آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمن سجادنعمانی کی ملت ٹائمز کے ساتھ خصوصی بات چیت

مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ہند وستان کے معرو ف عالم دین ہیں،ملک کی نامور تاریخی شخصیت مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ کے آپ فرزند ارجمند ہیں ،مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی کی زیر تربیت آپ کی زندگی کے بیشتر ایام گزرے ہیں،دارالعلوم ندوۃ العلماء اور دارالعلوم دیوبند سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے مدینہ یونیورسیٹی میں داخلہ لیاجہاں سے قرآنی تعلیمات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں،آپ کا شمار پالیسی ساز اور حالات سے باخبر اشخاص میں ہوتاہے ،پرمغز اور موثر کن خطابت کے ساتھ آپ کا قلم بھی انتہائی سلیس اور شگفتہ ہے ، ملک کی معروف اور قدیم اسلامی میگزین ماہنامہ الفرقان پابندی کے ساتھ آپ کی ادارت میں شائع ہورہاہے،روایات سے ہٹ کر آپ کے خیالات میں جدت اور ندرت پائی جاتی ہے ،مدارس کے موجودہ نظام تعلیم سے بھی آپ کلی اتفا ق نہیں رکھتے ہیں،آپ کا نظریہ ہے کہ اگر کسی نظام سے ہمیں اتفاق نہ ہوں تو اس پر تنقید کرنے کے بجائے اس کا متبادل پیش کرنے کی کوشش جائے ،اسی فکر کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دارالعلوم امام ربانی کے نام آپ نے ایک ایسا دارہ شروع کررکھاہے جہاں کا نصاب تعلیم دینی اور عصری دونوں علوم پر مشتمل ہے ،وہاں ایک نصاب بارہویں تک کا ہے جہاں شروع سے دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی ہے ،جبکہ ایک شعبہ فضلاء مدارس کیلئے ہے جہاں مختلف فنون میں انہیں تخصص کرایاجاتاہے،اس کا مقصد ایسے افراد تیار کرناہے جو عصری اسلو ب میں اسلامی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کرسکیں ۔آپ خانقاہ بھی چلاتے ہیں اور حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کے اجل خلفاء میں سے ایک ہیں ۔ دنیا کے متعددممالک کا آپ دورہ کرچکے ہیں ،کئی اہم ترین عالمی مذہبی کانفرنسو میں بطور اسلامی اسکالر ترجمانی کا فریضہ انجام دے چکے ہیں ۔حالیہ دنوں میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ نے آپ کواپنا کل ہند ترجمان مقرر کیا ہے ۔ گذشتہ دنوں ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ،ملک کے موجودہ حالات،نصاب تعلیم او ردیگر اہم ایشوز پر مولانا خلیل لرحمن سجاد نعمانی کا خصوصی انٹرو لیاہے ،ان کے ساتھ ملت ٹائمز کی ایگزیکیٹو کمیٹی کے ارکان حفظ الرحمن قاسمی اور فیصل نذیر بھی شریک تھے ۔انٹر ویو کے اقتباسات پیش ہیں قارئین کی خدمت میں (ادارہ)

سوال : آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام جن مقاصد کے تحت ہواتھا بورڈ اس پر گامزن ہے یا پھر بدلتے زمانے کے ساتھ بورڈ بھی بدل گیا ہے ،بظاہر ایسالگتاہے کہ پہلے جیسا عزم اور حوصلہ اب باقی نہیں رہ گیاہے؟ ۔
جواب:
اپنے مقصد پر تو بورڈ یقینی طور پر قائم ودائم ہے البتہ قیام کے وقت جو شخصیات تھیں وہ قدآور تھیں ان کے جانے کے بعد معیارمیں گرواٹ آئی ہے او ر یہ معاملہ تمام اداروں کا ہے ،یہ زوال ہر جگہ ہے ،یہی کیا کم ہے کہ بورڈ اتنے سارے اختلافات کے باوجود قائم ودائم ہے اور یہ مثبت پہلوہے ۔
سوال :آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا مقصد عائلی مسائل کا تحفظ اور شرعی امور میں حکومت کی مداخلت کو روکناہے لیکن دوسری طرف عدلیہ سے تمام اہم مقدمات میں شکست کا سامناکرناپڑاہے،خواہ متبنی کا مسئلہ ہویا حالیہ دنوں میں پیش آمدہ طلاق کا مسئلہ ،سوال یہ ہے کہ کیا بورڈ کمزور ہوچکاہے ،اپنے مشن میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہے اور مسلمانوں کو عائلی تحفظ فراہم نہیں کرپارہاہے ۔
جواب:
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ک د و مقاصد ہیں ،ایک عائلی مسائل کا تحفظ اور دوسرے اندرونی مسائل سے نمٹنا ،جس وقت بورڈ کا قیام عمل میں آیاتھا تو اس وقت اکا دکا واقعات پیش آتے تھے،بورڈان دنوں کامیابی بھی حاصل کررہاتھا جیسے متبنی کا مسئلہ لے لیجئے اس سلسلے میں باضابطہ پارلیمنٹ میں بل لاکر بورڈ اور امت مسلمہ کے موقف کی تائید کی گئی او رایک بہت بڑی جیت ملی ،نس بندی کے مسئلہ میں بھی بورڈ نے کامیابی حاصل کی اب صورت حال مختلف ہے ،آئے دن عدالتوں سے فیصلے ہورہے ہیں ،فیملی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک سے مسلسل فیصلے آرہے ہیں ،بورڈ ایک وفاقی ادارہ ہے ،اس کی پاس ضلعی سطح پر کوئی تنظیم نہیں ہے اس لئے ہم تمام فیصلوں پر نظر نہیں رکھ پاتے ہیں تاہم بارباریہ اپیل کرتے ہیں کہ ضلعی سطح کے وکلاء اپنی اپنی عدالتوں پر نظر رکھیں اور کوئی ایسا مسئلہ جس سے شریعت پر زد پڑسکتی ہے تو خود تحفظ فراہم کریں اور بورڈ کو بھی مطلع کریں لیکن ایسا بہت کم ہوتاہے کہ بورڈ کو کسی واقعہ کی اطلاع ملی ہو ۔
سوال :
کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ مختلف صوبائی اور لوکل تنظیموں کو اپنے ماتحت کرکے آپ ان سے کام لیں ،جیساکہ دستخطی مہم کو کامیاب بنانے میں ان علاقائی تنظیموں نے نمایاں کردار ادا کیا اور بورڈ کا مکمل طور پر ساتھ دیا ۔
جواب:
یہ سوال بہت اہم ہے لیکن تازہ فیصلہ اصلاح معاشرہ کے شعبہ کو بہت زیادہ متحرک اور طاقتور بنانے کے سلسلے میں لیاگیاہے ،اس کے کنوینر پہلے مولانامحمد ولی رحمانی تھے لیکن اب ان پر کئی طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں اس لئے حالیہ مجلس عاملہ میں ایک معاون سکریٹری کا انتخاب عمل میں آیاہے اور اس کو بڑھانے کی کوشش ہوگی ،جو علاقائی تنظیمیں ہے ان سے مدد لی جائے گی ،اس کو کامیاب ہونے میں وقت لگے گا،اس مشن کے تحت ضلعی عدالتوں کے فیصلے پر بھی نظر رکھی جائے گی ۔
سوال :ابھی آپ نے کہاکہ مولانا ولی رحمانی کے ذمہ کئی سارے کام ہیں ،مختلف عہدوں پر وہ فائز ہیں جس کی وجہ سے کام نہیں ہوپارہاہے ،یہیں سے یہ سوال پیداہوتاہے کہ ہماری ملی تنظیموں میں ایک ہی آدمی کو بہت ساری ذمہ داریاں کیوں سونپ دی جاتی ہے ،ایسا کیوں نہیں ہوتاہے کہ مختلف شخصیات کو الگ الگ ذمہ داریاں دی جائے ؟۔
جواب:
مجھے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں آپ اچھا رجحان سنیں گے ،بورڈ کی جانب سے آپ کو بہتر رویہ ملے گا اور آپ کی یہ شکایت دور ہوجائے گی ۔
سوال :
ایک اور سوال اہم ہے بورڈ کا کوئی بھی ذمہ دار مستقل نہیں ہے مطلب ان کا اپنا ایک مستقل ادارہ ہے ،ان کی تمام ترتوجہ اپنے ادارے کیلئے ہے اور پھر بورڈ کے بھی کلیدی عہدہ پر قابض ہیں،معتبر ذرائع سے یہ خبر ملی ہے کہ بورڈ کو اکثر مالی سطح پر خسارہ کا سامنا کرناپڑتاہے جس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ذمہ داروں کی ادھر توجہ کم ہوتی ہے ۔ایسا کیوں نہیں ہوتاہے کہ بورڈ کا ذمہ دار اسے بنایاجائے جو اپنا مکمل وقت بورڈ کو دے سکے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہ سکتے ہیں وہ پارٹ ٹائم کے بجائے فل ٹائم ہو ۔
جواب :
دراصل معاملہ یہ ہے کہ بورڈ کا ڈھانچہ وفاق کا ہے ،مختلف جماعتوں سے مل کر ایک جماعت بنی ہے ،بذات خود بورڈ کوئی ادار ہ نہیں ہے ا س لئے جو ذمہ داربنتے ہیں ان سے یہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ آپ اپنا ادارہ چھوڑ کر بورڈ پر ہی تمام توجہ مبذول کریں لیکن جو سوال آپ نے اٹھایا ہے وہ بہت اہم ہے اور بورڈ میں اس پر غور وفکر ہورہاہے کہ اس کو کیسے ختم کیا جائے ،امید ہے کہ اس کا حل جلدہی نکل آئے گا اور ایک دوسال میں کوئی فیصلہ سامنے آئے گا ۔
سوال :
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنی طاقت اور اہمیت کا لوہامنواکر راجیوگاندھی سرکار میں آئین کو بدلنے پر مجبور کردیاتھا لیکن عدلیہ سے بورڈ کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں آرہاہے ،80 کی دہائی میں بھی فیصلہ خلاف آیا اور اب بھی خلاف آیاہے ،سوال یہ ہے عدلیہ میں بورڈ کی مسلسل شکست کی وجہ کیا ہے؟ ،ایسا تو نہیں ہے کہ ہماری طرف سے صحیح انداز میں مقدمات کی پیروی نہیں ہوپاتی ہے ۔
جواب:
کہیں نہ کہیں ہمارا بھی قصور ہوتاہے ،ہم عدلیہ میں اپنا موقف عموما صحیح انداز میں ثابت نہیں کرپاتے ہیں ، اور عدلیہ شریعت کے تمام امور کوسمجھنے میں قاصر ہوتی ہیں ۔
سوال: 
گویا مقدمات میں شکست ہونے کیلئے کہیں نہ کہیں بورڈ بھی ذمہ دار ہے اور ہماری کوتاہیوں کا دخل ہے۔
جواب :
نہیں بورڈ ہر گز ذمہ دار نہیں ہے ،در اصل قصور ہمارے تعلیمی نظام کاہے ، پروبلم یہ ہے کہ جدید اسلوب میں اسلام کی خوبیوں کو پیش کرنے اور شریعت کی باریکیوں کو دنیا کے سامنے بیان کرنے میں ہم ناکام ہیں،بدقسمتی سے اچھے اچھے علماء یہ کام نہیں کرپارہے ہیں تو وکلاء سے ہم کیا امید کرسکتے ہیں کہ وہ اسلامی شریعت کی نمائندگی جدیداسلوب میں بہتر طور پر کرپائیں گے ۔کہیں نہ کہیں ایسا ہوتاہوگا کہ وکلاء کی نمائندگی میں کوتاہی رہ جاتی ہو ۔
سوال:
مولانا ! یہ سوال تو اپنی جگہ قائم ہے کہ آخر اس کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ آیا ہمارا تعلیمی نظام جس میں علوم کو کئی حصوں میں تقسیم کردیاگیا ہے ۔ایک طرف صرف مذہبی تعلیم پر انحصارہے ۔ دوسری طرف صرف عصری تعلیم پر انحصار ہے اور دونوں کے درمیان حد فاصل قائم ہے۔
جواب :
یقیناًہمارا تعلیمی نظام ذمہ دار ہے ، ایسے علماء کو تیار کرنے میں ہم ناکام ہیں جو اسلامی تعلیمات کو جدید اسلوب میں پیش کرسکیں،حالیہ دنوں میں ایسی پیش رفت ہوئی ہے ،عصری تعلیم اور انگریزی زبان کیلئے بہت سے ادارے قائم ہوئے ہیں وہ قابل ستائش ہیں ،ا ب ایسے ادارے بھی قائم ہورہے ہیں جہاں عصری اور دینی دونوں تعلیم طلبہ مدارس کو دی جارہی ہے ،یقیناہم پیچھے ہیں لیکن کوشش بہر حال جاری ہے ۔
سوال :
طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں سپریم کورٹ میں ایک فریق بورڈ تھااور ایک فریق جمعیت علماء ہند ،ایساکیوں نہیں ہواکہ دونوں فریق کے وکلاء ایک ساتھ بیٹھتے اور آپس میں طے کرتے کہ بورڈ کے وکلا ء فلاں نکات کو پیش کریں گے اور جمعیۃ کے وکلاء فلاں نکات ،چناں چہ یہی وجہ ہے کہ جمعیۃ کے وکلاء نے بورڈ اور متفقہ موقف کے خلاف وکالت کی جس کی بناپر جج نے انہیں بیٹھادیا ۔
جواب :
مکمل طور پر دونوں فریق کے وکلاء کے درمیان سمجھوتہ ہواتھا،مشترکہ میٹنگ ہوتی تھی جس واقعہ کو نظیر بناکر آپ نے پیش کیا ہے وہ اتفاقی واقعہ تھا۔


سوال :
عدلیہ میں مقدمہ لڑنے کے دوران بورڈ کو سب سے زیادہ پریشانی ترجمہ کی ہوتی ہے ،قرآن کریم ،احادیث اور فقہ کی کتابوں کامعتبر ترجمہ بورڈ کے پاس نہیں ہے اور ایسے میں دشواریوں کا سامنا کرناپڑتاہے ، ججز اسلامی لاء کا مطالعہ جن کتابوں سے کرتے ہیں ان میں اسلامی تعلیمات کی مستند اور صحیح ترجمانی نہیں کی گئی ہے۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی صاحب سے میر ی گذشتہ دنوں ملاقات ہوئی تھی ۔دوران گفتگو انہوں نے بھی ان چیزوں کا شکوہ کیا ۔
جواب :
یہ اہم مسئلہ لیکن اس کیلئے تنہا بورڈ ذمہ دار نہیں ہے ،یہ مستقل ایک گروپ کے کرنے کا کام ہے ،بہتر ہوگا کوئی ادارہ اس کام کوانجام دے ، مکمل طور پر وہ اسی کیلئے وقف ہوجائے ،ہر کام کو بورڈ نہیں کرسکتاہے۔
سوال:
سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکی فتح ہے یا شکست ؟
جواب:
اس سلسلے میں ہم زیادہ کچھ نہیں کہ سکتے ہیں،فیصلے کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے جو تجزیہ کرے گی لیکن اس کو مجموعی طور پرہم جیت بھی نہیں کہ سکتے ہیں ،البتہ یہ ضرور ہے کہ فیصلہ اس سے کہیں زیادہ بدتر اور خراب آسکتاتھا۔
سوال :
اس فیصلے کے تناظر میں عام لوگوں کا مانناہے کہ بورڈ طلاق ثلاثہ کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک اجتہاد پر عمل کرتاہے لیکن دوسرے اجتہاد پر عمل نہیں کرتاہے کہ تین طلاق دینے والوں کو سزا بھی دی جائے ،متعدد دانشواران کا کہناتھاکہ بورڈ کے حلف نامہ میں اگر سزا کا مطالبہ ہوتاتو شایدایسا فیصلہ نہیں آتااور نہ ہی بورڈ کو رسوائی کا سامناکرناپڑتا۔
جواب :
یہ تعبیر سرے سے مہمل ہے کہ ایسا ہوتاتو ایسا فیصلہ آتا،ڈرافت عدلیہ میں تیار ہوتاہے کہنے والوں کے گھر میں نہیں ،بورڈ میں باربار ان چیزوں کا تذکرہ آچکاہے ،یہ امور زیر بحث ہیں ۔جہاں تک بات یہ ہے کہ تین طلاق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ہے تو یہ تعبیر تمام علماء اور ائمہ کے نزدیک غلط ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تین طلاق کے چار واقعات پیش آئے تھے ،چاروں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی ،آپ نے سبھی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا لیکن سب کو واقع قراردیا ۔حضرت عمر کے زمانہ میں ایسا واقعہ پیش آیاتو آپ نے بھی واقع قرراردیااورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کو بنیاد بناکر بطور خلیفہ سزابھی تجویز کی ۔دیکھیئے ذاتی طور پر میری رائے ہے کہ ہم یہ تحریک چلائیں کہ آئی پی میں ترمیم کرکے جو مسلم شوہر ایک وقت میں تین طلاق دیتاہے اس کو سزا دی جائے ،وہ سزا کیا ہوگی علماء فقہاء تجویز کریں گے لیکن اجتماعی غور کرکے فقہاء اور علماء کا اتفاق حاصل کرکے یہ تجویز لائی جائے ،اگر ہم قانون بنانے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے تو بھی یہ مسیج جائے گاکہ ہم علماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ عملی طور پر تین طلاق کے خلاف ہے ،عملی طور پر دقتیں یہ آئے گی کہ جس بیوی کی شوہر سے لڑائی ہوگی وہ شوہر پر الزام لگاکر اسے جیل میں ڈال دے گی اور قانون کا غلط استعمال ہوگا ،مسلم نوجوانوں کو حراست میں لینے کیلئے ایک نیار استہ کھل جائے گا ،بہر حال یہ تفصیلی بحث ہے اور چند ماہ پہلے بورڈ کے سکریٹری مولانا خالدسیف اللہ رحمانی نے ایک سوالنامہ تیار کیاتھا جس میں طے ہواتھاکہ پورے ملک کے تما علماء کو جمع کرکے اس پر مشورہ کیا جائے گا لیکن کسی وجہ سے یہ تجویز اچانک ملتوی ہوگئی ،تاہم یہ معاملہ ابھی بھی زیر بحث ہے ۔
ایک خاص پہلو یہ ہے اور وہ ملت ٹائمز اور دیگر میڈیا اداروں کے ذریعہ پوری دنیا کے سامنے آنا چاہیئے کہ ہم بھی تین طلاق کوروکنا چاہتے ہیں آپ بھی تین طلاق کوروکنا چاہتے ہیں آپ سے گزارش یہ ہے کہ اگر ہم اسلامی طریقہ پر روکیں گے تو مسلم عوام اسے قبول کرے گی لیکن غیراسلامی طریقہ پر مسلمان نہیں روکیں گے اس لئے اگر آپ کا مقصد تین طلاق کو روکناہے تو اسلامی طریقے پر روکئے اور اگر آپ کا مقصد شریعت میں مداخلت ہے ،مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیر ا ہونے سے روکناہے تو پھر بات دوسری ہے ۔
سوال :
مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے سابق ناظم عمومی اور موجودہ امیر مولانااصغر علی امام مہدی سلفی آئی او ایس کے زیر اہتمام طلاق کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ہونے والے ایک مباحثہ میں کہ رہے تھے کہ اگر بورڈ نے اپنے حلف نامہ میں اہل حدیث مسلک کا تذکرہ کیا ہوتاتو عدلیہ کو یہ کہنے کا حق ہوتا کہ ان کے یہاں پہلے سے طریقہ موجود ہے اور شاید فیصلہ ایسا نہیں آتا۔
جواب:بورڈ کے حلف نامہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اہل حدیث مسلک میں ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی واقع ہوتی اور وضاحت کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا گیاہے ۔
سوال :
اہل حدیث مسلک کی نئی نسل کا بورڈ پر یہ اعترا ض ہے کہ یہ حنفی پرسنل لاء ہے ،اہل حدیث مسلک کو خاطر خواہ نمائندگی نہیں دی جاتی ہے ۔
جواب:
ایسا معاملہ نہیں ہے ،مولانا اصغر امام مہدی سلفی بورڈ کے رکن ہیں اور انہوں نے ہمیشہ بورڈ کا ساتھ دیاہے ،فیصلہ آنے کے بعد انہون نے واضح طور پر کہاکہ ہم بورڈ کے ساتھ ہیں ہمار امسلک کچھ بھی ہو۔کیوں کہ یہ چوردروازے سے شریعت میں مداخلت ہے ۔
سوال :
موجودہ دور میں نوجوانوں کو کیا کرنا چاہیئے ۔

ایم پی اسدالدین اویسی عقیدت کے ساتھ مولاناخلیل الرحمن سجاد نعمانی سے ملاقات کرتے ہوئے

جواب:
میرا تومانناہے کہ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو تمام کام چھوڑ کر اسلامی مواد کو انگریزی زبان میں منتقل کرنے پر توجہ دینی چاہیے،مسلم فیملی لاء ،مسلم مسائل اور اس طر ح کی چیزیں ہمیں انگریز ی میں لکھ کر دنیا کے سامنے پیش کرنی چاہیئے ،یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور عدلیہ میں نمائندگی کماحقہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ججز کو اسلامی تعلیمات کے بارے میں جاننے کیلئے صحیح ماخذ نہیں مل پاتاہے ، وہ کبھی فیضی کی کتاب دیکھتاہے تو کبھی کچھ اور، اب تک ججز کو یہ سمجھ میں نہیں آسکا کہ تین طلاق جب گناہ ہے تو یہ صحیح کیسے ہوگی ،جن کتابوں کا ججز نے مطالعہ کیا اسے وہاں اس کی صحیح تشریح نہیں مل سکی ،اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ تین طلاق غلط ہے لیکن متاثر ہے جیسے دیگر جرائم غلط ہیں لیکن انکار کے بعد اس کا اثر ظاہر ہوتاہے۔ انگریزی میں انہوں نے یہ تعبیر پڑھ رکھی ہےBad in theology, bad in law، ہم نے کہا Bad in theology, bad in law, still effective
بہر حال ججز کو ہم کیسے الزام دے سکتے ہیں کیوں کہ ہم نے کچھ انہیں پڑھنے کیلئے دیا ہی نہیں ہے ۔اس لئے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔فوری طور پر پوری کتاب کا ترجمہ کرنے کے بجائے اہم ابواب کا ترجمہ کریں ۔عر ب علماء ،ماہر وکلاء کے مضامین کا مطالعہ کریں اور نئے اسلوب میں انگریزی زبان میں مقالہ لکھیں ۔
سوال:
دارلعلوم دیوبند نے اپیل کی تھی کہ علماء ٹی وی چینلوں کے مباحثہ میں نہ جائیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کیا موقف ہے ؟
جواب:
ٹی وی چینلوں پر جس طرح کی بحث ہوتی ہے اور اسلام کو جس طرح ٹارگٹ کیا جاتاہے اس کے بعد یہ رجحان بن رہاہے کہ علماء وہاں نہ جائیں اور انہیں بتائیں کہ ہم اس لئے نہیں آرہے ہیں کہ آپ کا مقصد اسلام کو ٹارگٹ کرناہے ،اپ بولنے کا موقع نہیں دیتے ہیں ۔
سوال:
ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیئے ،سیاست سے وابستگی اختیار کرنی چاہیئے ،کس پارٹی سے وابستہ ہونا چاہیے ؟۔
جواب :
یہ سوال بہت اہم ہے اور مسلسل میں اس پر کام کررہاہوں مجھے نہیں معلوم میری کتنی چیزیں آپ تک پہنچتی ہیں،دیکھئے ملک میں یہ عام تصور ہے کہ ہندومسلم کی لڑائی ہے یہ تصور بالکل ہی غلط ہے ،اصل لڑائی برہمن اور ایس سی ایس ٹی کے درمیان ہے ،ایس سی ایس ٹی کو زبردستی ہندو بنایاجارہاہے ،وہ چیخ چیخ کر کہ رہے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں ،اس کے باوجود انہیں ہند ونامزد کیا جارہاہے ،ہم اس ملک میں اکثریت طبقہ ہیں،ہم کا مطلب مظلوم طبقات۔مسلمان تنہا نہیں ہیں،دلت ،آدی واسی ہم سے زیادہ مظلو م ہیں، ساڑھے گیارہ کڑرو آدی واسی ہیں،سات کڑرو لنگائیت ہیں ،برٹش دور میں ان کا شمار اقلیت میں ہوتاتھا ،آزادی ملتے ہی انہیں ہندو بنایاگیا ،لنگائیت دسیوں مرتبہ عدلیہ میں جاکر دستاویز پیش کرچکے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہے لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں ،عوام کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو ملک کی صورت حال سے خوف زدہ ہے ۔ ہمیں کامیابی اسی وقت ملے گی جب ہم دلت ،آدی واسی اور دیگر مظلوم طبقات کو شامل کرکے برہمن واد کے خلاف لڑیں گے۔
سوال :
آپ نقشبندی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں ، مشاہدہ یہ ہے کہ ان دنوں ہندوستانی علماء کی اکثریت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کی طرف مائل ہورہی ہے آخرایسی کیا کشش ہے وہاں۔
جواب :
ایک مرتبہ مل کر دیکھ لیجئے آپ کو انداز ہ ہوجائے گا کشش کا ،صرف ہندوستان نہیں دنیا بھرکااس جانب میلان ہے ،زلیخاکو جب مصر کی عورتوں نے طعنہ دیا کہ تم ایک غلام پر کس طرح فد اہوگئی ہو توانہوں نے کوئی جواب دینے کے بجائے ان کے ہاتھوں میں سیب اور چاقو ٹھہرادیا اور جب حضرت یوسف کو سامنے لایاگیا تو ان خواتین نے سیب کے بجائے اپنا ہاتھ کاٹ لیا ۔


ملت ٹائمز کو وقت دینے اور ہم سے بات چیت کرنے کیلئے بیحد شکریہ
ملت ٹائمز کے ذریعہ آپ حضرات مثبت اور قابل ستائش کام کررہے ہیں،آج ٹی وی چینل کے بجائے یہی سوشل میڈیا سب سے طاقتور ہے، یہ سلسلہ جاری رکھیں ،ملت اسلامیہ کو ایسے میڈیا ہاوئس کی سخت ضرورت ہے ۔(مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی)