ساگر تیمی
امان ان دنوں دینی مدرسے میں عربی کی چھٹی جماعت کا طالب علم تھا ، ملک کے مختلف رسالوں اور اخبارات میں اس کی تحریریں چھپا کرتی تھیں ، زیادہ تر مضامین ہلکے پھلکے موضوعات پر ہوا کرتے تھے لیکن انہیں مضامین کی وجہ سے اس کی ایک علمی شناخت بنی ہوئی تھی ۔ مدرسے میں اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا ، وہ پڑھنے میں بھی خوب تھا اس لیے اس کی مدرسے میں اہمیت کچھ زيادہ ہی تھی لیکن اس کا بچپنہ کچھ ایسا اچھا بھی نہیں تھا ، وہ بچپن میں خاصا لاپروا تھا ، روز ایک پر ایک شرارتیں ایجاد کیا کرتا تھا، نہ پڑھنے کے ہزار بہانے تراشنے آتے تھے اسے، اور کہیں نہیں تو اس میدان میں اس کی ذہانت قابل داد تھی لیکن پھر جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا گیا ، اس کی شرارت شرافت میں تبدیل ہوتی گئی اور ایک دن وہ بھی آيا جب وہ بڑے مدرسے میں علمی بنیادوں پر جانا جانے لگا لیکن بچپن کے ساتھی تو بچپن کے ساتھی ہی ہوتے ہیں ۔ جب وہ گاؤں کے چھوٹے مدرسے میں تھا تو صرف شریر ہی نہیں تھوڑا عجیب بھی تھا ، خال خال ہی ایسا ہوتا کہ اس کے کپڑے صاف رہتے ، گالی دینے میں تو جیسے اسے مہارت حاصل تھی ، گولی گولی ( کانچا) کھیلنے میں کافی تیز تھا ، بچپن کے ساتھی اسے اسی حوالے سے جانتے تھے ، اس لیے جب چھ سات سالوں بعد شبیر نے اس کی ایک تحریر ایک نامور رسالے میں دیکھی تو اسے کافی تعجب ہوا ، اسے جیسے یقین ہی نہیں آيا کہ یہ امان کی تحریر ہو سکتی ہے ۔ امان کے برعکس شبیر نے اس بیچ حفظ قرآن مکمل کرلیا تھا اور وہ اپنے علاقے سے کافی دور دوسرے صوبے میں زیر تعلیم تھا جہاں علم و ادب کا چرچہ زيادہ رہتا تھا ، وہاں اس نے اپنے بعض اساتذہ سے امان کی تحریروں کی تعریفیں بھی سنیں اور اس کا رشک مزید تیز تر ہوگيا ۔
اسے اتفاق ہی کہیں گے کہ ششماہی امتحان کی چھٹی میں جب شبیر گھر آیا اور مدرسہ بورڈ کا امتحان دینے ٹاؤن پہنچا تو اس کی ملاقات امان سے ہوگئی ، اس نے رشک بھری نگاہوں سے امان کو دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا ۔ امتحان کے بعد وقفہ کے درمیان دونوں کی ملاقاتیں بڑھتی گئیں اور پھر روابط گہراتے گئے ، بچپن نے پانچ سات سال کے حجاب کو کہیں دور پھینک دیا ۔ شبیر امان سے ایک ایک لمحے کی تفصیل سننا چاہتا تھا ، کیسے اس نے اپنی یہ پہچان بنائی ، کس طرح لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا ، عربی اردو میں اتنی مہارت کہاں سے پیدا ہوگئی ، کس طرح وہ بھی لکھنے کی لیاقت پیدا کرسکتا ہے ، شاعری کا ملکہ کہاں سے آیا ؟ سوالات ہی سوالات اور ہر سوال کے تفصیل طلب جواب کی توقع ۔ لیکن امان کو اس کی کیا خبر کہ شبیر کے دل میں کیا چل رہا ہے ، اسے کیا معلوم کہ رشک و حسرت کی کس دنیا میں شبیر کا من ہچکولے لے رہا ہے لیکن جب طلب صادق ہو تو راہيں نکل ہی آتی ہیں ۔ رفتہ رفتہ جب چلچلاتی دھوپ کی پروا کیے بغیر وقفے وقفے سے شبیر امان کے یہاں آنے لگا اور یہ تفصیلات جاننے کی گزارش کرنے لگا اور طریقے پوچھنے لگا تو امان کے لیے بعید نہیں رہا کہ شبیر کے دل میں کیا چل رہا ہے ۔
قابل ذکر یہ بھی ہے کہ امان کے یہاں ایک طرح کی کشادگی بھی پائی جاتی تھی ، وہ چاہتا بھی تھا کہ اس کے نزدیکی طلبہ ، دوست ، احباب اچھا کریں ، لکھے پڑھیں اور نام پیدا کریں ۔ در اصل اس کی نظر میں تحریر و تقریر کا مقصد دین کی خدمت تھی اور اس معاملے میں حسد کی بجائے اس کا رویہ خیرخواہی کا تھا ، اس لیے اس نے بھی دل کھول کر اس کی رہنمائی کی ، لکھنے کے گر بتائے اور اچھی تعلیم پر زور دیا ۔ امان کی باتوں سے شبیر کو بہت ہمت ملی اور اس نے امان ہی کی طرح اسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینا چاہا ، داخلہ تو اسے مل گیا لیکن پچھلے سات آٹھ سال کے وقفے میں جہاں اس کی عمر بہت آگے بڑھ گئی تھی وہیں عربی تعلیم کا سلسلہ کافی پیچھے چھوٹ گیا تھا ، یوں اس کے لیے اعلا دینی تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور بيچ میں ہی اسے راستہ روک دینا پڑا ۔
لیکن یہ نا مکمل سفر اس کی زندگی کے لیے ایک نسبۃ زیادہ حسین اور مکمل سفر کا پیش خیمہ ثابت ہوگیا ، اس نے ذاتی مطالعے کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا جیسے اس پر جنون سوار ہو ، مراسلے لکھنے شروع کیے ، دینی کتابوں کے ساتھ ادبی کتابوں کا مطالعہ جاری ہوگيا ، اخبارات سے شغف کے ساتھ رسالوں سے دلچسپی بڑھ گئی اور پھر جیسے کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا ، کہیں مراسلہ تو کہیں مضمون ، کہیں غزل تو کہیں خط ۔ سلسلہ بڑھا تو تعریفی خطوط بھی موصول ہوئے ، ہمت افزائياں بھی بہت ہوئیں ، مختلف محفلوں میں نمائندگی کا موقع بھی ملا ۔ لیکن اس کی عقلمندی یہ رہی کی اس نے خود کو ادب تک محدود نہیں رکھا ، دینی انسلاک کو مزید استوار کیے رکھا ، دعوتی کوششیں جاری رکھیں ، اللہ نے آواز کی نعمت دی تھی سو دیکھتے دیکھتے جلسوں اور مشاعروں میں نام کمانے لگا اور پھر خود اس کے وہ احباب اسے رشک بھری نظروں سے دیکھنے لگے جو کبھی دینی تعلیم کے نامکمل سفر کی وجہ سے اسے کسی خاطر میں نہ لاتے تھے ۔
شبیر کے لیے یہ سب اتنا آسان نہيں تھا ، تعلیم کے ادھورے سفر کے بعد اسے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں ، شہر میں چھوٹی چھوٹی مسجدوں کی معمولی امامت تک پر گزارہ کرنا پڑا لیکن اس نے ہار نہیں مانی ، اپنا مقصد فراموش نہيں کیا ، لکھنے پڑھنے کا جوش کبھی دھیما نہیں ہوا ، زندگی نے اسے جتنا نچوڑا علم و ادب کے راستے اس کے لیے اتنے ہی کشادہ ہوتے گئے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اس کا نام علمی اور ادبی محفلوں میں کافی اہمیت اختیار کرگیا ، شروع شروع میں اس کے زیادہ تر جاننے والے اسے اس کی تملق پسندی اور چاپلوسی سے جوڑتے رہے لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کی صلاحیت نے سب کو شرمندہ ہونے پر مجبور کردیا ۔
امان دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد اعلا تعلیم کے حصول کے لیے یونیورسٹی چلا گیا ، اس بیچ دونوں کے رابطے استوار رہے ، وہ ایک دوسرے کی کوششوں سے واقف بھی رہے لیکن امان بھی اپنے کريئر میں لگا رہا ، پھر اللہ کا کرنا اسے اچھی نوکری مل گئی اور وہ اپنی زندگی کرنے لگا ۔
آج کئی سالوں بعد جب وہ گھر آیا اور راجدھانی کے ایک پروگرام میں اس کا تعارف اس طرح کرایا گیا کہ یہ شبیر کے صاحب کے دوست ہیں تو اس کی آنکھوں سے خوشیوں کے آنسو نکل گئے ، صرف وہی جان رہا تھا کہ ان آنسوؤں میں ماضی کے کتنے لمحات قید تھے !!