احمد شھزاد قاسمی
دارالعلوم دیوبند ملتِ اسلامیہ کے دل کی دھڑکن ہے یہ برِ صغیر میں مسلمانوں کی عظمت کا نشان ہے اللہ تعالی نے اس ادارہ کو جو تاریخی کردار عطا کیاہے جو اعتبار اور وقار بخشا ہے مدارس کی تاریخ میں اسکی نظیر نہیں ملتی دارالعلوم ڈیڑھ سو سال سے جو دینی وملی قیادت کا فریضہ انجام دے رہا ہے وہ کسی تجدیدی کارنامہ سے کم نہیں ہے دارالعلوم دیوبند نے ملک کی جنگ آزادی میں بھی مثالی کردار ادا کیا ہے اور آزاد ہندوستان میں بھی اس نے تعلیمی اور سماجی سطح پر نمایاں خدمات انجام دی ہیں دارالعلوم کی عظمت اور مثالی خدمات کا اعتراف اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں نے بھی کھلے دل سے کیا ہے ۔
آزاد ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد 1957 میں دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اس موقع پر انہوں نے اپنے اس تاثر کا اظہار کیا “تمام وہ علمائے کرام جنہوں نے اس دارالعلوم کو قائم کیا جنگِ آزادی میں شریک تھے دارالعلوم کے قیام سے پہلے اور اسکے بعد بھی انہوں نے جنگِ آزادی کو جاری رکھا انہوں نے اپنی روحانی تعلیم وتربیت کے ساتھ آزادی کا بھی اہتمام کیا”
1989 میں دارالعلوم دیوبند کے اجلاسِ صد سالہ کے موقع پر وزیر اعظم ہند مسز اندرا گاندھی دیوبند تشریف لائیں تو انہوں نے ملک کی آزادی کے لئے دارالعلوم کی خدمات کا برملا اعتراف کرتے ہوئے لاکھوں سامعین کے روبرو کہا تھا “دارالعلوم دیوبند کے بزرگوں نے ہندوستان کی آزادی کی جو تحریک شروع کی تھی اس سے لوگوں کے دلوں میں آزادی حاصل کر نے کا جذبہ ابھرا اور امنگ پیدا ہوئی اور انہی کی کوششوں کی بدولت ہندوستان آزاد ہوا “
اسکے علاوہ ملک کے متعدد سیاسی وقومی لیڈران دارالعلوم اور اسکے بزرگوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے رہے ہیں جہاں تک سوال ہے دارالعلوم کی علمی سرگرمیوں کا تو وہ کسی سے مخفی نہیں بڑے بڑے جبالِ علم وادب نے اسکی تعلیمی خدمات کو سراہاہے۔
1330ہجری میں مصر کے مشہور عالم “سید رشید رضا مصری”ہندوستان تشریف لائے تھے آپ اس موقع پر دارالعلو بھی پہونچے اور دارالعلوم کی سرگرمیوں کا قریب سے مطالعہ کیا آپ نے اپنی تقریر میں یہ کہ کر علمائے دیوبند کو خراجِ عقیدت پیش کیا “اگر میں اس علمی جماعت کو اور ان عظیم علماء کو نہ دیکھتا تو ہندوستان سے غمگین واپس جاتا” ۔
نیز مصر واپسی کے بعد آپ نے جریدہ “المنار”میں دیوبند کی عظیم خدمات کا عتراف کرتے ہوئے لکھا کہ “مجھے سب سے زیادہ خوشی ازہرالہند دارالعلوم دیکھ کر ہوئی”
ایک طرف دارالعلوم کی عظمت وخدمات کا یہ اعتراف ہے دوسری طرف ہندوستان کے تنگ نظر اور متعصب ذرائع ابلاغ ہیں جو کوئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے جس کے ذریعہ وہ ہندوستان کے اسلامی مدارس خاص طور پر دارالعلوم دیوبند کو بدنام کر سکیں اور ہم وطنوں کی نظر میں اسکی صاف ستھری شبیہ کو داغدار بنا سکیں ۔
دیوبند وآس پاس کے علاقوں میں کوئی معمولی واقعہ بھی پیش آجائے تو دیوبند کے حوالہ سے میڈیا میں قیامت برپا ہو جاتی ہے فورا اس واقعہ کو دارالعلوم سے جوڑ دیا جاتاہے اخبار کی سرخیاں سنسنی خیز اور ڈراؤنی ہوجاتی ہیں اور ٹی وی اینکروں کی تو گویا عید ہو جاتی ہے اس مہینہ کے پہلے ہفتہ کے آخری دن (6 اگست 2017 اتوار)صبح پانچ بجے یوپی اے ٹی ایس (اینٹی ٹیرورزم اسکواڈ/انسدادِ دہشتگردی دستہ)نے شک کی بنیاد پہ شہر دیوبند میں واقع دو الگ الگ مدارس میں زیرِ تعلیم دو طالبعموں اور ایک سابق طالب علم کو گرفتار کیا تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بلا سوچے سمجھے ان پر الزامات لگائے اور انکو صاف صاف دہشت گرد قرار دیا خاص طور سے ہندی اخباروں نے خبر کو سنسنی خیز بنا کر پیش کیا ان طالبعلموں کو نہ صرف دہشت گرد بتایا بلکہ ممنوعہ تنظیم “انصاراللہ بنگلہ” کے فعال ومتحرک ممبر کے طور پہ پیش کیا اسکے علاوہ انکے پاس سے اسلحہ سازی کے سامان ہونے کے بھی جھوٹے اور فرضی دعوے پیش کئے جبکہ اگلے دن ہی ats نے ان تینوں طلبا کو مکمل تفتیش کے بعد رہا کر دیا لیکن زفرانی میڈیا نے حسبِ سابق اسکی معمولی سی رپورٹنگ کی اور انکی رہائی اور بے گناہی کو دبے الفاظ میں شائع کیا ۔
اس پورے واقعہ میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہیکہ میڈ یا نے مجرمانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس واقعہ کو دارالعلوم سے جوڑنے کی کوشش کی یہ پہلا موقع نہیں ہے جب میڈیا نے دارالعلوم کو گھیرنے اور اسکا رشتہ انتہا پسندی سے جوڑنے کی کوشش کی ہو اس سے پہلے بھی میڈیا نے دارالعلوم کے خلاف ایسی فضا بنانے کی کوششش کی ہے کہ اس کے لئے آزادی کے ساتھ اپنی تعلیمی ودعوتی سر گرمیاں جاری رکھنا مشکل ہو جائے ملکی وغیر ملکی واقعات میں دیوبند کی شبیہ کو داغدار کر نے کے میڈیا کے کئی مجرمانہ واقعات ہیں۔
طالبان کے ذریعہ افغانستان کے شہر “بامیان”میں پہاڑوں کے درمیان دو ہزار سال پرانے’گوتم بدھ”کے دو طویل القامت مجسموں کو توڑے جا نے کے بعد دیوبند میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے کچھ اس طرح یلغار کی تھی کہ شاید یہ واقعہ اسی جگہ کے کسی شخص نے بامیان جاکر انجام دیا ہے یا طالبان کو دیوبند کے علما کی پشت پناہی حاصل ہے ذرائع ابلاغ کے لوگ دارالعلوم کو طالبان کے ساتھ منسلک کر نے کے لئے بے چین ہوئے جارہے تھے
2005 میں دیوبند کے ایک فوٹو اسٹوڈیو سے ایک فلم دھلنے کے لئے مظفر نگر ایک لیب میں بھیجی گئی فوٹوؤں میں کچھ داڑھ والے اور کچھ بغیر داڑھی فوجی ak47…اور دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ ٹریننگ میں مصروف تھے یہ معاملہ اخبار والوں کے ہاتھ لگ گیا ٹی وی چینل والے بھی میدان میں آگئے نیوز چینلوں نے اپنی خبروں میں اس واقعہ کو اس قدر نمایاں کیا کہ پورا ملک حیران وششدر رہ گیا ۔
اخبارات ٹی وی چینل ریڈیو اور انتظامیہ کے لوگ یہ ظاہر کر ہے تھے کہ یہ فوٹو گراف دیوبند کے ہی کسی ایسے ٹریننگ سینٹر کے ہیں جہاں کشمیر سے آئے ہوئے دہشت گرد اسلحہ چلانے کی تربیت لے رہے ہیں یہ فلم دیوبند کے ایک فوجی میجر اگروال کی تھی جو غلطی سے اسکی بھتیجی نے اسٹوڈیو میں دھلنے کے لئے دے دی تھی ۔
اس فوجی میجر نے انتظامیہ کو بتایا کہ یہ فلم ایک فوجی ٹریننگ سینٹر کی ہے فوٹو گراف میں داڑھی والے دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ مقامی کشمیری نوجوان ہیں جو خود حفاظتی کے طور پہ اسلحہ استعمال کر نے کی تربیت لے رہے ہیں
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دارالعلوم کو بدنام کر نے کی یہ سازش کس قدر شرمناک تھی اگر یہ فوجی میجر سامنے نہ آتا تو تحقیقات کے نام پر کچھ بھی ہو سکتا تھا
دارالعلوم کے اربابِ حل وعقد کو میڈیا کے اس رویہ کے خلاف عوامی بیداری کے ساتھ ساتھ قانونی کارروائی کابھی سہارا لینا چاہئے ورنہ میڈیا کی یہ شر انگیزی اسی طرح جاری رہےگی۔