عدالتی فیصلے کے بعد

مولانا ندیم الواجدی
سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ کے تین ارکان نے ایک مجلس میں تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس پر چھ ماہ کے لئے پابندی لگادی ہے، اگر چہ دو ججوں نے اس فیصلے سے اختلاف بھی کیا ہے، عدالت عظمی نے کہا ہے کہ تین طلاق ؛ طلاقِ بدعت ہے، اور اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے، یہ صرف ایک روایت ہے، اس کو آئین کے آرٹیکل 25 (بنیادی حقوق سے متعلق قانون) کے تحت تحفظ حاصل نہیں ہے، لہٰذا اسے ختم کرنا چاہئے، عدالت عظمی نے طلاق ثلاثہ کو خواتین کے حق مساوات سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس پر چھ ماہ کے لئے پابندی عائد کردی ہے، اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کے لئے چھ ماہ کے اندر قانون سازی کرے، اگر حکومت چھ ماہ میں یہ قانون نہیں بناتی ہے تو عدالت کی لگائی گئی پابندی چھ ماہ بعد بھی برقرار رہے گی، ایک طرح سے عدالت نے طلاق ثلاثہ کو مستقل طور پر ختم کردیا ہے، اب اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہے اور مطلقہ عورت عدالت پہنچ کر، یا خود طلاق دینے والا عدالت میں جاکر یہ اپیل کرتا ہے کہ اس کی تین طلاقوں کو ایک مانا جائے تو اسے عدالت کی تائید حاصل ہوگی۔
عدالت عظمی کے اس فیصلے کو تاریخی کہا جارہا ہے، اس کے تاریخی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے کیوں کہ ہماری دانست میں یہ پہلا فیصلہ ہے جس پر دونوں فریق خوشی سے بغلیں بجارہے ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی نے عدالت کے اس فیصلے پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ مسلم خواتین کو مساوات کا حق دے گااور یہ ان کو بااختیار بنانے کی طرف ایک مضبوط قدم بھی ثابت ہوگا، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے جو اس مقدمے میں بنیادی فریق تھا یہ کہتے ہوئے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے کہ اس نے مسلم پرسنل لاء کو تحفظ فراہم کیا ہے، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ شرعی احکام مسلم پرسنل لاء کا حصہ ہیں اور ان میں ترمیم یا اضافے کا حق کورٹ کو حاصل نہیں ہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل مسٹر کپل سبل بھی خوشی سے نہال نظر آرہے ہیں، انھوں نے عدالت میں بحث کے دوران طلاق ثلاثہ کو آستھا (مذہبی عقیدت) سے جوڑا تھا، عدالت نے آستھا کی یہ عمارت منہدم کردی ہے، اس کے باوجود وکیل صاحب اسے تاریخی فتح سے تعبیر کررہے ہیں، غرض یہ کہ عدالت کا فیصلہ اگرچہ واضح ہے، مگر اس پر تمام فریقوں کے یکساں ردّ عمل نے عجیب وغریب صورت حال پیدا کردی ہے، اتراکھنڈ کے کاشی پور کی مسلم خاتون سائرہ بانونے کہا ہے کہ آج کا دن تاریخی اہمیت کا حامل ہے، یہی وہ خاتون ہیں جو تین طلاق کے خلاف عدالت پہنچی تھیں، سلمان خورشید، تسلیمہ نسرین اور طارق فتح جیسے لوگ تو خوشی سے بے حال نظر آرہے ہیں، آخر الذکر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مولویو! سنبھل جاؤ، اب تعدد ازواج پر بھی پابندی لگنے والی ہے، تعدد ازواج پر پابندی لگے گی یا نہیں، یہ تو وقت بتلائے گا، مگر فی الحال تین طلاق پر تو پابندی لگ چکی ہے، اب ہماری ملّی تنظیمیں طے کریں گی کہ عدالت عالیہ کی طرف سے تین طلاق پر پابندی، حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایت اور قانون سازی میں ناکام رہنے پر اس پابندی کی طویل مدتی برقراری مسلمانوں کے موقف کی شکست ہے یا فتح؟ ہماری رائے میں تو یہ تاریخی شکست ہے، اور ہم یہ کہہ کر اس پر خوش نہیں ہوسکتے کہ عدالت نے مسلم پرسنل لاء کو فلاں دفعہ کے تحت تحفظ فراہم کیا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کو اگرچہ قانون کی متعدد دفعات کے تحت تحفظ حاصل ہے، اس کے باوجود وقتاً فوقتاً مسلم پرسنل لا کے تحت آنے والے معاملات سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی رہی ہے، ۱۹۷۲ء کا شاہ بانو کیس اس کی مثال ہے، جب ایک عدالت نے مطلقہ عورت کو عدت گزرنے کے بعد بھی نان نفقہ کا مستحق قرار دیتے ہوئے مسلم پرسنل لا کے خلاف فیصلہ دیا تھا، اس وقت کی مضبوط مسلم قیادت نے اس فیصلے کی مزاحمت کی، اور اس وقت کی کانگریسی حکومت نے جس کی قیادت راجیو گاندھی کررہے تھے، پارلیمنٹ کے ذریعے ایک قانون لاکر عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، اس وقت سے مختلف عدالتیں دستور میں دی گئی تحفظ کی ضمانت کے باوجود مسلم پرسنل لا کے خلاف فیصلے کرتی رہتی ہیں، حالیہ فیصلہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، ایک طرف تو عدالت عالیہ دفعہ 25 کی بات کرتی ہے اور یہ مانتی ہے کہ اس دفعہ کے تحت مسلم پرسنل لا کو تحفظ ملا ہوا ہے، وہ یہ بھی مانتی ہے کہ اس دفعہ کی موجودگی میں عدالت کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی، دوسری طرف وہ تین طلاق کو یہ کہہ کر ختم بھی کردیتی ہے کہ یہ مسلم پرسنل لا کا حصہ نہیں ہے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی تین طلاق مسلم پرسنل لا کا حصہ نہیں ہے؟ اور یہ صرف عقیدت اور روایت سے مربوط ہے، اگر جواب اثبات میں ہے تب تو کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں ہے، اور اگر جواب نفی میں ہے تو ماننا پڑے گا کہ عدالت نے تحفظ کے اعتراف کے باوجود مسلم پرسنل لا کے خلاف فیصلہ دیا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے وُکلا عدالت کو یہ باور نہ کراپائے ہوں کہ تین طلاق شریعت کا حصہ ہے، جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم اب تک یہی سمجھتے آئے ہیں، اور یہی پڑھتے لکھتے رہے ہیں کہ تین طلاق؛ تین ہی ہیں اور جب کسی عورت کو تین طلاقیں دی جاتی ہیں تو تین ہی پڑتی ہیں، جس کے بعد وہ عورت اپنے شوہر کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے، چاروں ائمہ مجتہدین میں سے کوئی بھی اس کے ایک ہونے کا قائل نہیں ہیں، اگرچہ اس کو فقہاء نے طلاق بدعت کہا ہے، اس کو گناہ بھی کہا ہے، تین طلاق دینے والے کو ناپسندیدگی کی نظر سے بھی دیکھا گیا ہے بل کہ اس کے لئے تعزیری سزاؤں تک کی تجویز یں بھی فقہ کی کتابوں میں ملتی ہیں، مگر اس کے اثرات اور نفاذ سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے، ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ جس طرح ایک طلاق، دو طلاق شریعت کے احکام کا حصہ ہیں اسی طرح تین طلاق بھی ہیں، اس صورت میں یہ کہنا پڑے گا کہ عدالتِ عالیہ کا فیصلہ دین وشریعت میں کھلی مداخلت ہے، یہ کہنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے کہ عدالت نے مسلم پرسنل لا کو تحفظ فراہم کیا ہے، بلاشبہ معزز ججوں نے تحفظ کی بات ضرور کہی ہے لیکن اپنے فیصلے سے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ مسلم پرسنل لا محفوظ نہیں ہے، کسی بھی وقت عدالتیں اس کو نشانہ بنا سکتی ہیں، اور عدالتوں کی ہدایت پر یا از خود حکومت تحفظ کے اس دائرے کو نقصان پہنچا سکتی ہے، عدالت عالیہ نے طلاق ثلاثہ کو مسلم خواتین کے حق مساوات کی خلاف ورزی بتلایا ہے، وزیر اعظم بھی کہہ رہے ہیں کہ اس فیصلے سے مسلم خواتین کو برابری کا حق حاصل ہوگا، یہ حق مساوات اتنا محدود نہیں ہے کہ اسے تین طلاق میں محصور کردیا جائے، ایک طلاق اور دو طلاق کا حق بھی اسلام میں مردوں کو حاصل ہے، اس صورت میں کیا عدالتیں اور حکومتیں مسلم مردوں کو ان کے حق سے محروم کرکے عورتوں کو ان کے برابر لاکر کھڑا کریں گی؟ یہ سوال بڑا ہم ہے۔
یہ کہنا سادہ لوحی سے زیادہ کچھ نہیں کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد حکومت مسلم پرسنل لا کے خلاف قانون سازی نہیں کرسکتی، بنیادی حقوق مطلق نہیں ہیں چناں چہ عوامی مفادات کے تحفظ کی خاطر ان پر مناسب پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں، ۱۹۷۳ء میں کیشوانند بھارتی بمقابلہ کیرالا حکومت کے معاملے میں عدالت عظمی نے ۱۹۶۷ء کے اپنے سابقہ فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بنیادی حقوق میں ترمیم کی جاسکتی ہے، اگر اس طرح کی کسی ترمیم سے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو عدالتی نظر ثانی کے تحت پارلیمنٹ کے ہر ایوان میں دوتہائی اکثریت سے منظور آئینی ترمیم کے ذریعہ بنیادی حقوق میں اضافہ یا حذف کیا جاسکتا ہے یا نظر ثانی کی جاسکتی ہے، ہنگامی صورت حال نافذ ہونے کی صورت میں دفعہ ۲۰ اور ۲۱ کو چھوڑ کر دیگر بنیادی حقوق میں سے کسی کو بھی صدر جمہوریہ کے حکم سے عارضی طور پر معطل کیا جاسکتا ہے۔ نیز ایمرجنسی کے دوران میں صدر جمہوریہ کے حکم سے آئینی چارہ جوئی کے حقوق کو بھی معطل کیا جاسکتا ہے، نتیجتاً دفعہ ۲۰ اور ۲۱ کے سوا کسی بھی بنیادی حق کے نفاذ کے لیے شہریوں کی عدالت عظمیٰ میں جانے پر پابندی عائد ہوجاتی ہے۔
اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہماری تمام تنظیموں اور اداروں نے موجودہ صورت حال میں بھی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ساتھ دینے کی بات کہی ہے، ۱۰/ستمبر ۲۰۱۷ء میں بھوپال میں بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہونے والا ہے، اس میں فیصلے کے مندرجات اور مضمرات پر غور کیا جائے گا، اور آئندہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا، ہمیں امید ہے کہ بورڈ حقیقت پسندی سے کام لے گا، اور اس وقت پوری ملت جس مایوسی میں مبتلا ہوئی ہے اسے اس مایوسی سے نکالنے کی کوشش کرے گا، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فیصلہ آنے کے فوراً بعد اگرچہ اس پر اطمینان ومسرت کا اظہار کیا تھا لیکن شام ہوتے ہوتے ان کا جو بیان آیا اس نے ملت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے، اور یہ واحد بیان ہے جس نے مایوسی کے اندھیروں امیدوں کے دیئے روشن کئے ہیں، مولانا نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے شریعت کے خلاف قرار دیا ہے، اور مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ہرگز مایوس نہ ہوں اور صبر کے ساتھ رہیں، اسلام کو اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کریں، مولانا نے کہا ہے کہ یہ معاملہ صرف تین طلاق کا نہیں ہے بل کہ یہ یکساں سول کوڈ تھوپنے کے ایجنڈے کا ایک حصہ ہے، آنے والا وقت مسلمانوں کے لئے اور بھی مسائل کو جنم دے سکتا ہے جس کے لئے انہیں ذہنی طور پر تیار رہنے کی ضرورت ہے، مولانا نے کہا ہے کہ فیصلے کا سنجیدگی سے تجزیہ اور مطالعہ کرنے کے بعد آئندہ کے لئے کوئی حکمت عمل تیار کی جائے گی، قانونی ماہرین سے صلاح ومشورہ کے بعد فیصلے کے خلاف اپیل کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا، ہم مولانا کے بیان کی حرف بہ حرف تائید کرتے ہیں کہ انھوں نے ملت کے آ زردہ دلوں کی ترجمانی کا حق ادا کردیا ہے اور اعتراف کرتے ہیں کہ مولانا ارشد مدنی وہ واحد ملّی قائد ہیں جنھوں نے عدالتی فیصلے کو حقیقت پسندی کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں