ڈاکٹر یامین انصاری
جو یکسانیت محمد اخلاق، پہلو خان اور جنید کے قتل میں تھی، آج وہی یکسانیت ان تینوں کے لئے انصاف کی دم توڑتی امیدوں میں بھی نظر آ تی ہے
یو پی کے دادری میں محمد اخلاق، راجستھان کے الور میں پہلو خان اور ہریانہ کے پلول میں نوجوان جنید کو سرعام قتل کیا گیا۔ تین الگ ریاستیں، تین الگ شہر، لیکن تینوں ہی معاملوں میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ تینوں ہی مظلومین بے قصور تھے اور ایک ہی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ تینوں ہی نئے دور کے حکمرانوں کے ذریعہ پھیلائی گئی نفرت کے سبب محض شک کی بنیاد پر ہجومی تشدد کا شکار ہوئے۔ اور وشو گرو بننے کا خواب دیکھ رہے ہندوستان کے ان تینوں شہریوں کو گائے کے نام پر قتل کیا گیا۔ ایک کو گھر میں گھس کر اس کے بیوی اور بچوں کے سامنے ہی بے دردی سے ہلا ک کر دیا گیا، تو دوسرے کو سر راہ پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا، وہیں تیسرے کی جان مسافروں سے بھری چلتی ٹرین میں بے خوف ہجوم نے لے لی۔ یہاں تک تو یہ مان کر کچھ دیر کے لئے دل کو بہلایا جا سکتا ہے کہ تقریباً ساڑھے تین سال پہلے ’نیو انڈیا‘ میں ایک گروہ نکل پڑا ہے جسے نہ قانون کا خوف ہے، نہ انسانیت کا بھرم۔ نہ اسے ملک کی رسوائی کی فکر ہے اور نہ ہی مظلومین کی آہ کا احساس۔ اس سب کے باوجود ہندوستان کی اکثریت آج بھی ملک کے قانون اور قانونی اداروں پر پورا یقین رکھتی ہے۔ لیکن جب یہی ادارے یا پھر ان کے ذمہ داران اس اعتماد اور یقین کو توڑنے کا کام کرتے ہیں تو پھر ملک کے انصاف پسند اور امن پسند شہریوں کی پیشانی پر شکن پڑنا فطری ہے۔
گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں اگر چہ اس طرح کے ان گنت معاملے سامنے آئے ہیں، لیکن محمد اخلاق، پہلو خان اور جنید کے قتل معاملوں میں اب جو چیزیں سامنے آ رہی ہیں، وہ یقیناً قابل تشویش ہیں۔ ’نیو انڈیا‘ میں حسب روایت پہلے ان تینوں کے قتل کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ جب سول سوسائٹی اور غیر جانبدار میڈیا کے انصاف پسند حلقہ کی جانب سے معاملے کی سچائی سامنے لائی گئی تو بمشکل تمام یہ تسلیم کیا گیا کہ محض شک کی بنیاد پر یہ تینوں واقعی ہجومی تشدد کے شکار ہوئے اور انھیں نفرت کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ اس کے بعد حکمراں طبقہ کی جانب سے ملزمین کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ پھر پارلیامنٹ سے لے کر ریاستی اسمبلی تک، مرکزی وزیر سے لے کر وزیر اعلیٰ اور ریاستی وزیروں تک نے ان معاملات میں کس قدر بے حسی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ، وہ انتہائی شرمناک اور افسوسناک تھا۔ جنید قتل کیس میں اب جو انکشاف ہوا ہے وہ اور بھی زیادہ حیران کن اور پریشان کن ہے۔ ۲۵؍ اکتوبر کو فرید آباد (ہریانہ) کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج وای ایس راٹھور نے کہا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل یعنی سرکاری وکیل نوین کو شک کلیدی ملزم نریش کمار کے وکیل کی مدد کر رہے ہیں۔ جسٹس راٹھور نے اپنے عبوری فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ ایک غیر پیشہ وارانہ حرکت ہے اور یہ قانون کی اخلاقیات کے خلاف ہے، یہ کسی وکیل کو زیب نہیں دیتا۔ اس سے پہلے بھی عدالت نے جنید قتل معاملے کے مزید ایک ملزم رامیشور داس کی ضمانت کی عرضی خارج کرتے ہوئے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ملزم کو ضمانت دینے سے معاملے کی تفتیش متاثر ہو سکتی ہے۔ جنید کے قتل کے وقت اور اس کے بعد بھی حکمراں طبقہ اور سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے کے لئے تعینات کی گئی منظم فوج نے جس شرمناک رویہ کا مظاہرہ کیا وہ خود بخود یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ ٹرین میں محض سیٹ کے جھگڑے کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ایک معصوم کے قتل کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔
ٹھیک اسی طرح الور میں پہلو خان نامی شخص کے بے رحمانہ قتل کو بھی پہلے صحیح ٹھہرانے اور اب ملزمین کو کلین چٹ دے کر آخر کیا تاثر دیا گیا ہے؟ حد تو اس وقت ہو گئی جب ایک مرکزی وزیر نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ زمینی سطح پر اس طرح کی کوئی واردات ہوئی ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ اور بی جے پی ایم ایل اے گیان دیو آہوجا نے پہلو خان کو گؤ اسمگلر بتا کر نہ صرف اس کے قتل کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی بلکہ ملزمین کو بچانے کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ اب پہلو خان کے قتل اور اس کے بعد پولیس کے رویہ پر ’فیکٹ فائنڈنگ ٹیم‘ کے ذریعہ تیار کی گئی ایک رپورٹ نے راجستھان پولیس کی جانبداری کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پہلو خان نے اپنی موت سے پہلے پولیس کو دئے گئے بیان میں جن چھ ملزمین کے باقاعدہ نام لئے تھے، انھیں گرفتار کرنے کے بجائے پولیس کی توجہ انہیں بچانے پر مرکوز رہی اور با لآخران سبھی ملزمین کو کلین چٹ مل گئی۔ اس غیر جانبدارانہ تحقیقاتی رپورٹ کی تصدیق حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی کئی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی کی ہے۔ جن میں نیو یارک کی تنظیم الائنس فار جسٹس اینڈ اکاؤنٹبلیٹی، دلت امریکن کولیوشن، واشنگٹن ڈی سی کی انڈین امیرکن مسلم کونسل، لندن کی ساؤتھ ایشیا سالی ڈیریٹی گروپ اور نیو یارک کی ساؤتھ ایشیا سالی ڈیریٹی انیشی ایٹیو شامل ہیں۔ غور طلب ہے ابھی گزشتہ ماہ ہی اس قتل کیس کے چھ ملزمین کو کلین چٹ دیتے ہوئے معاملے کی تحقیقات بند کر دی تھی۔ پولیس کی جانچ رپورٹ میں پہلو خان کے قتل کے چھ ملزمین میں سے تین ایک شدت پسند ہندو تنظیم سے وابستہ ہیں۔ پولیس رپورٹ کے مطابق پہلو خان پر حملے کے وقت یہ چھ لوگ موقعہ واردات پر موجود نہیں تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پہلو خان پر حملے کے وقت ملزم اوم یادو، حکم چند یادو، سدھیر یادو، راہل سینی، نوین شرما اور جگپال یادو یعنی سبھی چھ ملزمین جگپال یادو کی راٹھ گؤ شالہ میں موجود تھے، جو حملے کی جگہ سے تقریباً چار کلو میٹر دور ہے۔ ان سبھی چھ لوگوں کی موبائل کی لوکیشن سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ایسے میں تفتیشی افسر کے ذریعہ نکالے گئے نتیجے کے مطابق ان کے نام اس معاملے کے ملزمین کے بطور ہٹانے کی سفارش کی جاتی ہے، کیوں کہ جانچ میں انہیں قصور وار نہیں پایا گیا ہے۔ یعنی خود مقتول کی گواہی، وہاں موجود اس کے بیٹے کی گواہی، نامزد رپورٹ اور واردات کا ویڈیو، راجستھان پولیس کے نزدیک سبھی ثبوت ناکافی تھے۔ جبکہ ملزمین چار کلو میٹر دور اپنا موبائل چھوڑ کر بھی آ سکتے ہیں، اسے اصل ثبوت مان کر انہیں کلین چٹ دے دی گئی۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ کے مطابق کئی ایسے پہلو سامنے آئے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کی سرکاری مشینری نے ملزمین کو بچانے کی پوری کوشش کی۔ رپورٹ کے مطابق پہلو خان پر حملہ یکم اپریل کو شام ۷ بجے سے ۱۰ بجے کے درمیان ہوا، مگر پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر کی اور دوسرے دن صبح ۳ بج کر ۴۵ منٹ پر ایف آئی آر رجسٹرڈ ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق پہلو خان نے کیلاش اسپتال میں علاج کے دوران اسی رات ۱۱ بج کر ۰۵ منٹ پر پولیس کو بیان دیا اور حملہ کرنے والوں کے نام بھی بتائے۔ ان کا یہ بیان بعد میں ’مرتے وقت کا بیان‘ کے طور پر تسلیم کیا گیا، جس کی قانون کی نظر میں بہت اہمیت ہے، مگر پولیس نے اسے نظر انداز کر دیا۔ حملہ کے بعد پولیس کو جائے واردات پر پہنچنے میں چار گھنٹے لگ گئے، حالانکہ اس کا پولیس اسٹیشن سے فاصلہ محض ۳ کلو میٹر کا ہے۔ پہلو خان نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ حملے کے وقت ۲ پولیس اہلکار بھی موجود تھے، لیکن ایف آئی آر میں ان پولیس اہلکاروں کا ذکر بھی نہیں ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۶ کلیدی ملزمین کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کا اطلاق ہو سکتا تھا، لیکن جانچ کے دوران ایک ایک کرکے سبھی دفعات ہٹا دی گئیں۔ مثال کے طور پر رپورٹ کے مطابق ’ بے تحاشہ پٹائی پہلو خان کی موت کا سبب بنی اس لئے دفعہ ۷۰۳ کا اطلاق ہونا چاہئے تھا، مگر پولیس نے ۸۰۳ کے تحت معاملہ درج کیا، جس کے مطابق حملہ آور کا مقصد قتل کرنا نہیں تھا۔ دفعہ ۷۰۳ کے تحت ۰۱ سال کی سزا ہو سکتی ہے، جبکہ ۸۰۳ کے تحت خاطی ثابت ہونے پر ۳ سال تک کی قید ہوگی۔‘ ادھردادری کے محمد اخلاق کے قتل کیس میں بھی شروع سے لے کر ابھی تک ملزمین کی حوصلہ افزائی کی ہی کوشش کی گئی۔ چاہے وہ ملزمین کو بچانے کی تگ و دو ہو، یابی جے پی کے بڑے بڑے لیڈران اور مرکزی وزیر تک کے ملزمین کے گھر پہنچنے کا معاملہ ہو، یا پھرایک ملزم کی فطری موت کے بعد اس کی لاش پر قومی پرچم ڈالنے کا معاملہ ہو، یا حال ہی میںملزمین کو این ٹی پی سی میں ملازمت دلانے کی کوشش ہو،بھلے ہی خبر عام ہونے کے بعد اس کو سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔ بہر حال ان سبھی معاملات سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکمراں طبقہ ایک خاص منصوبہ کے تحت ملزمین کی حوصلہ افزائی اور مظلومین کی حوصلہ شکنی پر آمادہ ہے۔ جس کا انجام کسی بھی قیمت پر اس گلشن نما ہندوستان کے لئے بہتر نہیں ہو سکتا ۔