قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
قاضی شریعت
دارالقضاء آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ، ناگپاڑہ، ممبئی
نکاح کے بارے میں عام رجحان یہ ہے کہ نکاح کرناسنت ہے،کیوں کہ حدیث میں ہے :النکاح من سنتی، حالاں کہ حدیث میں وارد سنت سے مراد نکاح کاسنت اورمستحب ہونانہیں ہے، بلکہ یہاں سنت سے مراد تہذیب ہے، یعنی نکاح نبی کریم ﷺ کی لائی ہوئی تہذیب میں شامل ہے۔چنانچہ فقہاء کرام نےحالات کے اعتبار سے نکاح کرنےاورنہ کرنے کے احکام بیان کئے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
فرض : اگر شہوت بہت زیادہ ہوحتیٰ کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کرلینے کایقین ہو،مہر اورنان ونفقہ اداکرسکتاہونیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو،توایسی صورت میں نکاح کرلینافرض ہے۔
واجب : نکاح کرنےکا تقاضہ ہو، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں پڑنے کااندیشہ ہو، مہر اورنان ونفقہ اداکرسکتاہونیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو، توایسی صورت میں نکاح کرلینا واجب ہے۔
سنت مؤکدہ: عام حالات میں یعنی مالی اور جسمانی حالت اچھی ہو،بیوی کے حقوق کو اداکرسکتاہو،بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو تو نکاح کرنا سنت مؤکدہ ہے۔
مکروہ تحریمی : اگر نکاح کرنے کے بعد بیوی کے مالی یا صنفی حقوق ادانہ کرنے کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
حرام : اگر نکاح کرنے کے بعدبیوی کےمالی یاصنفی حقوق ادانہ کرنے کااسی طرح عورت پر ظلم کرنے کایقین ہویانکاح کرنے کا مقصد بیوی پر ظلم کرناہو تو پھر نکاح کرنا حرام ہے۔(البحرالرائق ٣/۸٤،درمختارعلی ردالمحتار:٣/۶، فتاویٰ محمودیہ١٠/٤۷٢پاکستان)
نکاح کرنے کے یہ درجات جس طرح مردوں کے لیےہیں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہیں۔نکاح میں لڑکے کے اوپر مہر،ولیمہ مسنونہ اورمستقل طوپر بیوی کے نان ونفقہ کے اخراجات کے علاوہ کوئی مالی ذمہ داری نہیں ہے، اس لیے صرف اس وجہ سے کہ ابھی زیادہ روپیہ پیسہ نہیں ہے،یاولیمہ میں بھاری بھرکم خرچہ کرنے کی استطاعت نہیں ہے،نکاح نہ کرنایانکاح کو مؤخرکرنادرست نہیں ہے، بلکہ اگر نکاح کرنے کی ضرورت ہوتوایسی صورت میں سخت گناہ ہوگااوراپنے ذہن اور جسم وروح کے ساتھ ناانصافی بھی ہوگی۔
جہیز کامطالبہ کرنا: لڑکے کایااس کے گھر والوں کی طرف سے کسی کالڑکی سے یااس کے گھر والوں میں سے کسی سے کسی بھی سامان کایاکھانے کی دعوت کاصراحت کے ساتھ یااشارہ وکنایہ کے ساتھ یارسم ورواج کی بنیاد پر مطالبہ کرناجائز نہیں، سخت گناہ کی بات ہے اورمرد کی غیرت کے خلاف ہے۔کپڑے، زیورات،اورگھریلوساز وسامان کاانتظامکرناسب مرد کے ذمہ ہے۔اگر لڑکی والے مطالبہ کے بغیرمگررسم ورواج یاسماج کے دباؤمیں آکر کچھ دے توبھی لینانہیں چاہئے۔نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: لَا يَحِلُّ مَالُ رَجُلٍ مُسْلِمٍ لِأَخِيهِ , إِلَّا مَا أَعْطَاهُ بِطِيبِ نَفْسِهِ “(سنن الکبریٰ للبيھقي:١۶۷۵۶)یعنی کسی دوسرے مال اس کی دلی رضامندی کے بغیرکسی کے لیے حلال نہیں۔ سماجی دباؤ میں آکر دینے کامطلب یہ ہے کہ دینے والایوں سمجھے کہ ہمارے یہاں اس موقعہ پرفلاں چیز دینے کارسم ہےدیناہی پڑے گا،اگر نہیں دیں گے تو لوگ کیاکہیں گے۔اگر لڑکی ازخود کوئی سامان اپنے میکہ سے لاتی ہےتو اس پر صرف اسی لڑکی کاحق ہے۔مرد کو اس میں اپناحق جتانایا بیوی کی اجازت کے بغیراس کااستعمال کرناصحیح نہیں ہے۔
حق مہر: نکاح کے وقت لڑکےکےاوپراپنی ہونے والی بیوی کامہر واجب ہوتاہے۔ مہر کی مقدار کم از کم دس درہم یعنی تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام چاندی یااس کی مالیت کاہوناضروری ہے۔اس سے کم مالیت میں اگر نکاح کیاجائے مثلاپانچ سوروپئے میں یاصرف ۷۸۶روپئے میں تو نکاح تو منعقدہوجائے گا،مگر دس درہم کی مقدار کا اداکرناواجب ہوگا۔تاہم متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے مہر فاطمی یعنی ایک کلوپانچ سو تیس گرام نوسوملی گرام چاندی متعین کرنامستحب ہے۔دین مہر کابعد نکاح فورااداکردینابہتر ہے۔اس کو مؤخر کرنامناسب نہیں، علماءکرام کامشورہ ہے کہ اس زمانہ میں سونے یاچاندی میں مہر متعین کرنالڑکی حق میں مناسب ہے۔اس لیے کہ افراط زرکے اس زمانہ میں سالوں گزرنے کے باوجود اس کی مالی حیثیت میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔دوسرے یہ کہ یہ سنت سے زیادہ قریب ہےکیوں کہ دورِنبوی میں عموماً سونے وچاندی سے مہر طے ہوتاتھا۔
ارکانِ نکاح:
نکاح حرام کو حلال کرتاہے،اس لیےاس کے ارکان اورشرائط کو بوقت نکاح ملحوظ رکھنانہایت ہی ضروری ہے، ورنہ بعض دفعہ نکاح منعقدہی نہیں ہوتاہے اورطویل عرصہ تک لڑکالڑکی دونوں حرام کاری کرتےرہتے ہیں۔نکاح کے ارکان ایجاب وقبول ہیں۔پیغام دینے اورپیش کش کرنےکو ایجاب کہتے ہیں خواہ لڑکے کی طرف سے ہویالڑکی کی طرف سے،اوردوسرے کی طرف سے منظور کرلینے کوقبول کہاجاتاہے۔
ایجاب وقبول کی شرائط:
پہلی شرط: ایجاب وقبول کی شرائط میں سےایک یہ ہے کہ ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہو،مثلاایجاب جس مجلس ہوا اسی مجلس میںقبول ہوجائےورنہ نکاح منعقدنہیں ہوگا،مثلااگرایجاب وقبول کی جگہ بدل جائےیاکوئی ایک مجلس سے اٹھ جائے پھر قبول کرےتو نکاح منعقدنہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع:٢/٢٣٢،ہندیہ:١/٢۶۹)
دوسری شرط: دوسری شرط یہ ہے کہ:
(الف) ایجاب وقبول کاتلفظ کیاگیاہو،یعنی اگر ایجاب وقبول کرنےوالابولنے پر قادر ہےاوردونوں مجلس میں موجود ہیں تو ایجاب وقبول کی منظوری زبان سے دیناضروری ہے۔مثلاایجاب یوں کرے”میں نے آپ سے اتنے مہر کے عوض نکاح کیا”،اورقبول یوں کرے”ہاں میں نے قبول کیا”اگرایجاب وقبول کے الفاظ لکھ دئے جائیں، یاصرف سر کوہلادیاجائے یانکاح نامہ میں صرف دستخط کردئے جائیں تو ان صورتوں میں نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(ب) اگرنکاح کرنے والوں میں سےکوئی ایکمجلس میں موجود نہ ہومگر اس کی طرف سے اس کاولی جس کو اس نے نکاح کرانے کی اجازت دی رکھی ہویاوکیل جس کو اس نے نکاح کرانے کاوکیل بنایاہو،موجود ہوتو وہ خوداس کی طرف سےایجاب یاقبول کرے۔مثلایوں ایجاب کرے”میں نے فلاں یافلانہ کانکاح آپ سے اتنے مہر کے عوض کیا”،اورقبول اس طرح کرے”ہاں میں نےفلاں یافلانہ کی طرف سے قبول کیا”یاقاضی ولی اوروکیل کاترجمان بن کراس کی موجودگی میں ایجاب کرے تو اس سے بھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔
(ج) اگرکوئی ولی یاوکیل بھی موجود نہ ہوتواگرکسی ایک نے ایجاب کو لکھ کربھیجااوردوسرے نے جس مجلس میں اس کوایجاب کی تحریر پہونچی اسی مجلس میں گواہوں کی موجودگی میں ایجاب کو پڑھ کریاکسی سے پڑھواکرزبان سے قبول کیاتو نکاح منعقد ہوجائے گا۔(ہندیہ:١/٢۶۹-٢۷۰)
تیسری شرط: تیسری شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کے صیغے ماضی یاحال کے ہوں مثلامیں نےآپ سے نکاح کیایانکاح کرتاہوں کہے،اسی طرح میں نے قبول کیایامیں قبول کرتاہوں،یامجھے قبول ومنظورہےوغیرہ الفاظ کہے، پس اگرمستقبل کے صیغے استعمال کئے جائیں مثلایوں کہاکہ نکاح کروں گا،قبول کروں گایاٹھیک ہے کرلوں گاوغیرہ تو نکاح منعقدنہیں ہوگا۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ:۹/٣٥)
چوتھی شرط: چوتھی شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کم از کم دوایسے مسلمان عاقل وبالغ مرد یاایک مرد اوردو عورتو ں کی موجودگی میں ہو،جو فریقین کے ایجاب وقبول کے الفاظ کو سن سکیں؛لہذا اگردوگواہ نہیں ہیں یاگواہ تو ہیں مگر مسلمان نہیں ہیں، یاصرف عورتیں ہیں،یاگواہ بالغ نہیں ہیں،یاعاقل نہیں ہیں تو نکاح منعقدنہیں ہوگا۔
نکاح کرنے کے طریقے:
نکاح کرنے کے چار طریقےہیں جو حسب ذیل ہیں:
اصالۃ : یعنی نکاح کرنے والا خود ایجاب یاقبول کرے۔مثلالڑکایالڑکی دونوں میں سے کوئی ایک دوگواہوں کی موجودگی میں دوسرے سے کہے کہ میں نےآپ سے اتنے مہر کے عوض نکاح کیااوروہ کہےہاں میں نے قبول کیا۔
ولایۃ :
یعنی نکاح کرنے والے کاولی مثلااس کاباپ یادادا،بھائی، چچاوغیرہ (بالترتیب)اس کی طرف سے ایجاب یاقبول کرے،ایسا صرف اس صورت میں ہوتاہے جبکہ لڑکایالڑکی نابالغ ہو۔اگر نکاح باپ داداکے علاوہ کسی دوسرے ولی مثلابھائی،چچاوغیرہ نے کرایاہے،تب توان کوبالغ ہونے کے بعد اختیارہوگاکہ اس نکاح کو باقی رکھیں یاختم کردیں،اوراگرباپ دادا نے کرایاہے تو یہ اختیارنہیں رہے گا۔ہاں اگر باپ دادااپنے فسق وفجور میں مشہور ہوں تو پھر نکاح ختم کرنےاختیارہوگا۔فقہ کی اصطلاح میں اس کو خیار بلوغ کہاجاتاہے۔مگر اس کے لیےقضاء قاضی شرط ہے یعنی شرعی دارالقضاء میں جاکر قاضی شریعت کی خدمت فسخ نکاح کادرخواست دیناضروری ہے، قاضی محترم تحقیق کرنے کےبعد فسخ کرسکتے ہیں۔
اجازۃً:
اگر لڑکا یا لڑکی بالغ ہوتو اس کی طرف سے اجازت یاوکالت کاہوناضروری ہے۔ہمارے معاشرہ میں عموماً لڑکااورلڑکی کےوالدین،اولیاء وسرپرستان نکاح کراتے ہیں،یہ ایک بہتر اورمستحسن عمل ہے کیوں کہ دونوں کے اولیاء اپنی اولاد کی دینی اوردنیاوی بھلائی دیکھ کر ہی نکاح کرائیں گے۔ اسی وجہ سے شریعت میں ولی کی اجازت کے بغیرکئے گئے نکاح کوناپسندیدہ سمجھاگیاہے۔نبی کریم ﷺ نےاولیاء کو حکم فرمایاہےکہ وہ اپنی بالغ اولاد کانکاح ان کی رضامندی کے بغیر نہ کریں۔«لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ»(بخاری:٥١٣۶)کیوں کہ ازدواجی زندگی دونوں میاں بیوی کو گزارنی ہے،اس لیے ان سے اجازت لی جائے۔
اجازت کامطلب یہ ہے کہ بالغ لڑکایالڑکی اپنے ولی مثلاباپ، دادا،یا بھائی کواس بات کی اجازت دیدے کہ آپ میرانکاح فلاں سے کرادیں، یاجس سے چاہیں کرادیں،یاولی اپنے بیٹے یابیٹی سےاس بات کی اجازت لے لیں کہ وہ اس کانکاح فلاں یافلانہ سے کرانےجارہاہے،واضح رہے کہ اگر باپ دادانے کنواریلڑکی سے اجازت طلب کی اوروہ خاموش رہی تو اس کاخاموش رہنابھی اجازت کے حکم میں ہوگا۔بہرحال ایسی صورت میں ولی کو بھی اپنے بالغ بیٹے یابیٹی کانکاح کرانے کایعنی ایجاب یاقبول کرنےکاحق ہوگا۔اجازت دیتے یا لیتے وقت بہتر ہے کہ دو گواہ بھی موجود ہوں۔
وکالۃً: یعنی نکاح کرنے والا لڑکایانکاح کرنے والی لڑکی کسی کوایجاب وقبول کرنے کازبانی یاتحریری طورپروکیل بنادےمثلایوں کہےیالکھ دے کہ میں نے فلاں ولد فلاں کوفلانہ بنت فلانہ سےیافلاں ولد فلاں سے اپنانکاح کرانے کاوکیل بنادیااوروکیل اس کی طرف سےایجاب یاقبول کرے ۔مثلایوں ایجاب کرے کہ میں نے اپنے مؤکل یامؤکلہ کو آپ کی زوجیت میں دیایامیں نے اپنے مؤکل یامؤکلہ کانکاح آپ سے کیا ۔قبول اس طرح کرے کہ میں نے اپنے مؤکل یامؤکلہ کی طرف سے قبول کیا۔
واضح رہے کہ وکیل یابالغ اولاد کاولی خود اپنی طرف سے کسی کو نکاح کرانے کی اجازت نہیں دے سکتاہےاور نہ کسی کو وکیل بناسکتاہے؛اگرکسی نے ایساکرلیایعنی ولی نے کسی کونکاح کرانے کی اجازت دیدی یاکسی کو وکیل بنادیایاوکیل نےخود کسی دوسرے کووکیل بنادیایا نکاح کرانے کی اجازت دیدی اوراس نے نکاح کردیاتو ایسی صورت میں نکاح منعقدنہیں ہوگا۔
ہاں دوصورتیں ایسی ہیں کہ نکاح منعقد ہوجائے گا۔(١)اسی مجلس میں ولی یاوکیل (اول)بھی موجود ہوں(٢)بعدنکاح جب لڑکی کو اس کی اطلاع ہوئی کہ فلاں نے میرانکاح فلاں سے کردیاہےتو وہ انکار نہ کرے تو اس کی خاموشی بھی دلالتہ ایجاب کے حکم میں ہوگی اور نکاح منعقد ہوجائے گا۔(درمختارعلی ردالمحتار:٣/۸٥،ہندیہ:١/٢٩۸)
جدیدٹکنالوجی کے ذریعہ نکاح:
ٹیلیفون، موبائل، وہاٹس ایپ، فیس بک میں،چیٹنگ کے ذریعہ ہویاآیڈیوکانفرنس ہو یا ویڈیوکانفرس ہونکاح کسی بھی صورت میں منعقد نہیں ہوگا،کیوں کہ دونوں کی مجلس ایک نہیں ہے،البتہ اگر ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کسی کو وکیل بنادیاجائے اوروہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے گواہوں کی موجودگی میں ایجاب یاقبول کرے تو پھر نکاح منعقد ہوجائے گا۔
کورٹ میریج:
کورٹ میں نکاح کرنے کی صورت میں اگر ایجاب وقبول کی ساری شرائط موجود ہوں تو نکاح منعقد ہوگا ورنہ نکاح نہیں ہوگا۔ مثلا اگرمتعلقہ افسر کے سامنے صرف کاغذ پر دستخط کردیا،زبان سے ایجاب وقبول نہیں کیا۔یادونوں گواہ مسلمان نہیں تھےیاصرف عورتیں گواہ تھیں،تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
خطبہ مسنونہ :
ایجاب وقبول سےپہلے خطبہ دینامسنون ہے۔جس میں سورہ نساء کی پہلی آیت سورہ آل عمران کی آیت نمبر ١٠٢،سورہ احزاب کی آیت نمبر ۷۰، ۷١،اورسورہ حجرات کی آیت نمبر ٣١۔اسی طرح نکاح سے متعلق احادیث مثلاالنکاح من سنتی وغیرہ کاپڑھنابہتر ہے۔
مجلسِ نکاح میں تقریر کرنا:
مجلس نکاح میں اردو یامادری زبان میں تقریر کرنا جس میں نکاح کی فضیلت، مسائل واحکام،اورمیاں بیوی کے فرائض وحقوق کوبیان کرنااورانھیں شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرنامناسب ہے۔نیز طلاق وخلع کے نقصانات کو واضح کرنااوراس کے مسنون طریقہ کو بھی بیان کردینا مناسب ہے۔
میاں بیوی کو مبارکباد دینا:
نکاح کے بعد میاں بیوی کو دعاء اورمبارک باددیناسنت ہے، مبارکبادی کے الفاظ حدیث میں اس طرح منقول ہیں: بارک اللہ لکماوجمعکمافی خیر۔ترجمہ:اللہ تعالیٰ اس نکاح میں برکت دے اورتم دونوں میاں بیوی کو خیر میں جمع کردے۔ (بخاری :۶٣۸۶)
نکاح کااعلان کرنا:
حدیث میں ہے : أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوف۔ (ترمذی:١٠۸۹)، یعنی کھلے عام نکاح کرو،اس کو مسجد میں قائم کرو،اوردف بجاؤ؛تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، کہ فلاں اورفلانہ کےدرمیان نکاح ہورہاہے۔
نکاح کاوقت:
نکاح کاکوئی وقت مقررنہیں ہے،البتہ شوال کے مہینے میں اورجمعہ کے دن نکاح کرنامستحب ہے، کیوں کہ نبی کریم ﷺ کاحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے ماہ شوال میں اورجمعہ کے دن نکاح کرنامنقول ہے۔(درمختارعلی ردالمحتار:٣/۸)
ولیمہ کرنا:
نکاح کے فورابعد چھوارے یاکوئی میٹھی چیز تقسیم کرنامستحب ہے،اسی طرح نکاح کی خوشی میں ولیمہ کرنابھی لڑکےکےلئےمستحب ہے۔اسے چاہئے کہ اپنے اعزواقارب کو اپنی وسعت کے مطابق کھاناکھلائے، بشرطیکہ کوئی نام ونمود نہ ہواورفضول خرچی نہ ہو۔کھاناکھلانے کے تعلق سے لڑکی یااس کے گھر والوں پر کوئی چیز واجب یامستحب نہیں ہے۔ولیمہ کرنے کے نام پر لڑکے والے کالڑکی والےسے کچھ مانگنادرست نہیں۔اگر وسعت نہ ہوتوولیمہ ہی نہ کرے، مگردوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔
نکاح نامہ کی حیثیت:
نکاح نامہ کی حیثیت ایک دستاویز کی ہے،بعض دفعہ اس کی ضرورت پڑتی ہے، اس لیے نکاح نامہ تیار کرالینابھی بہترہے۔تاہم اس کے بغیربھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔
نکاح کارجسٹریشن کرانا:
متعلقہ سرکاری دفترمیں جاکرنکاح کارجسٹریشن کرالیناچاہئے،تاکہ سرکاری طور پر بھی نکاح کا ریکارڈ رہے، البتہ رجسٹریشن کئے بغیر بھی نکاح شریعت کی نظر میں صحیح ہوجاتا ہے۔
رابطہ : 8080697348