئی سمت دینے کے لیے دھوتی بھی کمر میں ڈال لی، ہماری ماؤں اور بہنوں کا جمپر تو چھوٹ گیا تاہم بلاؤز میں بازاروں کا طواف خوب ہوا، ہمیں اپنی نماز میں تو تھوڑا بھی دل نہیں لگا لیکن ان کی یوگا کو ہم نے اپنی ہر صبح کا حصہ بنا لیا، ہم نے اسلامی ملک میں بھی قرآنی نظامِ سزا کو درندگی سمجھا اور اس کو چھوڑ کر صرف پرسنل لا پر قناعت کی، دوسری طرف ان کے بنائے ہوئے فوجداری نظام کو اپنی اختلافی زندگی کا حصہ بنا لیا ، نبی کی زلفیں لمہ جمہ وفرہ تو ہمارے سروں پر کبھی نہیں چڑھ سکی لیکن ان کے چوڑ کٹ بال کو زلفوں کے حسن کا معیار سمجھ لیا، ایک مشت ڈاڑھی سے تو ہمیں نفرت ہونے لگی لیکن ان کی فرنچ کٹ کو اپنے چہروں کی رونق کا ذریعہ سمجھا، ہمارے دانتوں نے مسواک کو بدمزہ مانا اور برش کو شفا یابی کا سر چشمہ جانا ، غرض یہ کہ ان کی ہم آہنگی اور تقلید میں پاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بال تک گھر کی چہار دیواری سے لے کر بازاروں کی در و دیوار تک، کھانے پینے سے لے کر سونے جاگنے تک، فقہ سے لے کر فتاوی تک، نکاح سے لے کر طلاق تک ہر ایک کو بدل دیا یا بدلنے کے درپے ہوئے، اور تو اور، ان کی تقلید میں ٹوائلٹ کے بیسن اور پیشاب خانے کے پلیٹ تک تبدیل کر دیے لیکن کیا وہ ہم سے خوش ہو گئے؟ کیا ان کی جانب سے روز بروز ہم سے ” ھل من مزید “ کا مطالبہ نہیں ہے؟ یہ کیا کہ کہ ذات بھی گنوا دیا اور سواد بھی میسر نہیں، جیب بھی خالی ہوا اور ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا۔ قرآن نے ہم سے چودہ سو سال پہلے کہا تھا کہ:
” ولن ترضی عنک الیہود ولا النصاری حتی تتبع ملتہم “ یہود و نصاری تم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک تم ان کے ملت کی پیروی نہ کر لو،
کیا قرآن کی یہ آیت ہماری چشم کشائی کے لئے کافی نہیں ہے کہ غیروں کی ہم نوائی اور قومی یکجہتی کے نام پر ان کے اخلاق و کردار کی نقالی بھی ہمیں ان کا دلبر نہیں بناسکتی، ہمیں اچھی طرح یاد آرہا ہے کہ سال گزشتہ جب امریکی صدر مسٹر براک حسین اوباما ہندوستان کے دورے پر تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ میں یہاں کا روایتی لباس دھوتی کرتا کو پسند کرتا ہوں اور اسے زیب تن بھی کرتا لیکن ہمارے ملک کی روایت اس کی اجازت نہیں دیتی، ان کا یہ جملہ عالمی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے نام پر پل پل بدلتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک درس عبرت تھا کہ امریکہ جو خود کو رواداری کا ٹھیکیدار اور عالمی ہم آہنگی کا سب سے بڑا علمبردار بھی کہتا ہے وہاں کا صدر بھی اپنی روایت کا کس قدر اسیر تھا کہ ہندوستان کا روایتی لباس پسند ہونے کے باوجود اپنے جسم پر ڈالنا پسند نہیں کرتا، مسلمانوں کے لیے حضرت ربعی ابن عامر کے اس واقعہ میں اپنی تہذیب و تمدن اور روایت کے تعلق سے زبردست پیغام موجود ہے، کسریٰ کا دربار ہے ، اسلامی لشکر کے سفیر حضرت ربعی ابن عامر رضی اللہ عنہ کسریٰ کے دربار میں پہنچتے ہیں، مختلف واقعات کے بعد دسترخوان سجایا جاتا ہے، دسترخوان پر بڑے بڑے وزرائے سلطنت اور امراء مملکت تشریف فرما ہیں ، کھانا شروع ہوتا ہے، درمیان طعام حضرت ربعی ابن عامر سے کچھ دانے دسترخوان پر گر جاتے ہیں اور حضرت ربعی ابن عامر ان دانوں کو دستر خوان سے اٹھا کر منہ میں ڈالتے چلے جاتے ہیں، ان کا کوئی رفیق دربار کسریٰ کے طور طریقے کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے کہتا ہے جناب! اس طرح دانہ اٹھا کر کھالینا یہاں کی شان و عظمت کے خلاف ہے یہ لوگ آپ کو گھٹیا سمجھیں گے، اور آپ کا وقار مجروح ہوگا، حضرت ربعی ابن عامرؓ نے یہ سن کر تاریخی جملہ کہا تھا ” انترک سنۃ نبیـنا لھولاء الحمقاء “ کیا ان بے وقوفوں کی وجہ سے ہم اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دیں، حضرت ربعی چاہتے تو ہم آہنگی کے نام پر اس سنت کو چھوڑ سکتے تھے اس سے ان کے وقار میں کچھ اضافہ بھی ہو سکتا تھا، اور دربار بھی سپرپاور کا تھا حالات ان کے موافق بھی ہو سکتے تھے لیکن اس حالت میں بھی آپ نے اپنی تہذیب و ثقافت کو باقی رکھا، کاش ! ہمارا مسلمان طبقہ اس واقعہ سے عبرت لے کر ایک مرتبہ پھر اپنی تہذیب و ثقافت پر مر مٹتا اور اپنے اسلاف کی وراثت اور اسلامی احکامات کو دل وجان سے زیادہ محفوظ رکھتا !!!