آج محترم یاسر ندیم الواجدی صاحب کا “جن گن من” کے تعلق سے ایک مضمون ملت ٹائمز میں پڑھنے کا موقع ملا، محترم نہایت ہی مؤقر اور علمی شخصیت ہیں، انہوں نے نہایت بہترین مضمون لکھا ہے، اور اپنے موقف کو نہایت ہی سلیقے سے واضح کیا ہے، اس میں انہوں نے جامعہ سلفیہ کے فتوے کا بھی ذکر کیا ہے، اس پورے مضمون میں دو باتیں اہم ہیں…ایک یہ کہ اس میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ٹیگور بت پرست نہیں تھے، وحدت الوجود کے قائل تھے، اور تصوف سے بے حد قریب تھی.
دوسری بات یہ کہ یہ وضاحت کی گئی کہ یہ نظم کسی بادشاہ کی مدح میں نہیں لکھی گئی بلکہ خالق کائنات کی اس میں تعریف بیان کی گئی ہے.
یہ دونوں باتیں مفروضہ ہیں، اور کچھ نہیں، ویسے بھی عقیدے میں اتنی کمزوری نہیں ہونی چاہیئے جتنی محترم یاسر ندیم صاحب نے دکھائی ہے.
ان کو شاید معلوم ہو کہ علمی حلقوں سے جن گن من کی شرعی حیثیت کو لیکر بہت پہلے سے سوال اٹھتے رہے ہیں، ابھی تک تو صرف سلفیہ نے اس کے خلاف فتوی شائع کیا تھا..اب تو ندوہ نے بھی پڑھنے سے انکار کردیا، وہ الگ بات ہے کہ نہایت ہی ڈپلومیٹک انداز سے معاملے کو دوسری طرف موڑ دیا.
یہاں ایک بات میں کہنا چاہوں گا کہ کسی کا اسلام کو نہ ماننا ہی بذات خود پریشانی کی بات ہے، اب وہ چاہے جتنا خود کو ملحد یا کمیونسٹ یا بت پرستی سے دور قرار دے، اگر کئی خداؤں کی عبادت کرے تب بھی غلط، کسی کی نہ کرے تب بھی غلط، یہاں مجھے ٹیگور کے مذہبیات سے بحث نہیں، ہاں ان کا وحدت الوجود وغیرہ سے متاثر ہونا بھی ان کے کلئیرنس کی دلیل نہیں ہے.
اور رہی بات اس نظم کی تو مخاطب کون ہے، اس کے بارے میں سخت اختلاف ہے، بعض لوگ کہتے ہیں بادشاہ، اور بعض لوگ کہتے ہیں بھارت بطور Deity، جیسا کہ خود بھارت بھاگیہ ودھاتا کے لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت یہ قسمتوں کو بنانے والا ہے، اور رہی بات خدائے لم یزل کو مخاطب کرنے کی تو یہ خود کو تسلی دینے والی بات ہے.
ایک مسلمان کا پورا سرمایہ عقیدہ ہی ہوتا ہے، عقیدہ میں زیادہ لچک مسلمانیت کو زائل کرنے کے مترادف ہے، ہم اس کو گانے پہ مجبور ہیں اس وجہ سے نہیں کہ وہ سب سے بہتر ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ تھوڑا کم برا ہے، ورنہ اگر زیادہ ہنگامہ کیا گیا تو مزید برے کو اختیار کرلیا جائے گا، یعنی وندے ماترم، جس میں واضح الفاظ میں بھارت کی وندنا کی گئی ہے.
عزیر احمد
جواہر لال نہرو یونیورسٹی
یاسر ندیم صاحب کا مضون پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہاں کلک کرکے اس موضوع سے متعلق ایک اور تبصرہ پڑھیں