محمد عنصر عثمان
ینوجوان ہمارے سامنے اداس بیٹھا تھا ۔اس کے چہرے سے کئی رنگ نمو دار ہو رہے تھے۔مایوسی کے گہرے بادلوں نے سایہ کر رکھا تھا۔ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ ہم کیا کہیں ۔ آخر سوچ بچار کے بعد ہم نے اس سے کہا ، بات سنو ! اللہ نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہے تو خالی نہیں بھیجا، ہمیں بھیجے ( دماغ) کے ساتھ بھیجا ہے ، تو کیوں نہ تم اپنی سابقہ غلطیوں سے سیکھ کر آگے کا کوئی ایک مستقل اور پائدارراستہ اختیار کرو ۔ہماری بات سن کر وہ تھوڑا مسکرایا اور بولا : محترم میں جو کام کرتا ہوں دو، چار ، آٹھ مہینے بعد وہ کام ختم ہو جاتا ہے۔چائے کا اسٹال لگایا ، پانچ مہینے بعد بند کرناپڑا۔بریانی کا ٹھیلا لگایا ، آٹھ ماہ بعد نقصان اٹھانا برداشت سے باہر ہوگیا تو اسے بھی ختم کرنا پڑا۔ہم نے کہا ٹھیک ہے ،ہماری بات غور سے سنو ،اس پر عمل کرو ضرور کامیاب ہوگے ،انشاءاللہ۔ایک بچے کو سات سال کی عمر میں گھر والے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔وہ 9 سال کا ہوتا ہے تو اس کی ماں مر جاتی ہے۔21 سال کی عمر تک اس نے صرف ایک سال پڑھائی کی۔وہ قانون کی اعلیٰ تعلیم کے خواب آنکھوں میں سجائے پھرتا۔22 سال کی عمر میں اسٹور کا مالک اسے نوکری سے نکال دیتا ہے۔عمر کے 23 ویں سال وہ ریاستی قانون ساز اسمبلی کا الیکشن لڑتا ہے اور ہار جاتا ہے۔مگراسے تو ہار سے سخت نفرت تھی، پھر وہ کاروبار میں قسمت آزمائی کرتا ہے اور بھاری قرضوں میں ڈوب جاتا ہے۔لیکن وہ ہمت ہارنے والوں کی لائن کا بندہ نہیں تھا۔وہ اپنی زندگی کے ہر ماہ سال گرتا پڑتا رہا ، اور آگے بھڑتا رہا ۔31 سال کی عمر ہوئی وہ ایک بار پھر ناکام ہوا ۔ 35 سال کی عمر میں وہ کانگریس کا مقابلہ ہار جاتا ہے،تو 41 ویں سال میں اس کا چار سال کا بیٹا مر جاتا ہے۔49 ویں سال وہ ایک بار پھر سینٹ کی سیٹ ہار جاتا ہے، لیکن 51سا ل کی عمر میں وہ امریکہ کا کامیاب صدر بن جاتا ہے جسے دنیا ”ابرہام لنکن “ کے نام سے جانتی ہے۔وہ ہر جگہ ناکام ہوتا رہا پھر وہ کس منتر سے کامیاب ہوا ؟ وہ منتر ہے مستقل مزاجی جو کہ تمہارے اندر نہیں ہے۔ ہم نے نوجوان کے چہرے پر سنجیدگی دیکھی اور بات کو جاری رکھا ۔ دیکھو ! مستقل مزاجی انسان کو منزل تک پہنچادیتی ہے، اور غیر مستقل مزاج لوگ ہر محاظ پر ناکام ہوتے ہیں۔جب ایک راستہ متعین کر لیا ، منزل ڈھونڈ لی، پھر متبادلات کو سوچنا چھوڑدو۔ہمارا اسلام بھی ہمیں مستقل مزاجی کی بھر پور دعوت دیتا ہے،اور مایوسی ناامیدی سے منع کرتا ہے۔مستقل مزجی اور مصمم ارادہ ہی انسان کو فرش سے عرش کی سیر کراتا ہے۔ہم نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھو ںمیں لئے اور مشفقانہ انداز سے کہا : آپ بتائیں ! اس شخص سے لوگ کیا توقع کھیں گے جواپنے اندر تخیلات کی آندھیوں میں گم ہو کر رہ گیا ہو،اور تخصیص کے فقدان نے اس کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہو۔اور جس نے غیر مستقل مزجی اور متبادل سوچ کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو ہلکان کر لیا ہو۔ہم کرنے کچھ اور جاتے ہیںاور ہو کچھ اور جاتا ہے۔ڈاکٹر ، انجینئر ، آفیسر بننے جاتے ہیں اور چند سال بعد کچھ اور بن کر آجاتے ہیں ۔اکنامکس پڑھنے والے زمینداری کرتے ہیں، توذراعت پڑھنے والے ہوٹلوں میں کُک ہیں ۔اسلامیات پڑھنے والے بنکوں میں نوکریاں تلاشتے پھرتے ہیں تو، کامرس پڑھے اسلامیات کے استاد لگتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہزاروں میں ملیں گے جو غیر مستقل مزاجی کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہوں گے اور یہ ہر طبقہ میں موجود ہیں۔ ہمارے ایک دوست سیاسیات میں ایم اے کرنے کے بعد مسجد کے امام بنے،تو دوسرے دوست حافظ قرآن اور اسلامیات میں ایم اے کرنے بعد سیاست میں ہیں ۔غیر مستقل مزاجی کے اس دیمک نے ہمارے ٹیلنٹ کو جس بے دردی سے چاٹا ہے، اس کا خمیازہ نہ ہمارے والدین چکا سکتے ہیں اور نہ اساتذہ۔اور اس پر اجتماعی انفرادی طور پر نظر کرنا ہوگی کہ ہم کیا کرناچاہتے ہیں ،ہمارا وژن کیا ہے، اور ہماری منزل کہاں ہے؟ ” چارلس شواب “ امریکی تاریخ کا سب سے کامیاب منیجر تھا ۔کیا اس میں انتظامی مہارت تھی؟ نہیں وہ مستقل مزاج تھا ، اور اسی مستقل مزجی نے ” اینڈریو کارنیگی “ کو صنعت کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا دیا تھا ۔نوجوان نے ہم سے تشکرانہ مصافحہ کیا ،اور عزم مصمم ، مستقل مزجی کا وعدہ کر کے چلا گیا ۔وہ نوجوان آج اسٹیل کے کاروبار میں کامیاب تاجر ہے۔کیوں کہ ہمت کرے انسان تو خدا بھی مدد کرتا ہے ۔