عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلو م دیوبند نے اس مرتبہ یوم آزادی کے موقع پر ادارہ میں قومی پرچم لہرا کر ناقدین کراراجواب دیاہے، ساتھ ہی جشن آزادی کے عنوان پر اجلاس عام کا انعقاد کرکے طلباء کو ملک کی آزادی میں دارالعلوم دیوبند اور اکابرین دیوبند کی خدمات سے روشناس کرایاہے، دارالعلوم دیوبند میں برسوں بعد لہرائے گئے ترنگے کو یوگی حکومت کے ذریعہ اترپردیش کے منظور شدہ مدارس کے لئے جاری ہدایت نامہ سے بھی جوڑ کر دیکھاجارہاہے اور ملک میں وندے ماترم جیسے گیتوں کو گانے کے مباحثوں کے دوران دارالعلوم دیوبند میں باب قاسم پر لہرائے گئے قومی پرچم (ترنگے) کو لیکر مختلف قسم کی چہ مہ گوئیوں کا دور بھی شروع ہوگیا۔ صبح تقریباً ساڑھے سات بجے دارالعلوم دیوبند کے کارکنان نے قومی پرچم کو صدر دروازے پر نصب کرکے جہاں ناقدین کرارا جواب دیاہے وہیں دارالعلوم دیوبند کی ملک سے وفاداری کو کیمروں میں قید کرنے کی غرض سے دیوبند پہنچی نیشنل میڈیا کوبھی ادارہ کے اس قدم سے شدید دھچکا پہنچاہے،باوجوداس کے دارالعلوم دیوبند نے مقامی میڈیا کو بھی اس پورے عمل سے دور ہی رکھنے کی کوشش کی ہے۔یوم آزادی کے جشن کے عنوان پر صدر گیٹ پرادارہ کے کارکنان نے قومی پرچم نصب کیا تاہم وہاں اس وقت ادارہ کے عہدیدان نظر نہیں آئے۔اس بابت نامہ نگار نے مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابوالقاسم نعمانی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے بات چیت نہیں ہوسکی۔
بعدازیں دارالعلوم دیوبند کی جدید لائبریری میں آزادی کے حوالہ سے ایک اہم اجلاس کاانعقاد کیاگیا جس میں خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کے قومی صدر و دارالعلوم دیوبند کے سینئر استاذ حدیث مولانا سید ارشد مدنی نے کہاکہ ہندوستان کی آزادی میں لاکھوں مسلمانوں اور علماء دیوبند کی شراکت و قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک کو توڑنے والی طاقتیں مسلمانوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں اور ان پر طرح طرح کی تہمتیں لگائی جا رہی ہیں لیکن ان سب سے کے باوجود ملک کی آزادی میں دی گئی دارالعلوم دیوبند اور کابرین دیوبند کی قربانیوں کو فراموش نہیں جا سکتا۔ مولانا سید ارشد مدنی نے اپنے طویل خطاب کے دوران کہا کہ آزادی کی لڑائی 1857 سے باقاعدہ لڑی گئی ،جبکہ علماء کرام نے اس جنگ کو سو سال قبل ہی شروع کر دیا تھا اور علماء دیوبند نے ملک کی مکمل آزادی کی آواز اٹھائی تھی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ باپو کو مہاتما کا خطاب دیوبند ہی سے ملا تھا اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مہاتما گاندھی کو لے کر سارے ہندوستان کے ہندو مسلمانوں کو ساتھ شامل کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے ملک کو فرقہ پرستی سے بچانے کے لئے ایک پلیٹ فارم پرمتحد ہونے کی اپیل کی۔واضح رہے کہ اس سے قبل یوم آزادی کے موقع پر طلباء کی جانب سے ادارے میں جشن آزادی کے عنوان سے پروگرام منعقد ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ دارالعلوم دیوبند کے مرکزی گیٹ باب قاسم پر ترنگا لہرا کر ناقدین کو سیدھا جواب دیا گیا ہے۔اجلاس کے دوران کثیر تعداد میں طلبا ء اور اکثر اساتذہ موجود رہے۔وہیں دارالعلوم وقف دیوبند میں بھی حسب سابق جشن آزادی کے پروگرام کاانعقاد کیاگیا اور مہتمم مولانامحمد سفیان قاسمی کے ہاتھوں پرچم کشائی عمل میں آئی۔ اس موقع پر انہوں نے ملک کی آزادی کے حوالہ سے پرمغز خطاب کیا۔