بہار کی سیاست اور فتوے کی طاقت

مولانا ندیم الواجدی
سیاست میں کب کون کس کا ساتھ چھوڑ دے اور کس کے ساتھ چل دے اس کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، سیاست دانوں کی نہ دوستی میں بوئے وفا ہوتی ہے اور نہ دشمنی میں پائے داری اور استواری، یہ صرف مفادات کا کھیل ہے، اس میدان میں بازی وہی شخص مار سکتا ہے جس نے اپنی آنکھوں پر بے شرمی کے ٹھیکرے رکھ لئے ہوں اور ضمیر کو کسی سردخانے کے حوالے کردیا ہو، بہار کے وزیر اعلا نتیش کمار ابن الوقتی، خود غرضی اور ضمیر فروشی کی تازہ مثال ہیں، حالاں کہ وہ پہلے بھی فرقہ پرستوں کے زیر سایہ حکومت کرچکے ہیں، مگر گذشتہ الیکشن میں انھوں نے سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک ’’مہاگٹھ بندھن‘‘ قائم کرلیا تھا، تمام لوگ نتیش کے اس قدم کو گھر واپسی سمجھ رہے تھے لیکن جہاں دیدہ اور تجربہ کار لوگوں کی نظر میں ان کا یہ اقدام بھی ان کی دیرینہ فطرت کا غماز تھا، انہیں پتہ تھا کہ فرقہ پرستوں سے ہاتھ ملا کر جو غلطی وہ کرچکے ہیں اس غلطی کو سدھارنے کے لئے انہیں نام نہاد سیکولرزم کا مکھوٹا لگا کر سامنے آنا ہوگا، انھوں نے سیکولر طاقتوں کے ساتھ مل کر کامیابی تو حاصل کرلی اور وہ بہار میں دوبارہ وزرات اعلا کے منصب پر متمکن بھی ہوگئے، لیکن ان کی فطرت کا جو رنگ ڈھنگ تھا وہ نہیں بدلا، آج وہ پھر بی جے پی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، حالاں کہ انہیں جو مینڈیٹ ملا تھا وہ بی جے پی کے خلاف ملا تھا، اگر ان میں غیرت کی ذرا سی بھی رمق ہوتی یا ان کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی تو وہ دوبارہ قوم کے پاس جاتے اور ان سے بی جے پی کے حق میں تائید چاہتے، کتنی عجیب بات ہے کہ وہ کل تک مودی کو ہٹلر اور ظالم جیسے خطابات سے نواز رہے تھے اور آج انہیں قوم کا مسیحا اور ملک کا مستقبل کہہ کر یاد کررہے ہیں، انہیں اپنے اس فعل پر نہ کوئی پشیمانی ہے نہ ندامت، اسی لئے ہم کہہ چکے ہیں کہ سیاست خود غرضی کا کھیل ہے، پچھلی چند دہائیوں سے ملکی سیاست سے اخلاقی قدروں کا پورے طور پر خاتمہ ہوچکا ہے، چور، اچکے، غنڈے، قاتل، زانی اس میدان میں سر گرم عمل ہیں، حکومتیں، قیادتیں، وزارتیں سب ان کے پاس ہیں، شاید ہی کوئی شریف انسان محض قوم اور وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر سیاست داں بنتا ہو، خود مسٹر نتیش جن کی شبیہہ سیاست دانوں میں بہت بہتر بتلائی جاتی ہے قتل کے ایک مقدمے میں نامزد کئے گئے ہیں، انھوں نے لالو یادو کے بیٹے نائب وزیر اعلا تیجسوی سے نجات پانے کے لئے وزیر اعلا کا عہدہ چھوڑنے کا ڈرامہ کیا، اور وجہ یہ بیان کی کہ وہ تیجسوی جیسے بے ایمانوں کے ساتھ نہیں چل سکتے، مگر انھوں نے اپنی نئی کابینہ میں جن ممبران اسمبلی کو وزارتیں بخشی ہیں ان میں سے بہت سوں پر تعزیرات ہند کی سنگین دفعات میں کئی کئی مقدمات قائم ہیں اور وہ خود بھی قتل کے مقدمے میں ماخوذ ہیں، اسے سیاست کی بو العجبی نہیں تو کیا کہیں گے۔
لوگ وزارت کی شکل میں حاصل ہونے والی چند روزہ عزت کے عوض ایمان تک کا سودا کر لیتے ہیں، یہ بھی موجودہ دور کی سیاست کا ایک غلیظ اور تاریک پہلو ہے، حالاں کہ ایمان سے بڑھ کر نہ کوئی دولت ہے اور نہ کوئی نعمت ہے، نتیش کی جماعت کے ایک مسلم ممبر اسمبلی نے محض اس لئے کہ اسے نئی کابینہ میں کوئی اچھی وزارت حاصل ہوجائے اور وہ اپنے پرانے آقا کے ساتھ ساتھ نئے آقاؤں کا بھی منظور نظر بن جائے اپنے ایمان کو جس طرح رسوا کیا اس نے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے، پٹنہ کے ایک مفتی صاحب نے ان کے خلاف فتوی دیا تب بھی وہ یہی کہتے رہے کہ انھوں نے رام رحیم کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے اور جے شری رام کا نعرہ لگا کر انھوں نے ملک وقوم کو جو پیغام دینا چاہا ہے وہ اس پر قائم ہیں، وہ فتوی کے بعد بھی میڈیا کے سامنے آئے اور انہوں نے یہی کہا کہ وہ ایک بار نہیں ہزار بار جے شری رام کا نعرہ لگائیں گے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ رام ورحیم میں کوئی فرق نہیں کرتے، وہ یہ بھی کہتے سنے گئے کہ انھوں نے مختلف مٹھوں اور ہندو مندروں میں جاکر ماتھا ٹیکا ہے اور منت مانی ہے، میڈیا کے رو برو ہونے تک فتوی کا کوئی اثر خورشید عرف فیروز احمد پر نظر نہیں آیا، البتہ مسٹر نتیش جیسے گرگ جہاں دیدہ کو نظر آگیا کہ اس شخص کی بے وقوفی سے مسلمان ناراض ہوں گے اس لئے انھوں نے خورشید کو جم کر ڈانٹ پلائی اور حکم دیا کہ وہ اپنی اس حرکت کے لئے معافی مانگے، بہ ہر حال خورشید احمد مفتی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے معافی مانگی اور دوبارہ کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے، اب یہ تو وہ ہی جانتے ہوں گے کہ انھوں نے سچے دل سے کلمہ پڑھا ہے یا نتیش کی ناراضگی دور کرنے کے لئے تائب ہوئے ہیں، اس کا فیصلہ نہ ہم کرسکتے ہیں، نہ کرنا چاہئے کیوں کہ یہ صرف ان کے اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے، کوئی شخص کسی کا دل چیر کر نہیں دیکھ سکتا۔ 
منتری مہودے کی نعرہ بازی پر بھگوا میڈیا کا رویّہ حسب معمول افسوس ناک رہا، پہلے تو اس نے خوشی سے بغلیں بجائیں، اور جب فتوی آیا تو آسمان سر پر اٹھا لیا، خورشید کی توبہ تلّا سے اس کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا، میڈیا مذہب کو فرد کا حق سمجھتا ہے، بلاشبہ یہ فرد کا حق ہے کہ وہ کوئی بھی دین اختیار کرے، اس سلسلے میں اسلام کسی جبر اور زوروزبردستی کا قائل نہیں لیکن اگر کوئی شخص اسلام قبول کرلیتا ہے تو اسے اب مذہب کے اصولوں پر چلنا ہوگا، انہی اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، یہ وہ عقیدۂ توحید ہے جو دین اسلام کو دوسرے ادیان سے ممتاز کرتا ہے، جیسے ہی کوئی شخص اس بنیادی عقیدے سے انحراف کرتا ہے دائرۂ اسلام سے باہر نکل جاتا ہے، آپ خورشید کی ویڈیو دیکھیں وہ کھلم کھلا رحیم کے ساتھ رام کو شریک کررہا ہے، اس نے مندروں میں ماتھا ٹیکنے اور بتوں کے سامنے منتیں ماننے کا اعتراف کیا ہے، اس صورت میں وہ مسلمان کب رہ جاتا ہے، مفتی صاحب نے صحیح کیا کہ جو اس کے خلاف ارتداد کا فتوی جاری کرکے اسے آئینہ دکھا دیا، یہ دین ہے، مذاق نہیں ہے، کسی کو حق نہیں کہ وہ رام کا جاپ جپے اور مسلمان کہلائے، مندروں میں جاکر منت مانے اور اسلام پر چلنے کا دعوی کرے، ہم یہ وضاحت بھگوا میڈیا کے لئے نہیں کررہے ہیں کہ نہ اس تک ہماری بات پہنچ سکتی ہے اور نہ ہماری وضاحت سے اس کے موقف میں کسی مثبت تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے، یہ وضاحت ان سادہ لوح مسلمانوں کے لئے ہے جو سمجھتے ہیں کہ دین ایک مضبوط عقیدے کا نام ہے جو اس طرح کی خرافات سے کمزور نہیں پڑتا، بلاشبہ دین ایک مضبوط عقیدے کا نام ہے، مگر یہ اسی وقت تک مضبوط ہے جب تک آپ اسے دین کے بنیادی اصولوں کی قوت سے استحکام بخشے ہوئے ہیں، جیسے ہی کسی مسلمان کا قول وفعل ان بنیادی اصولوں کے دائرے سے نکلتا ہے یہ عقیدہ کمزور پڑ جاتا ہے، بل کہ کمزور ہوکر زمین بوس ہوجاتا ہے۔
قرآن کریم میں صاف اعلان ہے کہ کلمۂ کفر کہنے سے بھی کوئی شخص مسلمان باقی نہیں رہتا، چہ جائیکہ عملِ کفر کرے، ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا بہت بڑا جرم ہے، قرآن کریم میں جگہ جگہ اس حوالے سے وعیدیں آئی ہیں، یہ بہت نازک اور حسّاس معاملہ ہے، مذاق میں بھی آدمی کوئی ایسا لفظ نہ کہے، یا کوئی ایسا عمل نہ کرے جس سے عقیدۂ توحید پر ضرب پڑتی ہو، رواداری اپنی جگہ ہے مگر دین کی قیمت پر کسی طرح کی رواداری قابل تعریف نہیں ہے، دائرۂ اسلام سے نکلنے کے بعد سب سے پہلی زد اس کے رشتۂ ازدواج پر پڑتی ہے، شریعت کا ایک اصول جو قرآن کریم سے ثابت ہے یہ بھی ہے کہ کوئی مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی، یہی حکم مسلمان مرد اور غیرمسلم عورت کے لئے بھی ہے، خورشید کے تجدید نکاح کے حوالے سے بھی میڈیا زہر اگل رہا ہے، اُسے اُگلنے دیجئے، اس کے چیخنے چلا نے سے قرآن وحدیث کے احکام نہیں بدل سکتے، مفتی صاحب نے خورشید کے فسخ نکاح کے سلسلے میں جو فتوی جاری کیا تھا وہ بالکل درست تھا، خورشید کی بیوی نے شریعت کے حکم کی تعمیل میں اس سے علیحدگی اختیار کی، سسرال والوں نے خورشید سے تعلق منقطع کرنے کا اعلان کیا، خورشید کی توبہ اور اسلام میں اس کی واپسی یہ سب وہ واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی مسلمان کو اسلام سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے، بھگوا میڈیا کتنا بھی شور مچائے اس پورے واقعے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ فتوے میں بڑی طاقت ہے، حالاں کہ یہ کسی بڑے ادارے کا فتوی نہیں تھا بل کہ صرف ایک مفتی کا فتوی تھا جو انھوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں دیا تھا، مگر اس فتوے نے بھی نتیش جیسے چالاک سیاست داں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، اس سے بڑھ کر فتوے کی کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے۔

nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں