محمد عمران
وطن عزیز کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے 70سال مکمل ہوئے۔لیکن ملک میں حالات کی کشیدگی تاحال برقرار ہے۔اگر سنجیدگی سے غور کیاجائے تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ وقت کی رفتار کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے۔حالانکہ امید تویہ کی جارہی تھی کہ آزادی کے بعد اس ہندوستان کی تشکیل عمل میں آئے گی جس کا خواب آزادی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینے والے سورماؤں نے دیکھاتھا۔وہ ہندوستان بن کر تیار ہوگا جس میں عوام کی بھلائی کومقدم سمجھاجائے گا،وہ ہندوستان دنیاکے کے افق پر چمکے گا جس میں تفریق اور تعصب کاشائبہ بھی نہیں ہوگا اور ہرہندوستانی چاہے وہ کسی بھی مذہب سے متعلق ہو ،کسی بھی صوبے سے اس کارشتہ ہو،اس کی ذات کوئی بھی ہو،چاہے وہ کسی بھی نسل کاہو ،وہ عورت ہویامرد ،وہ شہری ہو یادیہاتی باہم اتفاق واتحاد ہی اس کاشیوہ ہوگا۔اورجوبھی مسنداقتدار پر قائم ہوگا اس کی ذمہ داری اسی اتفاق واتحاد کروقائم رکھنے کی ہوگی۔
حالانکہ آزادی کے بعد ملک عزیز نے عالمی سطح پر ترقی کی ہزارہامنزلیں طے کی ہیں اور وہ آج چین جیسے ملک سے بھی لوہالینے کوتیار بیٹھاہے ،اندرون ملک بھی تعمیراتی وترقیاتی کام بھی ہزارگناہوئے ہیں،لیکن اگر کچھ نہیں ہوا ہے تو عوام کو مشکلات سے آزادی دلانے کی ذمہ داری پوری نہیں ہوئی ہے۔عوام کے درمیان اتفاق واتحاد کی جگہ پر خلیج قائم ہوئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج خواتین مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوئی ہیں اور ان کے لئے یہ مواقع بھی فراہم کیے گئے ہیں ،بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کے نعرے کے ساتھ ان کو ایک عزت کا مقام دینے کے سلسلے کی شروعات بھی ہوئی ہے ،لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی بڑا المیہ ہے کہ خواتین کے اوپر ہونے والے مظالم کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے،ان کی عزت وعفت کو تار تار کرنے میں کیااعلیٰ اور کیا ادنیٰ ہرطبقہ ملوث نظر آرہاہے۔اور اس پر قدغن لگنے اور خواتین کی آزادی کو ایک حقیقی آزادی کاروپ دینے میں آزادی کے ستر سال بعد بھی ایک تشویش کی صورت حال بنی ہوئی صاف دکھائی دے رہی ہے۔
بات کومزید آگے بڑھانے سے قبل یہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ اس پہلو پر بھی غور کرلیاجائے کہ ہمارے اندر چاہے ہم عوام کی شکل میں ہوں یاحکمراں و افسران کے روپ میں خوداحتسابی کا جذبہ باقی نہیں رہا۔آج ملک کے عوام بھی یقینی طور پر آزادی اور اپنے حقوق چاہتے ہیں اور اس کی بات بھی کرتے ہیں لیکن وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں ایسے عناصر کو تقویت پہنچانے میں معاون بھی بنتے ہیں جو آزادی کے مطلب ومعنی کو نہ صرف تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں بلکہ اپنی تجوریاں بھرنے اور اپنے ذاتی مقاصد کے حصول میں آسانی سے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔آئیے، یہاں اس تلخ سچائی کو بھی قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ آزادی کو محض ایک تقریب کے طور پر منانے والوں میں بڑی حدتک آزادی کے مقاصد وتقاضے ملحوظ خاطر نہیں رہتے۔اگر ایسا ہوتا تو یقینی سی بات ہے کہ سترسال کے طویل عرصے میں ملک کا کوئی بھی شہری نہ تو تنگ حال ہوتا اور نہ ہی وہ آج کنگال ہونے کے دہانے پر کھڑا ہوتا۔
ملک کے کسان جن کو ان داتا کہنے کی روایت ہے،جن کے لئے ماضی میں جے جوان اور جے کسان کا نعرہ بھی دیاگیا تھا اور ان کی آزادانہ حیثیت کوقبول بھی کیاگیا تھا،آج وہ اپنی ضروریات اور تقاضوں کولے کر جگہ جگہ آوازیں لگاتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی پکار سنی نہیں جاتی ہے ،روزبروزمایوسی کاشکار ہوتے جانے والے کسانوں کے درمیان خودکشی کے بڑھتے رحجان سے بخوبی یہ اندازہ لگتاہے کہ کسان کی آزادی بھی دور کی کوڑی بن گئی ہے۔
ملک آزاد ہواتھا تو اس وقت یہ امید کی گئی تھی کہ عوام کو سستے داموں پر ضروری اشیاء فراہم کرائی جائیں گی ،اور انگریزوں کے مظالم سہنے کے بعد کوئی بھی شہری کم ازکم پیٹ کی آگ بجھانے میں دشواری محسوس نہیں کرے گا۔لیکن آج ستر سال گزرنے کے بعد مہنگائی کا اتنابراحال ہوگیا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ آزاد ملک میں خوشحالی کی تمنا رکھنے والے عوام کو کبھی پیاز آٹھ آٹھ آنسو رلادیتا ہے تو کبھی ٹماٹر اس کی سہولتوں کوقتل کرکے خود لال ہوجاتاہے۔غور طلب بات ہے کہ اس ملک میں عوام کو جہاں سہولتیں ملنی چاہئے تھیں وہاں قدم قدم پر اور ہرکام کے لئے ٹیکس اداکرنے کی ذمہ داری کی ادائیگی میں اپنی زندگی کے شب وروز گزارنے پڑرہے ہیں۔ایسا لگتاہے کہ کسی کواس ہندوستان کی پروا ہی نہیں ہے جس کو عوام کا اور کسان کا ملک کہاگیاتھا۔
سارے جہاں میں اچھا کہلانے والا ہمارا پیار ا ملک فرقہ واریت کو ایک زہرکی طرح دیکھتاہے،کیونکہ صدیوں سے یہاں سیکولر روایتوں کا بول بالا رہاہے،ہندو اکثریت میں رہے تو مسلمان دوسری بڑی اکثریت کے روپ میں۔سکھ اور عیسائی کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی یہاں باہم مل جل کررہے ہیں،اسی لئے جب یہاں انگریزوں کے مظالم کی ابتداہوئی اور اس کی انتہائی شکل بھی سامنے آنے لگی تو کسی نے بھی یہ نہیں دیکھاکہ مظالم کا شکار کوئی ہندو ہورہاہے کہ مسلمان یاکہ سکھ یاپھر عیسائی،بلکہ وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ ہندوستانیوں پر مظالم ہورہے ہیں اوراسی لئے بیک وقت اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے بھی کھڑے ہوجاتے تھے۔انہوں نے کبھی بھی ہندومسلم ایکتاکوپامال نہیں ہونے دیا،بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ ایک قدم ہندوکا ہوتاتھاتو دوسرامسلمان کا۔یہاں ہرگز بھی یہ تمیز نہیں کی جاتی تھی کہ پہلا اٹھنے والا قدم کسی مسلمان کاہے کہ ہندوکا،کبھی مسلمان رہنمائی کرتاتھا توکبھی ہندو،ملک کے لئے قربانی دینے والے ان بہادروں کے خون کارنگ ایک ہی تھا،ان کے بول ایک ہی تھے،ان کے خیالات بھی ایک تھے،اسی لئے وہ ایک ساتھ انگریزوں سے لڑنے اور آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
اگر آج ملک کے حالات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آزادی کی قیمت کو نہ سمجھنے والے افراد، رہنمائی کافریضہ اداکرتے ہوئے دکھائی دے دیتے ہیں۔انہیں اپنی سیاست کی دکان چلانے کے لئے اپنے ان سورماؤں کاکردار نظر نہیں آتا ہے جن کی وجہ سے ملک آزاد ہواتھا بلکہ ان کے اصول اور ان کی موجودہ سیاست کا طریقہ ظالم انگریزی اصولوں کا پرتو نظر آتاہے۔وہ جوڑنے کی جگہ پر توڑنے کو اہمیت دیتے ہیں،اتحاد کو پامال کردینے میں ہی وہ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔غور طلب امر ہے کہ جس ملک میں یہ پیغام دیاگیاتھا کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔آج اسی ملک میں مذہب کو بیر رکھنے کے طور پر استعمال کیاجارہاہے۔ایک خاص مذہب کو اہمیت دی جارہی ہے تو دوسرے مذہب اور اس کے ماننے والوں کو نشانہ بنایاجارہاہے۔سب سے براحال مسلمانوں کا ہے۔
حالانکہ یہ سلسلہ بھی ستر سال کی تاریخ میں کوئی نیا نہیں ہے،بیشتر مقامات پر مسلمان مظلومیت کے شکار ہوتے رہے ہیں،لیکن موجودہ وقت میں مسلمانوں کے تئیں حالات نہایت تشویشناک ہوگئے ہیں۔ ان کی وطن دوستی کو مشکوک نظروں سے نہ صرف دیکھا جاتا ہے بلکہ ان پر سنگین الزامات بھی عائد کردیئے جاتے ہیں اور اس وقت یہ قطعی بھی یاد نہیں رکھاجاتاہے کہ آزادی کی جنگ میں انہوں نے کیاکیا کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں،اس بات کو قطعی بھلانے کی غیرعاقلانہ کوشش کی جاتی ہے کہ ہماری آزادی کی ہرسانس میں مسلمانوں کا بھی حصہ ہے۔ ملک کی پرامن فضا کومکدر کرنے اور اپنی سیاسی غرض کے حصول کے لئے ملکی اصولوں سے بھی سمجھوتہ کرلیاجاتاہے۔
اب دیکھئے ،کبھی گھر واپسی کے نعرے ہوں یا سیکولر ملک کو ہندوراشٹر بنانے کی مذموم کوششیں،گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں کے خون بہائے جانے کا غیرہندوستانی اور غیرانسانی سلسلہ ہو یاہجوم کے تشدد کے ذریعے اہنسا کی دھرتی کو شرمندہ کردینے کاناپاک منصوبہ،مسلمانوں کی شریعت پر حملہ ہو یاوطن کی آزادی میں پیش پیش رہنے والے ان کے مدارس کودہشت گردی سے جوڑنے کی شاطرانہ کوشش،ان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اقلیتی کردار کو ملیامیٹ کرنے کی پلاننگ ہو یا ان کے بچوں کے ذہنوں میں نصابی کتابوں کے ذریعے ہندوتو کوپیوست کرنے کی سازش ،ہراعتبار سے ملک کی سا لمیت اور اس کے آئینی وتہذیبی روایتوں اور اصولوں کوہی پامال کیاجارہاہے۔اس کے شکار براہ راست مسلمان ہورہے ہیں۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر زبردست خوف وہراس کاماحول قائم ہورہاہے ،جوایک سچے ہندوستانی کے لئے ناقابل برداشت ہے۔
غالباًیہی وجہ ہے کہ دس سال تک نائب صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے اور ہرطبقے میں مقبول حامد انصاری کی الوداعی تقریر میں یہ درد واضح طور پر چھلک پڑا جویقینی طور پر ملک کے موجودہ حکمرانوں اور دیگر رہنماؤں کے لئے ایک سنجیدہ اور فوری طور پر قابل عمل پیغام ہے۔ملک عزیز میں اقلیتوں کے تعلق سے انہوں نے جوباتیں کہی ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہیں۔سنجیدہ اور فکرمند لوگوں کی جانب سے اس بیان کی پذیرائی کی جارہی ہے اور آزادی کے سترسال بعد ملک کی تشویشناک صورت حال پر غوروفکر کیاجارہاہے۔لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ مطلب کی سیاست کو ملک کی فلاح و سا لمیت پر قربان کردینے کی کوشش کرنے والوں کو یہ حقیقت بیانی بھی گراں گزر رہی ہے۔ایسا لگتاہے کہ ان کا ذہن کچھ اس طرح کے جراثیم کا مرکز ومحور بن گیا ہے جس کو صرف اپنی ہی سوجھتی ہے ،ان کو نہ توتاریخ سے کوئی مطلب ہے اور نہ ہی حال کی بگڑتی صورت حال کے سدباب کی کوئی فکر۔
غور طلب بات ہے آزادی کے ستر سال پورے ہونے پر اس کے جشن کی تیاریاں توضرور کی جارہی ہیں لیکن اس کے مقاصد کے حصول کو مقدم نہیں سمجھاجارہاہے۔آزادی کے مقاصد اور ملک کی تہذیبی و آئینی سلسلے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آج یہ سوچناہوگا کہ ملک ایک طرف جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھے گا تو توازن قائم نہیں رہ سکے گا،اور اس کاانجام بھی وہ نہیں ہوگا جس کا خواب دیکھتے ہوئے ملک کوآزادی سے ہمکنار کیاگیاتھا۔سوال یہ ہے کہ اس تشویشناک صورت حال میں بھی کسی کو ہند کی پروا ہے کہ نہیں؟
( مضمون نگار اینگلوعرب اسکول کے سینئر استاذ ہیں)
mohd1970imran@gmail.com