صدائے دل : ڈاکٹر یامین انصاری
ایسا لگتا ہے کہ شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین نے بی جے پی کے اشاروں پر بابری مسجد مسئلہ کو الجھانے کےلئے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا ہے
اجودھیا کے مسئلہ نے ہندوستان کی تاریخ میں سیاسی اور سماجی سطح پر انگنت نقوش چھوڑے ہیں۔ ذیلی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ سے لے کر اب سپریم کورٹ تک میں یہ معاملہ زیر غورہے، لیکن کسی حتمی فیصلہ تک نہیں پہنچا جا سکا ۔اس کے ساتھ ہی کبھی اس معاملے میں دونوں ہی فرقوں کے امن پسند اور مہذب افراد نے اپنے طور پر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی تو کبھی سیاستدانوں نے اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش کی۔ یعنی سنجیدگی کے ساتھ اور کبھی مکر و فریب کے ذریعہ اس مسئلہ کو عدالت سے باہر حل کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں۔ لیکن نتیجہ پھر بھی وہی صفر ہی رہا۔ آئندہ ۱۱ اگست سے ایک بار پھر سپریم کورٹ میں اجودھیا مسئلہ پر سماعت شروع ہونا ہے، لیکن اس سے پہلے ایک بار پھر کچھ لوگوں کے ذریعہ اس میں خلل ڈالنے اور مسئلہ کو حل کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بات سبھی لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت میں اپوزیشن ، مخالفین ، نکتہ چینوں اور تنقید کرنے والوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی حکومت کی مرضی کے خلاف کوئی بھی کام اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتا، جیسا کہ ابھی تک ہوتا آیا ہے۔ سیاسی میدان میں تو ہم سب بہار سے لے کر گجرات تک اور گووا سے لے کر منی پور تک دیکھ ہی رہی رہے ہیں کہ کس طرح تاناشاہی اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ساتھ ہی سماجی سطح پر بھی لوگوں کو آپس میں بانٹنے اور ان کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ حکمراں جماعت کی اقتدار کی ہوس اس قدر آگے بڑھ چکی ہے کہ کہیں سیاسی سطح پر لوگوں کو لڑایا جا رہا ہے، کہیں سماجی گروہوں کے درمیان ذات پات اور فرقہ پرستی کی دیوار کھڑی کی جا رہی ہے اور کہیں مسلک کے نام پر آپس میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی کے تحت بابری مسجد مسئلہ میں بھی شیعہ اور سنیوں کے درمیان کشیدگی اور ٹکراو ¿ کا راستہ کھولنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ یہ سراسر ایک سیاسی قدم ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت میں کچھ لوگ صرف اس کام پر مامور کئے گئے ہیں، جو مسلمانوں کے اندر فرقہ واریت اور مسلکی جھگڑوں کو ہوا دیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اپنے زہر آلود بیانات کے لئے مشہور اور مسلمانوں سے کھلے عام نفرت کا اظہار کرنے والے سبرامنیم سوامی نے علی الاعلان کہا تھا کہ مسلمانوں کو شیعہ سنی اور دیوبندی بریلوی کے نام پر آپس میں لڑانا بہت آسان ہے اور اس کام کو انجام دیا جانا چاہئے۔ آج جب یہ خبر سامنے آئی کہ شیعہ وقف بورڈ نے بابری مسجد پر اپنا مالکانہ حق جتایا ہے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کی یہ تجویز پیش کی ہے کہ مسجد کو کسی دوسری جگہ پر تعمیر کیا جانا چاہئے، اسی وقت ذہن میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی جیسے لوگوں کے ارادے اور منصوبے سامنے آ گئے۔ ساتھ ہی شیعہ وقف بورڈ کے ذریعہ سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے حلف نامہ پر سب سے پہلے سوامی نے ہی رد عمل بھی ظاہر کیا ۔ انھوں نے کہا کہ”شیعہ وقف بورڈ نے بھگوان کی مرضی سے معاملے میں مداخلت کی ہے۔“ در اصل شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا ہے۔ اس حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد شیعہ وقف کی ملکیت ہے۔ ہم اس تنازع کا پر امن حل چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں دئے گئے حلف نامہ میں چیئرمین نے کہا ہے کہ مسجد کو کسی مسلم اکثریتی علاقہ میں بنانا چاہئے، جو اجودھیا میں رام جنم بھومی کی جگہ سے کچھ فاصلہ پر ہو۔ شیعہ وقف بورڈ نے سپریم کورٹ سے کچھ وقت بھی مانگا ہے، جس میں وہ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل کر سکیں۔غور طلب ہے کہ اجودھیا مسئلہ پر ۱۱ اگست سے سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی۔ اس مسئلہ کے فریقین نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے ۰۱۰۲ءکے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔یعنی سات سال کے بعد سپریم کورٹ اس معاملے میں سماعت کرنے جا رہی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان فریقین میں شیعہ وقف بورڈ کہیں نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کے ذریعہ جاری نوٹس کے مطابق ۱۱ اگست کو دوپہر بعد تین رکنی خصوصی بنچ نے چیف جسٹس جے ایس کھیہر کی سربراہی والی بنچ کے سامنے اس معاملے کا ذکر کرتے ہوئے جلد سماعت کی اپیل کی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ وہ جلد ہی اس پر فیصلہ کریں گے۔ اور اب ۱۱ اگست کو اس معاملے کی سماعت ہوگی۔غور طلب ہے کہ ۰۳ ستمبر۰۱۰۲ءکو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو ¿ بنچ نے’ آستھا‘ کو بنیاد بنا کر ایک عجیب و غریب فیصلہ سنایاتھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع زمین کا ایک حصہ رام مندر، دوسرا سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑے میں زمین بانٹنے کا فیصلہ دیا۔ ۹ مئی ۱۱۰۲ءکو سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔بعد میںسپریم کورٹ نے کہا کہ یہ معاملہ مذہب اور عقیدے سے وابستہ ہے، اس لئے فریقین کو مل کر اس مسئلہ کا حل نکالنا چاہئے۔ ضرورت پڑنے پر عدالت اس معاملے میں دخل دے گی۔ لیکن اس میں شیعہ وقف بورڈ کہیں فریق نہیں تھا۔
در اصل بی جے پی کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ بابری مسجد کا مسئلہ التوا میں رہے اور حل نہ ہو۔ اسی لئے اب شیعہ وقف بورڈ کے ذریعہ بی جے پی نے اس مسئلہ کو مزید الجھانے کا کام کیا ہے۔ ۵۴۹۱ءمیں شیعہ وقف کے فریق مقدمہ ہار گئے تھے، لیکن اتنے عرصہ تک شیعہ وقف بورڈ خاموش رہا۔ اب ۷۱۹۱ءمیں شیعہ وقف بورڈ کے ذریعہ ملکیت کا دعویٰ ٹھوکنا واضح اشارہ کرتا ہے کہ اس کا اصل مقصد ملکیت حاصل کرنا نہیں، بلکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے عزائم کو پایہءتکمیل تک پہنچانا ہے۔ ظاہر ہے جب ملک کے حالات بدل رہے ہیں، تو اس کا فائدہ ہر کوئی اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلہ میں شیعہ وقف بورڈ کے موجودہ چیئرمین کے بارے میں بھی ایک نظر ڈال لینا چاہئے۔موجودہ شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی ہیں، جو کبھی یو پی کے قد آور سماجوادی لیڈر اعظم خاں کے بیحد قریبی مانے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ یو پی اسمبلی انتخابات کے دوران پوری مہم میں وسیم رضوی اعظم خاں کے ساتھ رہے، لیکن جیسے ہی سماجوادی پارٹی کی حکومت گئی، انھوں نے بھی پلٹی مار لی۔یہاں تک کہ رمضان میں سنگھ کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کی لکھنو ¿ میں منعقد افطار پارٹی میں بھی وسیم رضوی کو اندریش کمار اور بی جے پی کے دیگر لیڈران کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔اسی وقت سے یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں کہ خیمہ بدلنے میں ماہر وسیم رضوی جلد ہی سنگھ پریوار کے خیمہ میں شامل ہو جائیں گے۔ تازہ واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیعہ وقف بورڈ کے موجودہ چیئرمین کس کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔ ۰۱۰۲ءمیں جب بابری مسجد مسئلہ پر الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا تھا تو اس وقت ’آو ¿ٹ لُک‘ نے وسیم رضوی کے حوالے سے ایک بیان شائع کیا تھا، جس میں صاف طور پر کہا گیا تھا کہ ”شیعہ وقف بورڈ نے اجودھیا مسئلہ پر سپریم کورٹ میں لڑی جانے والی لڑائی میں سنی وقف بورڈ کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ اب وہی وسیم رضوی سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے اس مسئلہ کو شیعہ سنی تنازع میں الجھانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب وسیم رضوی نے بابری مسجد ایشو میں فریق بننے کا اعلان کیا تھا تبھی انھوں نے اپنے ارادے ظاہر کر دئے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’وقف مسجد میر باقی، جسے اجودھیا میں بابری مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے، بابر کے دور میں میر باقی کے ذریعہ بنوائی گئی شیعہ مسجد تھی۔ میر باقی شیعہ تھے۔ ‘ وسیم رضوی کا دعویٰ ہے کہ اس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ شیعہ مسجد تھی۔ ان کے مطابق صرف مسجد کے امام ہی سنی تھے، جنھیں شیعہ متولی اجرت دیتے تھے اور وہاں شیعہ سنی دونوں ہی نماز پڑھتے تھے۔بہر حال ماہرین قانون کے مطابق شیعہ وقف بورڈ کے تازہ سیاسی قدم سے بابری مسجد مقدمہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس سے دشمنوں کے عزائم کی تکمیل ہوگی اور ملت میں اتحاد کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ (ملت ٹائمز)