ہلال احمد سلفی
منصوبہ بندی ،اصابت رائے،جغرافیائی خدوخال ، خوداعتمادی اور عزائم پر پورے وثوق سے ساتھ عمل داری کسی بھی کام کے لیے نہایت ضروری ہے،خاص کر مسئلہ جب عوامی ہوتواس میں ماہرین سے رائے مشورہ اور درپیش مسائل پر باریک بینی سے غوروفکرکرنا دوراندیشی اورپیش بینی کی علامت ہے۔گزشتہ سال ۸نومبرکو وزیراعظم نریندرمودی نے اچانک سکۂ رائج الوقت پر حکم امتناعی نافذکرکے غریب ،مزدور،کسان اورروزینہ کاروباریوںکو اقتصادی مندی میں ڈھکیل دیاتھا جس سے اب تک وہ ابھرنہیں سکے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد حکومت کے جانب سے درجنوں ترمیمی وتنسیخی احکامات کاآنااس بات کا پیش خیمہ تھاکہ ہوناہوجلدبازی میں لیاگیا فیصلہ غلط ہے۔ جس وقت نوٹ کی منسوخی کے احکام دیئے جارہے تھے اس وقت بڑے تاب میں وزیراعظم مودی نے عوام سے وعدہ کیاتھاکہ تیسرے دن بینکوں میں پیسے مہیاکرادیئے جائیں گے،پھرگوامیں انتخابی ریلی کے دوران پچاس دن کاوقت مانگتے ہوئے کہاتھا”مجھے پچاس دن کاوقت مزیددرکار ہے کالے دھن پر قدغن لگانے کے لیے، اس لیے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دشواری ضرورآئے گی لیکن ملکی مفاد میں آپ اس کوبرداشت کریں میں آپ کوآپ کی چاہت کاہندوستان دینے کاوعدہ کرتاہوں“۔ یہ وعدے کہاں گئے اورنوٹ بندی کے بعدحکومتی سطح پر جاری بیانات کی حقیقت کیا ہے اس سے سب واقف ہیں۔ کیاکسی کو ان کی چاہت ہندوستان ملا،کیا نوٹ بندی پر لگائے گئے قدغن سے دہشت گردی، کرپشن اورکالادھن روک لگا۔؟ ہرگزنہیں ۔دراصل برسراقتدارجماعت ایک کی خوبی ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو حب الوطنی اوردہشت گردی کے روک تھام سے جوڑکرپیش کرنے میں مہارت رکھتی ہے ۔ یہ ایساسنگین معاملہ ہے کہ جس پر شہریوں کی زبان گنگ ہوجاتی ہے کہ اگر اس کے خلاف بولیں گے تولوگ ان پر انگلیاں اٹھانی شروع کردیں گے،دہشت گردی قابل مذمت ہے اوراس کی روک تھام کے لیے سب کومتحدہوکر مقابلہ کرناچاہیے لیکن ملک میں اور بھی مسائل ہیں جس کے تصفیہ کی اشدضرورت ہے۔
دراصل بڑے نوٹوں کی منسوخی سے کسی کا کچھ فائدہ نہیں ہوابلکہ معیشت کی شرح کافی کم ہوگئی جس کوسابق وزیراعظم اور ماہراقتصادیات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ہمالیائی غلطی قراردیاتھا،نوٹ بندی پر بولتے ہوئے انہوں نے مزیدکہاکہ اس سے ملک کی جی ڈی پی شرح ۲فیصدکم ہوسکتی ہے جوحرف بحرف درست ثابت ہوئی۔اس کے علاوہ نوبل انعام یافتہ ماہرمعاشیات واقتصادیات ڈاکٹرامرتیہ سین نے نوٹ منسوخی پرشدیدتنقیدکرتے ہوئے کہاتھا’کہ کالے دھن پر روک تھام مشکل نظرآرہاہے یہ حکومت ویسے ہی ناکام ثابت ہوگی جیسے بیرون ملک جمع کالے دھن کو ملک واپس لانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے‘۔مذکورہ دونوںماہریں سمیت متعددماہرین اقتصادیات کی باتیں اور ملک کی جوں کہ توں کی حالت سے صاف ظاہر ہے کہ ناتو خوابوں کاہندوستان نصیب ہوااورنہ ہی دہشت گردی،کالے دھن اور کرپشن پر پکڑمضبوط ہوسکی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جوبھی فیصلہ بغیر رائے مشورے اور افہام وتفہیم کیے جاتے ہیں اکثر ناکام ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ تو ملکی وقومی معاملہ تھا جس پر ملک کی حکمراں جماعت کے کارندے مختلف تاویلات اور فوائدشمارکروارہے تھے۔ خود وزیراعظم نے ’من کی بات ‘ میں کہاتھاکہ”نوجوان طبقہ کیش لیس سوسائٹی کی تعمیرپر زوردے“۔ قارئین خوب جانتے ہیں کہ اس سے کتنی تبدیلی آئی اور ملک کتناکیش لیس ہوا؟ شہریوںکو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی خواب شرمندہ ¿ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ دنیاگواہ ہے کہ وقت کے ساتھ ہرشخص میں تبدیلی آرہی ہے کل جو شخص موٹر سائیکل نہیں چلاسکتاتھا ضرورت کے پیش نظر اس کوسیکھتا اورعمل میں لاتاہے، موبائل فون کی ایجاد بھی بالکل ایسے تھی کہ لوگ آئستہ آئستہ سیکھ گئے ،لیکن ترقی کے نام پر ان میں سے کوئی بھی چیز جبراً تھوپنے کی کوشش کی جاتی تو درگت سب کی بن جاتی ۔ آدمی اپنی ضرورت کے مطابق ایجادشدہ اشیاءکو استعمال میں لاتاہے ناکہ کسی کے کہنے پر۔ آپ کوبتادیں کہ دیہی علاقوں میں آج بھی بعض لوگ اے ٹی ایم کارڈ کو لے کر مشکوک ہیں آئے دن ڈیجیٹلائزیشن کی وجہ سے دھوکا دھڑی کے واقعات سے وہ خوف زدہ ہیں اس لیے وہ اس کے استعمال سے حددرجہ احتراز کرتے ہیں۔
نوٹ منسوخی کے فوائد ومضمرات کو سمجھنے کے لیے ماہرِاقتصادیات کا ہوناضروری نہیں ہے کیونکہ ہر کوئی زمینی حالت سے بخوبی آشنا ہے ، چونکہ وزیرمالیات ڈاکٹر ارون جیٹلی اوران کی کابینہ نے حزب اختلاف کے ۸نومبرکوبطور”یوم سیاہ“منانے کے جواب میں یوم جشن منائیں گے حالانکہ بہترہوتاہے کہ مرکزی حکومت اس دن کو ”یوم احتساب “کے طورپر منعقد کرتی کہ ایک سال کے اندرملکی معیشت میں کتنی ترقی ہوئی اور نوٹ منسوخی سے کس کا کتنافائدہ اورکتنا نقصان ؟ کیا ہندوستانی معیشت کیش لیس ہوئی ؟کیاکالے دھن پر قدغن لگا،دہشت گردی پر روک لگی، کرپشن اوررشوت خوری سے نجات حاصل ہوئی ؟لیکن انانیت اورخود پسندی کی شکار مرکزی حکومت احتساب کرنے کے بجائے تاویلات اور دفاع کی پوزیشن میں ہے ۔ احتساب کیونکر کریں جب کہ ایک سال گزرجانے کے باوجود منسوخ شدہ نوٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہوسکی!! نوٹ بندی کے ایک ہفتہ بعدمیں نے لکھاتھاکہ نوٹ بندی کے سلسلے میں ابھی کچھ لکھناقبل ازوقت ہوگا لیکن آج دھندچھٹ چکے ہیں مکمل ایک سال کا طویل عرصہ گزرچکاہے ،ہرکوئی بخوبی واقف ہے کہ نوٹ بندی سے کسی کا کوئی بھلانہیں ہوا ۔ مودی جی کوایک ریکارڈ اپنے نام قائم کرناتھا سو حاصل ہوگیا۔ بدنام نہ ہوں گے تو کیانام نہ ہوگا کی مصداق حکومت نوٹ بندی کے بعد مسلسل دفاعی پوزیشن میں کھڑی رہی ہے اوراپنے فیصلے کوعوام کے مفاد میں بتلارہی ہے حالانکہ حقیقت سامنے آچکی ہے۔ لوگ باگ حکومت کی چالبازی پر نظر رکھے ہوئے ہیں،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟کے تحت جی ایس ٹی کوفوائد گنوائے جارہے ہیں ۔جس میں کہیں ناکہیں غریب ،مزدور اور متوسط طبقہ پریشان ہورہاہے۔نوٹ بندی سے جتنی دشواریاں غریب اور مزدور طبقہ بشمول سیکڑوں اموات کے کسی کو نہیں ہوئی، امیراوردھناسیٹھ لوگ اپنے اثرورسوخ کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے چکی کے پاٹ میں پسے تو بے چارے غریب ۔تقریباً اُس وقت چلن میں موجودتمام بڑے نوٹ بینکوں میں جمع ہوگئے اورکالادھن کہاں گیا کسی کو اندازہ تک نہیں !! نوٹ کے فوائد اور نقصانات سب کے سامنے ہیں جسے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ،نیت اورنیک نیتی کا اندازہ سب کو ہوچکاہے ۔
نوٹ بندی سے ملک کی معیشت کو جوبریک لگا ہے اس سے باہرآنے میں کافی وقت درکارہے، حکومت کو چاہیے کہ عوامی مفاد کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، باہمی مشورہ سے احکام صادرکیے جائیں، مشاورتی بورڈ کسی بھی معاملے میں جوفیصلہ سنائیں اس پر عمل داری ہو،شہریوں کواعتمادمیں لیا جائے، ملک میں امن وامان کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جائے، اقلیتوں پر ہورہے مظالم کے خلاف سخت کاروائی کی جائے،تعصب اور نسلی امتیازسے پاک معاشرہ قائم کیاجائے اور پھر معیشت میں سب کی حصہ داری کو شامل کرتے ہوئے پیارمحبت کے ایندھن سے ملک کو آگے بڑھانے اور سب کاساتھ سب کاوکاس کا نعرہ دیاجائے۔
٭٭٭
Email:- hilalhidait@gmail.com
★ایڈیٹر ماہنامہ ’الاتحاد‘ ممبئی