شکست کے بعد جرمنی کی سخت گیر جماعت کا رویہ تبدیل ،چندشرطوں کے ساتھ مسلمانوں کو جرمنی میں پناہ دینے کی پیشکش

برلن(ملت ٹائمزایجنسیاں)
اسلام اور پناہ گزینوں کے حوالے سے سخت گیر موقف رکھنے والی جرمنی کی بڑی سیاسی جماعت ”اے ایف ڈی “ کی سابق شریک چیئر پرسن فراو¿کے پیٹری نے کہا ہے کہ مسلمان جرمنی کو اپنا گھر بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں اپنے مذہبی عقائد اور سیاسی مقاصد میں تفریق واضح کرنا ہو گی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسلام اور پناہ گزینوں کے مخالفت کا نعرہ لگا کر جرمنی کے حالیہ انتخابات میں تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرنے والی جماعت ”اے ایف ڈی “ کی سابق شریک چیئر پرسن فراو¿کے پیٹری نے کہا ہے کہ مسلمان جرمنی کو اپنا گھر بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جرمنی میں آباد مسلمانوں کو اپنے مذہب اور سیاست کو الگ ہی رکھنا پڑے گا۔ 42سالہ پیٹری نے واضح کیا کہ اگر مسلم کمیونٹی یہ قبول کرتی ہے کہ مذہب ان کا نجی معاملہ ہے اور مذہب کی بنیاد پر کوئی سیاسی مطالبہ نہیں کیا جائے گا تو مسلمان جرمنی میں خوشی سے آباد ہو سکتے ہیں لیکن ’پولیٹیکل اسلام‘ جرمن معاشرے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے، جرمنی نے لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی ہے، انہیں بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔واضح رہے کہ مہاجرین کے بحران کے بعد یورپ اور بالخصوص جرمنی میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں جرمنی میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ شدت پسندانہ سوچ کو کس طرح تبدیل کیا جائے؟ اس صورتحال میں دائیں بازو کے کٹر نظریات کی حامل سیاسی پارٹیوں نے اسلام اور مہاجرت مخالف بیانیہ استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے ووٹ بینک کو بڑھایا ہے۔ سن دو ہزار پندرہ کے اعدادوشمار کے مطابق جرمنی کی 82.3 ملین مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 4.5 ملین ہے۔ چوبیس ستمبر کے جرمن الیکشن میں بھی آلٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) نے اس نعرے کے ساتھ ووٹرز کو کامیاب طریقے سے اپنی طرف راغب کیا۔ یوں سن دو ہزار تیرہ میں معرض وجود میں آنے والی یہ پارٹی پہلی مرتبہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تاہم اس الیکشن میں کامیابی کے فوری بعد ہی فراو¿کے پیٹری نے اس پارٹی کو خیرباد کہہ دیا، اس پیشرفت کو اس پارٹی میں قیادت کی لڑائی کا نتیجہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فراو¿ کے پیٹری اپنے کٹر نظریات کے باوجود اے ایف ڈی کی موجودہ قیادت کے مقابلے میں زیادہ ’روشن خیال اور لبرل‘ قرار دی جا سکتی ہیں۔دوسری طرف کہا جا رہا ہے کہ اے ایف ڈی سے علیحدگی کے بعد پیٹری ایک نئی سیاسی پارٹی کے قیام کے بارے میں پرعزم ہیں اور انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ ان کی سیاسی پارٹی میں دائیں بازو نظریات کے حامل انقلابی قسم کے افراد شامل نہیں ہوں گے اور ان کی نئی تحریک اسرائیل نواز ہو گی