مولانا ندیم الواجدی
گذشتہ ہفتے کے کالم میں ہم نے طلاق ثلاثہ پر عدالتی فیصلے کا جائزہ لیا تھا اور ان اسباب کا بھی ذکر کیا تھا جن کی وجہ سے ہم یہ تاریخی مقدمہ ہار گئے ہیں، ہماری دوٹوک رائے یہ ہے کہ ہم یہ مقدمہ صرف اور صرف اس لیے ہارے ہیں کہ بورڈ کے وکیل نے طلاق ثلاثہ پر شریعت کا موقف صحیح طورپر نہیں رکھا، ویسے تو مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ نے دس ماہرین شریعت اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی ہے جو اس فیصلے کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لے گی اور مستقبل کا لائحۂ عمل بھی طے کرے گی، امید ہے کمیٹی نے اپنا کام شروع کردیا ہوگا اور امروز وفردا میں اس کی رپورٹ بھی تیار ہوجائے گی، عین ممکن ہے عدالتی فیصلے کا جائزہ لینے کے بعد وہ لوگ بھی اسی نتیجے پر پہنچیں جس پر ہم پہنچے ہیں، ہمارا کالم پڑھنے کے بعد بعض دوستوں نے یہ سوال کیا ہے کہ اب مسلم پرسنل لا بورڈ کو کیا کرنا چاہئے؟حقیقت تو یہ ہے کہ بورڈ میں ایک سے ایک بڑھ کر ارباب فضل وکمال موجود ہیں، ان کی موجودگی میں کچھ مشورہ دینا تو کیا کچھ کہنا بھی چھوٹا منھ بڑی بات ہے، اس موضوع پر ہم نے اپنے کالموں میں جوکچھ لکھا یا جو کچھ لکھ رہے ہیں اس کو اس نظریئے سے نہ دیکھا جائے کہ وہ کوئی رائے مشورہ یا تنقید وتبصرہ ہے بلکہ وہ محض اپنے دردِ دل کا اظہار ہے جس میں ہم اپنے قارئین کو بھی شریک کرلیتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اپنے نتائج اورعواقب کے اعتبار سے دور رس اثرات کا حامل ہوگا، ایک تو اس فیصلے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ اب عدالتیں مسلم پرسنل لا کے صرف اُن حصوں کو قابلِ اعتماد گردانیں گی جو قرآن کریم سے ثابت ہوں گے، کیوں کہ سپریم کورٹ کے معزز ججوں نے طلاقِ ثلاثہ کو اسی لیے کالعدم قرار دیا ہے کہ اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، حدیث کے متعلق اُن کا یہ تبصرہ سامنے آچکا ہے کہ وہ بعد میں مدوّن ہوئی، اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں، اجماع اور قیاس کا ذکر تو عدالت میں آیا ہی نہیں، آتا بھی تو عدالت انھیں شریعت کے مأخذ کی حیثیت سے کب تسلیم کرتی جب کہ اس نے حدیث کو بھی قابلِ اعتماد نہیں سمجھا، دوسری بات یہ ہے کہ عدالت اگر چہ آرٹیکل 25کی شق 2کو تسلیم کرتی ہے اور یہ مانتی ہے کہ مسلم پرسنل لا مذہبی آزادی کے دائرے میں آتا ہے اور مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کا پورا حق ہے، مگر وہ یہ بھی کہتی ہے کہ آزادی کا حق صرف اسی وقت تک ہے جب تک وہ حق دستور میں دئے گئے دوسرے بنیادی حقوق؛ مساوات، انسانی صحت اوراخلاقیات سے متصادم نہ ہو، تنہا مساوات کو اگر لیں تو اس کی زد میں بہت کچھ آسکتا ہے، شریعت کی طرف سے مرد کو طلاق کا جو حق ملا ہوا ہے وہ بھی بہ ظاہر حقِ مساوات کے خلاف ہے، عدالت طلاق کو مساوات کے پیمانے پر رکھ کر مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی یہ حق دے سکتی ہے، تیسری بات یہ ہے کہ عدالت نے حکومت کو قانون سازی کا مشورہ دے کر آئندہ کے لیے بھی پرسنل لا میں مداخلت کے راستے ہموار کردئے ہیں کہ حکومتیں جب چاہیں اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاکر پرانے قوانین منسوخ کردیں اور اُن کی جگہ نئے قوانین بنادیں، اس طرح مسلم پرسنل لا پر عدالت اور حکومت دونوں کی تلواریں مستقل طورپر لٹک گئی ہیں جن سے بچنے کے لیے کوئی مناسب حکمتِ عملی اختیار کرنی ہوگی۔
عدالتی فیصلے کا اثر مسلم معاشرے پر بھی مرتب ہوگا، عام طورپر ہمارے معاشرے میں جو طلاقیں دی جاتی ہیں وہ جہالت اور کم علمی کی وجہ سے عموماً تین سے کم نہیں دی جاتیں، یہ خیال عام ہے کہ طلاق تین ہی ہوتی ہیں، نئی صورتِ حال میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہے تو وہ عدالت کی پابندی سے فائدہ اٹھاکر حسبِ سابق اپنی مطلقہ بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے، کیوں کہ اس نے جو طلاقیں دی ہیں وہ از روئے قانون کالعدم ہیںاس لیے واقع ہی نہیں ہوئیں، قانون کی روسے وہ دونوں میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں، اگرچہ شریعت کی روسے ایک ساتھ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رہ سکتے، صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ غیر شرعی زندگی گزاریں گے اور گناہ میں مبتلا رہیں گے، اگر عورت شریعت کی پابند ہوگی تب بھی قانون کے سامنے مجبور ہوجائے گی کہ وہ اپنے اس نام نہاد ’’شوہر‘‘ کے ساتھ بندھی رہے جس نے اسے تین طلاق کی سولی پر لٹکایا ہے اور جو از روئے شریعت اسے ہمیشہ کے لیے خود سے جدا کرچکا ہے، یہاں یہ صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے کہ شوہر شریعت پر عمل کرنا چاہتا ہے مگر مطلقہ بیوی قانون کا سہارا لے کر اس کے ساتھ چپکی رہنا چاہتی ہے، قانون کے خوف سے وہ اسے بیوی بناکر رکھنے پر مجبور ہوگا اوراس کا نان نفقہ ادا کرتا رہے گا، غرض یہ کہ اس پابندی سے اور آئندہ ہونے والی ممکنہ قانون سازی سے مفاسد کے دروازے پوری طرح کھُلنے جارہے ہیں، یہ دروازے کس طرح بند ہوں گے، اس سوال پر سوچنے کی ضرورت ہے، پھر ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ عدالتِ عالیہ نے بہ یک وقت دی گئیں تین طلاقوں کو کالعدم قرار دیا ہے یا تین مختلف مرحلوں میں دی گئیں تین طلاقوں پر بھی اس حکم کا اطلاق ہوگا، کیوں کہ فیصلے میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے، اس صورت میں تین طلاق کا دروازہ بند ہوچکا ہے خواہ وہ دفعۃً ہوں یا وقفے وقفے سے ہوں۔
اب جب کہ ہم عدالتی فیصلے کے نتائج سے آگاہ ہوچکے ہیں اور مسلم معاشرے پر اس فیصلے سے پڑنے والے ممکنہ اثرات سے بھی ہم بے خبر نہیں رہے ضروری ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دوسری تمام جماعتیں اور تنظیمیں میدانِ عمل میں آئیں اور مسلمانوں کو اس کے بد اثرات سے آگاہ کرنے کے عمل کو اپنے مقاصد کا حصہ بنائیں، مسلمانوں کو یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ طلاق کو اسلام میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، صرف مجبوری کی حالت میں اس کی اجازت دی جاتی ہے، بعض اوقات ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ زوجین میں نباہ مشکل ہوجاتا ہے، اس صورت میں صرف طلاق ہی دونوں کی گلو خلاصی کا ذریعہ ہوتی ہے، مگر شریعت نے طلاق کی اجازت کے ساتھ ساتھ اس کا ایک طریقۂ کار بھی مقرر کردیا ہے، مسلمانوں کو بتلانا ہوگاکہ بہ یک وقت تین طلاقیں دینا شریعت کا طریقہ نہیں ہے، یہ عمل نا پسندیدہ ہے، گناہ ہے، اگرچہ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اور بیوی ہمیشہ کے لیے جُدا ہوجاتی ہے، بدقسمتی سے عدالت نے تین طلاق کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور شاید حکومت بھی اسے کالعدم قرار دے دے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تین طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، اورتین طلاق کے بعد بھی دونوں میاں بیوی بنے رہیں گے، شریعت اور عدالت کے فیصلے باہم متضاد ہیں، ایک سچّے پکّے مسلمان کی حیثیت سے ہمیں شریعت کے فیصلے کی پابندی کرنی ہوگی، تین طلاق کو تین سمجھ کر اس نکاح کو ختم سمجھنا ہوگا، عدالت کے فیصلے سے میاں بیوی بن کر رہنے کی جو گنجائش نکلتی ہے اس سے فائدہ اٹھانا نہ مرد کے لیے جائز ہے اور نہ عورت کے لیے، یہ گنجائش ہمارے دین وایمان کے لیے سمّ قاتل ہے، اس سے بچنا ہوگا، قاضی اور نکاح خواں حضرات اس سلسلے میں زیادہ مؤثر کردار کرسکتے ہیں، بوقتِ نکاح انھیں دلہا دلہن کو یہ بتلانا چاہئے کہ اسلام میں نکاح کی کیا اہمیت ہے، اور کیا مقصد ہے، ضرورت اور مجبوری کی صورت میں طلاق کا حق کس کو، کب اور کس طرح استعمال کرنا چاہئے اور تین طلاق سے کیوں گریز کرنا چاہئے۔
جو لوگ تین طلاق دیتے ہیں ان کے سلسلے میں عرصے سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ مسلم سماج اُن کو سزا دے جس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اُن کا بائیکاٹ کیا جائے تاکہ دوسروں کو سبق حاصل ہو اور وہ اس جرأتِ بے جا کا مظاہرہ نہ کرسکیں، سچ بات تو یہ ہے کہ بائیکاٹ کی یہ تجویز بہ ظاہر تو بہت خوش کن معلوم ہوتی ہے اورہم نے اپنے کسی مضمون میں اس کی تحسین بھی کی تھی، مگر در حقیقت وسیع پیمانے پر یہ نا قابلِ عمل بھی ہے، وسیع پیمانے کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ چھوٹے چھوٹے گاؤں اور دیہات ہی میں جہاں برادریوں کی پنچایتیں سرگرم عمل رہتی ہیں وہاں اس تجویز پر عمل کرنا ممکن بھی ہے اور اسی محدود دائرے میں وہ مؤثر بھی ہوسکتی ہے، قصبوں اور شہروں میں اس پر عمل کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، بائیکاٹ کی اس سزا کے مقابلے میں عوامی بیداری کی مہم سے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں، مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس سمت میں کام کرنے کی ضرورت ہے، دوسری تنظیموں کو بھی اس سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے، مدارس اور مساجد کی شکل میں جو وسیع نیٹ ورک موجود ہے اس سے بڑا کام لیا جاسکتا ہے۔
آخری کوشش کے طورپر بورڈ کو اس تجویز کے ساتھ عدالت میں نظر ثانی کی اپیل کرنی چاہئے یا حکومت کو قانون سازی سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ تین طلاق کو تین طلاق رہنے دیا جائے یعنی اس کو منسوخ نہ کیا جائے اور نہ اس کو کسی قانون کے ذریعے کالعدم قرار دیا جائے، البتہ جو لوگ اپنی بیویوں کو تین طلاقیں دیں اس کو جرم سمجھا جائے اوران کو اس جرم کی سزا دی جائے، شریعت میں اس کی گنجائش موجود ہے، جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ خلیفۂ ثانی امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ ایسے شخص کو جو اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا کوڑوں کی سزا دیتے تھے (شرح معانی الآثار: ۲؍ ۳۰، مصنف ابن ابی شیبہ حدیث: ۱۷۸۹)حضرت عمرؓ کے اس طرزِ عمل سے یہ گنجائش نکلتی ہے کہ حاکمِ وقت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کو جرم سمجھے اور اس کے مرتکب کو کوئی مناسب سزا دے، پاکستان میں نافذ قوانین کو اسلامی شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کے ذمہ دار آئینی ادارے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ نے ۲۱ جنوری ۲۰۱۵ء کو ایک وقت میں اکٹھے تین طلاقوں کی حوصلہ شکنی کے لیے اس عمل کو قابلِ سزا جرم قرار دینے کی سفارش کی تھی، اگرچہ کونسل نے قید یا جرمانے کی سزا کا تعین نہیں کیا ہے بلکہ اسے متعلقہ عدالتوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جو چاہیں سزا دیں، مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کی حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل کی اس سفارش پر عمل کیا ہے یا نہیں البتہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تین طلاق ایک جرم ہے اور اس پر سزا دی جاسکتی ہے جو ظاہر ہے حکومت ہی دے سکتی ہے اور و ہی اسے نافذ بھی کرسکتی ہے، رہی یہ بات کہ ہندوستان کے غیر مسلم جج بھی تین طلاق جیسے شرعی معاملات میں سزادینے کے مجاز ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ ہمارے مفتیانِ کرام ہی کرسکتے ہیں۔
nadimulwajidi@gmail.com