نئی دہلی(ملت ٹائمزپریس ریلیز)
۴۲ اگست۷۱۰۲ءکو عدالت عالیہ کے نو فاضل ججوں نے حق رازداری پر ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے اسے ملک کے تمام شہریوں کا بنیادی حق قرار دیا۔ عدالت نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ آئینی حقوق کی ضمانت اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ انہیں اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ اس معنی میں یہ فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں اس اصول کو اعتبار بخشا گیا ہے کہ ”اکثریت کا تصور“آئینی حقوق پر منطبق نہیں ہوتا۔ یہ فیصلہ قانون ساز اداروں میں موجود اکثریتوں کے بر خلاف بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے حکومتی اختیارات کی تخفیف کی جانب پیش قدمی کے مترادف ہے۔ یہ فیصلہ نتیجتاً حکومت کی منصوبہ سازی، قانون سازی کے عمل اور انتظامی امور پر نگرانی کی صورت فراہم کرے گا اور ان چیزوں کو قابو میں رکھے گا۔
مذہبی امور اور ہماری زندگی کے وہ پہلو جن کا تعلق مذہب سے بھی ہے، جیسے ہماری عبادت کے طریقے، کھانا پینا، شادی بیاہ، اور بچے کی پیدائش اور اموات سے متعلق رسوم و اعمال، یہ اہم ترین نجی امور میں شامل ہیں۔ عدالت عالیہ نے کسی انسان کے گھر، اس کی شخصیت، اور اس کی نجی زندگی کو حکومت کی رسائی سے بالا تر رکھ کر انسان کی زندگی کے ان پہلوﺅں کو بھی حکومت کے متعصبانہ اور جانبدار رویوں کی پہنچ سے بالا تر کر دیا ہے جن کا تعلق مذہب سے ہے۔ واضح رہے کہ یہ فیصلہ ۲۲ اگست ۷۱۰۲ءکو فاضل ججوں کی ایک پانچ رکنی بنچ کے ذریعے ”طلاق ثلاثہ“ کے مقدمے میں بیان کردہ قانون کے ساتھ مل کر، جس میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ آئین کی دفعہ ۵۲ میں موجود مذہبی آزادی کا مطلب مطلقا مذہبی امور ہیں، ان امور کو ہندوستان جیسے سیکولر اسٹیٹ میں تحفظ فراہم کرتا ہے۔
یہ فیصلہ بالعموم ملک کے تمام شہریوں کے علاوہ خصوصی طور پر اقلیتوں، درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور ان گروہوں کے لیے معاون ثابت ہوگا جنہیں اکثر و بیشتر اکثریتی نظریات پر مبنی عاملہ اور قانون ساز اداروں کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔