ڈاکٹر یامین انصاری
گجرات میں انتخابی ہلچل شروع ہوئی تو لگ رہا تھا کہ یہ پہلی بار ہے جب یہاں فرقہ وارانہ خطوط پر الیکشن نہیں ہوگا، لیکن ۔۔۔
یوں تو گجرات ہمیشہ ہی فرقہ پرستوں کی پسندیدہ تجربہ گاہ رہی ہے۔ یہاں فرقہ پرستی کی بنیادیں اتنی مضبوط رہی ہیں، کہ انتخابات کے علاوہ بھی فرقہ پرست طاقتیں اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے یہاں سے ایندھن حاصل کرتی رہی ہیں۔ اسی لئے کہا جا تا ہے کہ ریاست گجرات میں کوئی بھی الیکشن فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔بی جے پی نے گجرات کو ہندوتوا کی تجربہ گاہ کے طور پر قائم کیا اور ’گجرات ماڈل‘ کے نام پر پانچ بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن حالیہ اسمبلی انتخابات کی ہلچل جب شروع ہوئی تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس مرتبہ یہاں فرقہ پرست اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، دلتوں پر مظالم، پاٹی داروں کی تحریک اور ریزرویشن کا مطالبہ وغیرہ جیسے ایشو اس قدر حاوی تھے کہ ریاست کی دونوں ہی اہم سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل پا رہا تھا۔ کانگریس نے اس معاملے میں بازی ماری اور وہ گجرات میں فرقہ پرستی کو ایشو بننے سے روکنے اور عوامی مسائل کو انتخابی موضوع بنانے میں کافی حد تک کامیاب بھی رہی۔ پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی کی محنت بھی رنگ لاتی نظر آئی۔ کیوں کہ مرکز اور گجرات میں حکمراں بی جے پی مذکورہ تمام ایشوز پر عوامی مخالفت کا سامنا کر رہی تھی۔ نہ تو اس کے پاس کانگریس کے سوالوں کے جواب تھے اور نہ ہی ان مسائل پر وہ عوام کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو پا رہی تھی۔اسی لئے انتخابی مہم میں کانگریس سے پچھڑتا دیکھ کر بی جے پی نے ہوا رخ تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ویسے بھی گجرات کی تاریخ رہی ہے کہ بغیر سنسنی خیزی کے کوئی انتخاب پورا نہیں ہوتا ہے۔ لہذا اب جیسے جیسے انتخابی مہم اپنے شباب پر پہنچ رہی ہے، ویسے ویسے یہاں انتخابی مہم اور ایشوز کا رخ بدلتا جا رہا ہے۔ اس میں میڈیا کا ایک بڑا حلقہ بھی بی جے پی کوششوں کا ساتھ دیتا نظر آ رہا ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، دلتوں پر مظالم، پاٹی داروں کی تحریک اور ریزرویشن کی بات نہیں کے برابر ہو رہی ہے۔ انتخابی جلسوں اورمیڈیا میں اب بحث کا موضوع بدل کر کبھی پاٹی دار لیڈر ہاردک پٹیل کی مبینہ سی ڈی کی بات کی جاتی ہے، تو کبھی ’رام‘، ’راون‘ اور ’حج‘ جیسے الفاظ کو اچھالا جاتا ہے ۔
اب ایک نیا معاملہ احمد آباد میں کچھ گھروں پر مخصوص سرخ نشان لگائے جانے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ جن گھروں پر نشانات لگائے گئے ہیں، ان میں زیادہ تر مسلمانوں کے گھر ہیں۔مطلب،گجرات میں اسمبلی انتخابات سے پہلے فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی کوششیںشروع ہو گئی ہیں۔احمدآباد کے پالڈی علاقے میں مسلمانوں کے گھروں پر لال اور پیلے رنگ کے کراس کے نشان لگائے گئے ہیں۔اس سے پہلے اسی علاقہ میں فرقہ وارانہ خطوط پر منافرت پھیلانے والے پوسٹر بھی دیکھے گئے تھے۔ ان پوسٹروں میں لکھا گیا تھا ،پالڈی کو جوہو پورہ بننے سے بچائیں۔ غور طلب ہے کہ جوہو پورہ گجرات کا مسلم اکثریتی علاقہ ہے، جبکہ پالڈی علاقہ میں ہندو اورمسلمان طویل عرصے سے ساتھ ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ظاہر ہے اپنے گھروں کے باہر لگے ان نشانات کو دیکھ کر وہاں کے لوگ خوفزدہ ہیں اور انھیں خطرہ لاحق ہے کہ انتخابات کے مد نظر فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلائی جا سکتی ہے۔ ان لوگوں نے الیکشن کمیشن اور پولیس کمشنر کو خط لکھ کر جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا ہے۔ ان لوگوں کو خدشہ ہے کہ نشان لگانے کا مقصدمسلم علاقوں کی نشاندہی کرکے انہیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ان پر اسرار نشانات کی خبریں سامنے آنے کے بعد انتظامیہ سرگرم ہوئی اور اس نے ان نشانات کو ہٹانے کی کوشش کی۔ حالانکہ پہلے اس معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی گئی ۔ کہا گیا کہ میونسپل کارپوریشن کے صفائی ملازمین نے اپنے کام کی سہولت کے لئے یہ نشان لگائے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر صفائی ملازمین نے یہ نشان لگائے تھے تو پھر انھیں صاف کرنے کی کوشش کیوں کی گئی؟
گجرات میں بی جے پی نے ہمیشہ فرقہ وارانہ خطوط پر ہی الیکشن لڑا اور جیتا ہے۔ گزشتہ پانچ اسمبلی انتخابات کا ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے۔ خود نریندر مودی نے ۲۰۰۲ءمیں پارٹی کی اندرونی مخالفت سے پیچھا چھڑانے اور اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے لئے گجرات پر جو بد نما داغ لگایا، وہ آج تک صاف نظر آتا ہے۔ بھلے ہی مودی کے لئے ۲۰۰۲ءکے خونریز واقعات سیاست کی سیڑھیاںثابت ہوئے۔اب وہ ملک پر حکومت کر رہے ہیں، لیکن گجرات آج بھی ان کے لئے وقار کا مسئلہ ہے۔ حالیہ دور میں یہاں ہونے والی کسی بھی سیاسی تبدیلی کے اثرات نمایاں طور پر مرکز کی سیاست پر نظر آئیں گے۔ ویسے بھی کانگریس یہاں گزشتہ ۲۲ برسوں سے اقتدار سے باہر ہے اور مرکز میں بھی وہ بی جے پی کے ہاتھوں شکست کھائی ہوئی ہے۔ ان سب کے باوجود کانگریس نے یہاں بی جے پی کے لئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ بی جے پی کے ذریعہ انتخابی ایشوز کو بدلنے کی کوششوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دو دہائی میں پہلی مرتبہ کانگریس سے خوفزدہ نظر آ رہی ہے۔ ویسے بھی اس وقت بی جے پی اور ملک کی کمان امت شاہ اور نریندر مودی کی شکل میں دو گجراتیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے بھی گجرات کے یہ انتخابات مودی اور امت شاہ دونوں کے لئے عزت و وقار کا مسئلہ بن گئے ہیں۔ ان اسمبلی انتخابات کے نتائج براہ راست ۹۱۰۲ءکے عام انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کم از کم عام انتخابات کی تیاریوں پر ضرور اثر ڈالیں گے۔ کیوں کہ گجرات میں یہ الیکشن ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ۹۱۰۲ءکے انتخابات کی تیاریوں میں بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس سے پہلے راہل گاندھی کی پارٹی صدر کی حیثیت سے تاج پوشی بھی ہونی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی نے ہماچل پردیش کو زیادہ ترجیح نہ دے کر گجرات پر پوری توجہ مرکوز کی ہے۔ ظاہر ہے اگر راہل گاندھی گجرات میں مودی اور امت شاہ کی ناقابل شکست جوڑی کو ہرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یقیناً ان کے لئے یہ جیت میل کا پتھر ثابت ہوگی۔ راہل نے خود کو ثابت کرنے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی ہے۔ گجرات میں فرقہ پرستی اور مذہبی سیاست کو بی جے پی نے ہمیشہ سر فہرست رکھا اور وہ کانگریس پر حاوی رہی۔ اسی کی بنیاد پر بی جے پی مسلسل کامیاب بھی ہوتی رہی، لیکن اس بار راہل گاندھی نے مذہب کی سیاست پر ذات پات کی سیاست کو حاوی کر دیا۔یعنی ہندو کارڈ کا جواب دینے کے لئے راہل گاندھی نے ذات پات کی سیاست کا کارڈ چلا۔ گجرات میں مختلف موقعوں پر ذات پات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں نے کانگریس کو ایک راہ دکھائی۔ ان تحریکوں سے سامنے آنے والے نوجوان لیڈران سے کانگریس کے نوجوان لیڈر راہل گاندھی نے رابطہ کیا اور الپیش ٹھاکر، جگنیش میوانی اور ہاردک پٹیل جیسے لیڈران کا ساتھ لے کر ذات پات کی سیاست کا ایسا کارڈ کھیلا کہ بی جے پی کے پیروں کے نیچے کی زمین نکل گئی۔ ان میں سے الپیش ٹھاکر نے تو با قاعدہ کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی۔ دلتوں کے نوجوان اور با اثر لیڈر جگنیش میوانی نے بھی کانگریس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ جہاں تک ہاردک پٹیل کی بات ہے تووہ کانگریس سے مول بھاو ¿ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن بی جے پی انھیں براہ راست نشانہ بنا کر کانگریس کی ہی راہ آسان کر دی۔ جس طرح یکے بعد دیگرے ہاردک پٹیل کو بدنام کرنے کے مقصد سے ویڈیو وائرل ہو رہے ہیں، اس سے وہ کھل کر بی جے پی کے خلاف زہر افشانی کر رہے ہیں۔ ایسے میں ہاردک پٹیل کی بی جے پی سے دوریاں اور کانگریس سے نزدیکیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ راہل گاندھی نے اپنی انتخابی مہم میں ماتھے پر تلک لگا کراور مندروں میں درشن کر کے نرم ہندوتوا کے ذریعہ بھی بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ کیوں کہ بی جے پی کے کئی بڑے لیڈر اور مرکزی وزرا نے راہل کو کاو ¿نٹر کرنے کے لئے محاذ سنبھالا ہے۔ خود بی جے پی صدر امت شاہ گھر گھر جا کر اپنے ووٹروں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان سب سے بی جے پی کی بے چینی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی اپنا آخری حربہ یعنی فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلنے میں کس حد تک کامیاب ہو پاتی ہے۔
گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر
اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ
(مضمون نگار معروف صحافی اور روزنامہ انقلاب کے ریزڈینٹ ایڈیٹر ہیں)