ملت ٹائمز ڈیسک
سعودی عرب کو پوری دنیا میں تقدس اور نمایاں مقام حاصل ہے ۔ عرب سمیت پوری دنیا کے بالکل بیچوبیچ میں واقع عالم اسلام کی مذہبی راجدھانی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی برتری ابتدائے آفرنیش سے ہی پوری دنیا پر ثابت ہے۔مکہ مکرمہ کے عظمت و رفعت کی تاریخ اسی دن شروع ہوجاتی ہے جب پروردگار عالم نے فرشتوں کو عرش کے بالکل نیچے بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ پھر یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پڑے اور دونوں باپ بیٹے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو پرودگار عالم نے اپنے گھر کی تعمیر کا شرف بخشا ۔شہر مکہ کی از سر نوتشکیل ہوئی اور بے آب وگیا ہونے کے باوجود بھی اللہ تبار ک وتعالی نے اش شہر میں دنیا کی ہر عمدہ شی کو پہونچانے کا وعدہ کیا۔ مرورزمانہ کے بعد کعبہ کے نگرانی کا شرف حاصل کرنے والے خاندان قریش کے گھر انے میں آخری نبی محسن انسانیت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اور کعبہ کی عظمت ورفعت کی ایک نئی تاریخ رقم ہونی شروع ہوئی ۔ دنیا کو ظلم وجور سے نجات ملی ، انسانی اقدار کی ایک روشن روایت قائم ہوئی۔کفار مکہ کے شدید مظالم سے تنگ آکر محسن انسایت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جاکر اسلامی ریاست کی بنیادڈالی ، سن 8 ہجری میںمکہ فتح کرکے اپنے جانی دشمنوں کو عام معافی کا پروانہ دیا ، کعبہ میں نصب 360 بتوں کو زمین بوس کرکے اس خداخانہ کو شرک و کفرسے مکمل طور پر پاک وصاف کیا ، مکہ سے گذرتا ہوا اسلامی ریاست کا قافلہ یمن ، شام ایران اور عراق تک پہچ گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ، تابعین اور خلفاءنے اسلامی ریاست کا رقبہ عرب کی سرحد سے تجاوز کرکے افریقہ کے جنگلات ، اندلس اور ہندوستان تک پہچادیا ۔
اسلامی خلافت مختلف حودادثات و اقعات سے گذرتی رہی ہے۔ تاریخ میں وہ سنہرے واقعات بھی روشن حروف میں درج ہیں جب پوری دنیا پر عالم اسلام کا رعب و دبدبہ طار ی تھا۔ دنیا کے آدھے سے زائد رقبے پر مسلمانوں کی حکومت تھی اور کبھی تاریخ کا وہ بد نصیب لمحہ بھی آیا جب عالم اسلام ہر چہار جانب سے دشمنوں کے نرغہ میںتھا۔عالم اسلام کی افسوسناک تاریخ کی فہرست میں سعوری عرب کے وہ ایام بھی درج ہیں جب وہاں وافراتفری کا عالم تھا ،کوئی بھی حکومت عرب کو استحکام بخشنے میں ناکام تھی ۔ ایسی مشکل گھڑی میںشاہ عبد العزیز بن آل سعود نے براعظم ایشیاءیورپ اور افریقہ کے سنگم پر واقع ہزاروں مربع میل پر پھیلی ہوئے اس سرزمین میں ایک جدید مثالی مملکت کی بنیاد ڈالی، جس کی تعمیر قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کر کے کی گئی۔ ملک کو استحکام ،خوشحالی،تحفظ، امن و امان کا گہوارہ بنا کر پائیدار مسلم معاشرہ کے طور پر اقوام عالم میں عزت و وقار سے روشناس کرایا گیا۔
20مئی 1927 کو معاہدہ جد ہ کے تحت برطانےہ نے مملکت حجازو نجد پر مشتمل خطے مےں شاہ عبد العزےز ابن آل سعود کی حکومت کو تسلےم کر لےا۔ 1932 مےں شاہ عبد العزیز نے مملکت حجازونجد کا نام تبدےل کرکے مملکت سعودی عرب رکھ دیااور تقریبا بیس سالوں تک اس کی ترقی کے لئے شب روز محنت کرتے رہے۔ مارچ 1938ءمےں تےل کے ذخائر درےافت ہونے کے بعد وہاں زبر دست معاشی انقلاب برپا ہو گےا ۔ان کے بعد شاہ سعود ،شاہ فیصل،شاہ خالد، شاہ فہد،شاہ عبداللہ نے سعودی عرب اور امت مسلمہ کے لئے تاریخ ساز کارنامہ انجادیا۔ اب شاہ سلمان اپنے آبادو اجداد کی روشن تاریخ پر گامزن ہوکر حرمین شریفین کی پاسبانی ، مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور عالم اسلام کی قیادت کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں ۔گذشتہ دنوں حرم شریف میں کرین گرنے سے ہوئے افسوسناک حادثہ کے بعد شاہ سلمان نے جو اقدامات کئے ہیں اس نے انہیں دنیا بھر میں ایک نئی مقبولیت عطاکردی ہے ۔ ویسے تو شاہ سلمان کو اول دن سے ہی خصوصی مقبولیت حاصل ہے اور امریکی صدر باراک اوبامہ کو تنہا چھوڑ کر اپنے تمام احباب کے ساتھ عصر کی نماز کے لئے مسجدمیں جانے والی ویڈیو نے انہیں ایک نئی شناخت عطا کرد ی تھی۔ اب حادثہ سے متاثرہ لوگوں کے لئے دس لاکھ سعودی ریا ل دینے اور 2016 میں سعودی شاہی مہمان کی حیثیت سے حج کرانے جیسے انہوں نے جو اقدامات کئے ہیں اس سے پوری دنیا سکتے میں آگئی ہے ۔ حکومتی تاریخ میں آج تک کسی ملک نے متاثرین کو ا تنا بڑا معاوضہ نہیں دیا ہے ۔
سعوی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز کا ایک اور بڑاکارنامہ شامی مہاجرین کو پنا ہ دینے کا ہے ۔ دنیا بھر کی میڈیا نے ان دنوں یہ ہنگامہ بپا کررکھا ہے کہ شامی مہاجرین کو پناہ دینے میں یورپ سرفہرست ہے وہیں عرب ممالک اپنے پڑوسیوں کو امان او ر تحفظ فراہم کرنے کے بجائے آرام و آسائش میں مبتلا ہیں۔ ایلان کردی کی تصویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرکے یورپ نے عرب ممالک کی منفی تصاویر اور اپنی مثبت شبیہ بنانے کی مہم چھیڑ کر اس سلسلے میں نمایا ں کرادا ر اداکیاہے ۔ وہیں حقائق سے ناآشنا بر صغیر ہند وپاک کچھ صحافی اور تجزیہ نگار حضرات بھی سعودی عرب پراس لئے لعن طعن کررہے ہیں کہ سعودی حکومت انہیں اپنے یہاں پنا ہ نہیں دے رہی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ تقریبا 25 لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں ۔ سعودی عرب میں شامی مہاجرین کے پناہ لینے کا معاملہ2012 سے ہی جاری ہے جسے مخفی رکھا گیا تھا لیکن جب میڈیا نے بدنام کرنا شرو ع کیا تو مجبور ہوکر سعودی حکومت کو ایک پورٹ پیش کرکے اپنا یہ راز فاش کرنا پڑا۔سعوی سرکاری رپورٹ کے مطابق مملکت سعودیہ میں پچیس لاکھ سے زائد شامی پناہ گزین ہیں اور ان کے ساتھ مہاجرین جیساسلوک نہیں بلکہ اپنے شہری جیسارویہ اپنایاجاتا ہے۔رہائش ، تعلیم اور دیگر تمام سہولیات انہیں حاصل ہیں۔
حرمین شریفین کی توسیع ہو یا فلسطین کا معاملہ، دنیا بھر میں قدرتی آفات ہوں یا جنگوں سے تباہ حال مسلمانوں کی مدد ، خارجہ پالیسی ہو،روس کے خلاف جہاد ہو یا شام کا مسئلہ آل سعود نے ہمیشہ قابل ستائش کردار کیا ہے۔سعودی عرب نے ہمےشہ ان تحریکوں کی اخلاقی و سےاسی حماےت کی ہے جو صیہونیت کمیونزم اور استعمار کے خلاف سرگرم عمل رہی ہے ۔ایک سرکاری سعودی رپورٹ کے مطابق مقدس مقامات کی توسیع پر70 ارب ریال سے زیادہ خرچ کئے جا چکے ہیں۔ تعلیم پر سعودی حکومت کی خصوصی توجہ ہے، اپنے بجٹ کا 25 فیصد تعلیم پر خرچ کررہی ہے صرف پرائمری اور تحقیق کے شعبے میں 13سے71بلین ڈالرز خرچ کئے جارہے ہیں۔
سعودی عرب کا شمار دنیا کی دس بڑی اور مضبوط معیشتوں میں ہوتا ہے ۔دنیا کے 25 فیصد تیل کا ذخیرہ وہاںپایا جاتا ہے۔ ہرنازک موڑ پرعالم اسلام اور مسلمانوں کی سعودی عرب مدد کرتا ہے۔ سعودی عرب کے 87 ویں قومی دن پر ہم دل کی گہرایﺅں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اپنی اس نیک خواہش کا اظہا رکرتے ہیں کہ سعودی عرب یونہی امت مسلمہ کی قیادت و رہنمائی حق ادا کرتا رہے ۔ عالم اسلام کی پاسبانی کے منصب پر فائز رہے ، حرمین شرفین کی خدمت اور اس کی حفاظت کے تئیں اپنے فرائض انجا م دیتا رہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ کا سایہ عاطفت تادیر ہم پر قائم رہے۔(آمین یا رب العالمین)