مولانا برہاالدین قاسمی
” ٹی وی ڈیبیٹ کا بائیکاٹ مسئلہ کا حل نہیں “ اس اصولی بات سے مجھے اتفاق ہے، کیونکہ بائیکاٹ ایک کمزور، ناقابل عمل اور موجودہ چیلینجز سے بھاگنے والا بلکہ آنکھ بندھ کرنے والا عمل ہے، مجموعی طور پر اسے مسلمان نوجوانوں اور میڈیا میں علمائے کرام اور اسلام کے بارے میں غلط پیغام جائے گا۔
مدارس یا کچھ مخصوص ادارے فضلائے مدارس کو ٹی وی ڈیبیٹ وغیرہ کی ٹیکنیک سیکھائے، تعلیم کے لئے کیا جاسکتا ہے، مشورہ قابل عمل ہے، لیکن یہ بھی ہمارے موجودہ مسئلہ کا حل نہیں ہے، کیوں؟
میڈیا، چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، میں اپنی بات رکھنے کا موقع انہیں کو ملتا ہے جنہیں چینلز بلاتے یا میڈیا ہاؤسز موقع دیتے ہیں اور وہ انہیں بلاتے ہیں جو بذات خود ایک برانڈ یا کسی بڑے برانڈ یا بینر سے جوڑے ہوئے ہوتے ہیں، کیونکہ میڈیا کو کسی کی ذات یا اس کی ذاتی صلاحیت میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتا ہے ان کو دلچسپی اس شخص سے جوڑے ہوئے ٹی آر پی یا ریڈر شیپ سے ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم کچھ افراد کو پیسہ خرچ کر کے ٹیکنیکلی، منٹیلی اور خوبصورت انداز گفتگو سے آراستہ بھی کر دیں، جو اگرچہ بہت آسان کام نہیں ہے، پھر بھی یہ حضرات بذات خود قوم کے لئے مفید ثابت نہیں ہو پائیں گے جب تک ان کو پلیٹ فارم نہیں ملے گا، اور پلیٹ فارم کا ملنا یا نہ ملنا ان کی صلاحیتوں پر نہیں بلکہ ان کے برانڈینگ پر منحصر ہے۔ میڈیا والے تو انہیں کو بلاتے ہیں جن کو وہ جانتے ہیں اور جن کا کنٹیکٹ نمبر ان کے ڈاٹا بینک یا ریپرٹر کے موبائل میں موجود ہے۔
تو حل کیا ہے؟
حل انہیں لوگوں کو تلاش کرنا پڑے گا جن کو میڈیا والے بلاتے اور موقع دیتے ہیں۔ ٹی وی ڈیبیٹ میں بات کرنے کے لیے بہت زیادہ معلومات کی ضرورت ہے ایسا مجھے نہیں لگتا ہے۔ بلکہ موضوع پر بنیادی معلومات کے ساتھ زیادہ ضرورت ٹیکنک، حاضر جوابی اور شائستہ زبان کی ہے۔ حل یہ ہے کہ جن حضرات کے پاس یہ چیزیں ہیں اور وہ خود پر اعتماد ہے وہیں جائے ، نہیں تو وہ معذرت کریں اور کسی ایسے شخص کی طرف راہنمائی کریں جو ان سے بہتر نمائندگی کرسکتا ہے۔ یہاں قربانی اور کسی دوسرے کو آگے بڑھانے کا جذبہ ہی کام آسکتا ہے۔
دوسری اور اہم چیز یہ بھی ہے کہ جو حضرات میڈیا سے بات کرتے ہیں ان کو اس خاص میڈیا ہاؤس کا بیک گراؤنڈ، اس کی پالیسی اور اس کے تجارتی تعلقات کے بارے میں بھی واضح معلومات ہونی چاہیے، نہیں تو تمام احتیاط، معلومات اور ٹیکنک کے باوجود آپ ٹریپ میں آسکتے ہے۔
زی نیوز جہاں دو سال پہلے گیارہ نمبر پر تھا آج انڈیا ٹی وی، اے بی پی، اور این ڈی ٹی وی سب کو پیچھے چھوڑ کر آج تک نیوز کے بعد دوسرے نمبر پر راج کرہا ہے۔ اسی طرح انگریزی کے ٹائمز ناؤں، ریپبلک اور ٹی وی ٹوڈے تینوں مقابلہ میں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تجارت کے اعتبار سے متشدد ہونا اور مسلمانوں کے مسائل کو بےجا اور غلط انداز سے پیش کرنا ان چینلز کے لئے فائدہ مند ثابت ہورہا ہے۔ اسلام کا غلط شبیہ پیش کرنا ان کے لئے نفع بخش ٹی آر پی کا سامان ہے۔ اس طرح کے چینلز میں آپ کے چاہنے کے باوجود اسلام کا مثبت پیغام عوام میں جائے یہ بہت مشکل کام ہے الا یہ کہ آپ ان کے پلئیٹ فارم کو استعمال کرنے کا پہلے سے انتظام کر کے جائیں اور اس کو صحیح طور پر استعمال کر بھی پائیں۔
حل یہ ہے کہ ٹی وی ڈیبیٹ میں شرکت کرنے والے علمائے کرام کو طے کرنا ہے کہ وہ کس حد تک کسی خاص چینل کے لئے سامان تجارت بننا پسند کرتے ہیں۔ ان کے لئے ان کی ذاتی تعارف، یقیناً چینلز کے معرفت سے بہرحال ملک بھر میں شہرت ملتی ہے، کتنا عزیز اور اسلام اور مسلمانوں کا وقار کتنا عزیز ہے۔
کالم نگار معروف اسلامی اسکالر اور مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں