بیجنگ/نئی دہلی(ملت ٹائمز)
برکس اجلاس اختتام پر آج وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے صدر شی جنپنگ سے خصوصی ملاقات کی ،ٹائمز آف انڈیا کی رپوٹ کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جنپنگ نے اتفاق کیا ہے کہ دونوں ممالک اعتماد سازی میں بہتری اور سرحدی علاقوں میں قیام امن کی خاطر پہلے سے زیادہ کوشش کریں گے اور اس پر توجہ دیں گے ۔
سیکرٹری برائے امور خارجہ ایس جے شنکر نے صحافیوں سے کہا کہ دونوں رہنما سمجھتے ہیں کہ اسی صورت میں چین اور ہندوستان کے مابین مضبوط اور مثبت تعلقات ممکن ہو سکیں گے،جے شنکر کے مطابق برکس سمٹ کے موقع پر مودی اور شی کی ملاقات ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک چلی، جس میں دونوں رہنماو¿ں نے مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے تعمیری گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادت کو احساس ہے کہ باہمی تعلقات میں بہتری ہندوستان اور چین کے مفادات میں بہتر ہے۔
گزشتہ ماہ ہی چین کے فوج ہٹانے کے بعد ہندوستان نے سرحدی علاقے ڈوکلام سے اپنی افواج کے انخلاءکا اعلان کیا تھااور یہ ہندوستان کی بہت بڑی سفارتی جیت مانی گئی تھی ، قبل ازیں دو مہینے سے دونوں ممالک کی افواج ڈوکلام کے علاقے میں آمنے سامنے تھیں، جس کے نتیجے میں کشیدگی میں اضافہ ہو اتھا اور آئے دن جنگ کا خطرہ منڈلا رہاتھا۔
عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
چین کی سرکاری نیوز ایجنسی سنہوا نے بتایا ہے کہ صدر شی جن پنگ کے مودی سے کہا ہے کہ ہندوستان اور چین کو صحت مند اور مستحکم تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ شی نے مزید کہا کہ بیجنگ حکومت باہمی احترام کے ساتھ نئی دہلی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی خاطر تیار ہے۔
دونوں ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ ہندوستان اور چینی دفاعی اور سکیورٹی اہلکاروں کو رابطہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کوئی غلطی فہمی کی گنجائش نہ رہے۔مودی اور شی کے مابین چین کے ساحلی شہر شیامن میں ہونے والی اس ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ برکس سمٹ کے اعلامیے کے مطابق تمام ممالک دہشت گردی کے سدباب کے لیے تعاون بڑھانے پر متفق ہو گئے ہیں۔تاہم تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ اس پورے معاملے میں گرمجوشی نظر نہیں آئی اور ایسا نظر آرہاہے کہ دونوں ممالک کے درمیان رکے ہوئے تنازعات پھر شر وع ہوسکتے ہیں۔