مولانا ندیم الواجدی
اس کرہئ ارض پر جو انسانوں کا مسکن ہے قدرتی آفات ومصائب کی آمد کا سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب سے یہ کرہ وجود میں آیا، کبھی زلزلے اس کے لیے تباہی کا سامان لے کر آتے ہیں، کبھی طوفان بادوباراں کی وجہ سے اس کے مکینوں کو جان ومال کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، کبھی سیلاب کی وجہ سے آبادیاں ڈوب جاتی ہیں کبھی خشک سالی کے باعث لوگوں کو آٹھ آٹھ آنسو رونے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، ان قدرتی آفات وحوادث کے ظاہری اسباب پرہماری نظر رہتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ زمین کے نیچے پلیٹوں کے سرکنے اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے سے زلزلے آ تے ہیں، ہوائیں طوفان بن جائیں تو تباہی مچادیتی ہیں، بارش کی زیادتی سے سیلاب کی صورت حال پیدا ہوتی ہے، اور اس کی قلت سے کھیتیاں خشک اور زمینیں ویران وبنجر ہوجاتی ہیں، یہ حوادث کے ظاہری اسباب ہیں، لیکن ان کا ایک حقیقی سبب بھی ہے جس کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے۔
”خشکی اور تری ہر جگہ لوگوں کے اعمال کے نتیجے میں فساد چھا گیا ہے تاکہ اللہ ان کے بعض کرتوتوں کا مزہ چکھائے شاید وہ رجوع کرلیں“(الروم: ۱۴)۔
اسی مضمون کو دوسری جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ”تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے ہے اور بہت سے گناہوں کو تو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے“ (الشوریٰ: ۰۳)۔
ان دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مصائب اور آفات تم پرآتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمہارے گناہ ہوتے ہیں، اسی لیے بعض علماء نے فرمایا کہ جو انسان کوئی گناہ کرتا ہے وہ ساری دنیا کے چرند پرند اور حیوانات پر ظلم کرتا ہے کیوں کہ اس کے گناہوں کے وبال سے جو بارش کی زیادتی وکمی ہوتی ہے دوسرے مصائب دنیا میں آتے ہیں اس سے سب ہی جان دار متأثر ہوتے ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ اس دنیا میں خیر وشر،مصیبت وراحت اورمشقت وسہولت کے اسباب دو طرح کے ہیں، ایک ظاہری،دوسرے باطنی، ظاہری اسباب تو وہی مادی اسباب ہیں جو عام دنیا کی نظر میں اسباب سمجھے جاتے ہیں اور باطنی اسباب انسانی اعمال ہیں،جیسے اعمال ہوں گے اسی طرح کے ثمرات و نتائج مرتب ہوں گے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا معاملہ فرمائے۔ ان دنوں ہمارے ملک کی ریاست بہار میں اس قدر خطرناک اور زبردست سیلاب آیا ہوا ہے کہ اس نے ہزاروں مربع میل علاقے کو جل تھل کردیا ہے، لگ بھگ ڈیڑھ کڑور افراد اس سے متأثر ہیں، بہت سے گاؤں تباہ وبرباد ہوگئے ہیں، ہزاروں مویشی ہلاک ہوچکے ہیں، کتنی انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں اس کا اندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکا، ان تباہ حال انسانوں میں بوڑھے خواتین اور معصوم وشیر خوار بچے بھی شامل ہیں جو زندگی اور موت کے درمیان معلق ہیں،نہ ان کے پاس پینے کے لیے پانی ہے اور نہ کھانے کے لیے غذا ہے، حکومت بہار نے ایسے افراد کی تعداد پانچ لاکھ بتلائی ہے جنہیں غذا یا صاف پانی میسر نہیں ہے بھاری بارش کی وجہ سے امداد کا کام ٹھپ ہے، تیس اضلاع کے ہزاروں گاؤں اس سیلاب سے بری طرح متأثر ہیں، ان میں سے بعض اضلاع میں صورت حال نہایت تشویش ناک ہے۔
ان حالات میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آئیں، اور اسے اپنا دینی اور انسانی فریضہ سمجھیں، مدد کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا، مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، مال دار ہو یا غریب اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اور نہایت آہ وزاری کے ساتھ اپنے مجبور وبے کس اور پریشان حال بھائیوں کے لیے دُعا کرے، یہ وہ مدد ہے جو ہم میں سے ہر شخص بہ سہولت کرسکتا ہے، اس میں نہ کسی قسم کی جسمانی مشقت ہے اورنہ مالی بوجھ، دوسری مدد جس کے وہ اس وقت بھی سخت محتاج ہیں اور جب بارش کی قہر سامانی ختم ہوجائے گی اور پانی اتر جائے گا اس وقت بھی محتاج ہوں گے، بلکہ اس وقت زیادہ محتاج ہوں گے جب یہ تباہ حال اورمصیبت زدہ لوگ اپنے ٹھکانوں کی طرف واپس پہنچیں گے تو انہیں نہ ان کے مکانات صحیح حالت میں ملیں گے، نہ گھر کا سامان ہاتھ آئے گا، نہ جانور زندہ سلامت ملیں گے، کاروبار ختم ہوچکے ہوں گے، کھیتیاں برباد ہوچکی ہوں گی اور لوگ زندگی کے لق ودق صحرا میں بے یارو مدد گار کھڑے ہوں گے، ایسے حالات میں آپ کی مالی مدد ان کو بڑا حوصلہ دے گی، آپ کی تھوڑی سی مشفقانہ توجہ ان کے لیے گھنی دھوپ میں شجر سایہ دار بن جائے گی، جس کے سہارے وہ زندگی کا باقی ماندہ سفر پورا کرسکیں گے۔
ہمیں ہر وقت یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہم ایسے دین کے ماننے والے ہیں جو سراپا رحمت ہے، اس کی تعلیمات میں بہ طور خاص ان لوگوں کا خیال رکھا گیا ہے جو زندگی کا سفر طے کرنے میں کسی مدد اور دست گیری کے محتاج ہیں، وہ اپنے ماننے والوں کو ہدایت دیتا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں، معاشرے کے کم زور اور مجبور افراد کے ساتھ تعاون کریں اور انہیں خوش گوار زندگی کے راستے پر قدم بڑھانے کے لیے حوصلہ دیں۔
اس وقت بہار کے سیلاب زدگان ہماری طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں، ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انہیں مایوس نہ کریں، وہ ٹوٹ چکے ہیں بکھر چکے ہیں ان کے ساتھ بلا تفریق مذہب وملت رحم وکرم کا معاملہ کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے عمل سے یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام دین رحمت ورأفت ہے، اس کے علاوہ کسی بھی مذہب میں انسانیت نوازی کا اور انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کا وہ تصور نہیں ملتا جو اسلام میں پایا جاتا ہے، اسلام نے عمومی جذبہئ تر حم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اسے ایمان کامل کا مظہر قرار دیا ہے، ایک حدیث میں ہے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تم اس وقت تک مومن کہلانے کے مستحق نہیں ہو جب تک رحم نہ کرو، صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم سب رحم دل ہیں، فرمایا وہ رحم مراد نہیں ہے جو تم اپنے رفیق کے ساتھ کرتے ہو بلکہ عمومی رحمت مراد ہے“۔(صحیح الترغیب والترہیب: ۲/۲۷۲، رقم الحدیث: ۳۵۲۲)
ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں لاحتی یرحم العامۃ(مسند عبد ابن حمید: ۴/۹۷، رقم الحدیث: ۸۵۴۱) نہیں رحم دل وہ ہے جو عام مخلوق پر رحم کرے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اس عمومی رحمت پر زور دیا ہے، ایک مرتبہ ارشا د فرمایا: من لا یرحم الناس لایرحم اللّٰہ (البخاری: ۵/ ۵۳۲۲، رقم الحدیث: ۱۵۶۵)”جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا،“ ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
”جو زمین والوں پر رحم نہیں کرتا آسمان والا اس پر رحم نہیں کرتا“(المعجم الکبیر الطبرانی: ۲/ ۵۵۳ رقم الحدیث: ۷۹۴۲)۔ یہ بات ان لفظوں میں بھی بیان فرمائی گئی ہے ”زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا“(ابو داؤد:۲/ ۳۰۷ رقم الحدیث: ۱۴۹۴)۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ہر دل میں جذبہئ ترحم دیکھنا چاہتا ہے تاکہ دنیا امن وسلامتی اور خوش حالی سے بھر جائے،اگر دل اس جذبے سے خالی ہوں گے تو کوئی کسی پریشان حال کی مدد کو نہیں آ ئے گا، کوئی کسی کی غم خواری نہیں کرے گا، ہر شخص اپنی کھال میں مست رہے گا، خواہ اس کے پڑوس میں کوئی بچہ بھوک سے تڑپ رہا ہو، یا کوئی مریض شدت مرض کی تاب نہ لا کر دم توڑ رہا ہو، اسلام ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے جس میں مساوات اور برابری کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے ہوں، وہ ہر شخص سے یہ مطالبہ کرتا ہے۔ ”تم دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرو جیسا کہ اللہ نے تمہارے ساتھ حسن سلو ک کیا ہے“(القصص: ۷۷)۔
اس جذبہئ ترحم اور رحمت عامہ کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ان مصیبتوں زدہ بھائیوں کی طرف دست تعاون دراز کریں جو سیلاب میں اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں، اور اس تعاون کی سب سے مؤثر اور مفید شکل وہ ہے جسے اسلام میں صدقہ وخیرات سے تعبیر کیا جاتا ہے، قرآن وحدیث میں جگہ جگہ اس عملِ خیر کی تاکید کی گئی ہے کیوں کہ یہ وہ واحد ذریعہ ہے جس سے انسانی معاشرہ مربوط ومستحکم رہ سکتا ہے، اگر ہم ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے تو جو لوگ مدد کے محتاج ہیں وہ معاشرے میں اپنا وجود کھو دیں گے، اسی لیے اسلام نے سماج کے مجبوروں، لاچاروں، مسکینوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد اور اعانت کرنے کی بار بار تاکید کی ہے، قرآن کریم میں پکے سچے مومن کا ایک وصف یہ بتلا یا گیا ہے:
”اور اپنے لیے کھانے کی ضرورت کے باوجود مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلادیتے ہیں“ (الدہر: ۸)۔قرآن کریم میں جہاں صحابہئ کرامؓ کی مثالی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے وہاں ان کا یہ امتیازی وصف بھی بیان کیا گیا ہے:
”اوراپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود ہی ضرورت مند کیوں نہ ہوں“(الحشر: ۹)۔
ضرورت مندوں کی مدد انسانیت نوازی کی کی اعلا مثال ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہوسکتی کہ اللہ کے ان بندوں کی دل کھول کر مدد کی جائے جو اپنا تمام سرمایہئ حیات لٹاکر کاروان زندگی سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں، ان لوگوں کی جو بھی مدد ہوگی وہ مال ضائع نہیں ہوگا بلکہ دو گنا چوگنا ہوکر ملے گا۔ قرآن کریم میں صدقہ وخیرات کی مثال اس دانے سے دی گئی ہے جو ایک کسان اپنی زمین میں ڈالتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دانہ زمین کا سینہ چیر کر پودا بن جاتا ہے اور اس میں اسی طرح کے سینکڑوں دانے نکل آتے ہیں۔
nadimulwajidi@gmail.com