تمنا دل میں گونجی ہے کروں سیرت مصطفی کا بیاں

امیر سندھی

یہ جرأت اور جسارت نہیں تو کیاہے؟بے علمی وکم فہمی کے باوجود قلم آج سیدالناس کے متعلق جنبش میں ہے۔جسکی کما حقہ تعریف و توصیف کرنے سے اہل قلم فلاسفہ، مؤرخ، ائمہ و مجتہدین بھی عاجز و بےبس ہیں۔ آقا کی ہر ہر اداپر سینکڑوں صفحات لکھے جاچکے ہیں اور لکھے جارہے ہیں مگر عشق کی آگ ہے جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ مادہ پرست اپنا اعلی دماغ اورسرمایہ امت کو پیارے آقا سے کاٹنے میں میں کھپا رہے ہیں۔ لیکن انکو پتہ نہیں یہ تعلق عشق ومحبت اور وفاءسے گندھا ہوا ہے۔

محبوب سبحانی کے عہد کو 1400 سال کا عرصہ بیت گیا۔ مگر آپ کی شخصیت آج بھی اربوں قلوب پر حکمرانی فرما رہی ہے، آج بھی آپ کی حیاتِ جاودانی کے نقوش پرکشش، روشن، تابناک اور جاذبیت سے لبریز ہیں۔ آپﷺکے غلام ہر بر اعظم، ہر ملک، دنیا کے ہر کونے اور ہرخطے میں موجود ہیں،ہر رنگ، ہرنسل اور ہر قوم میں عشاق مصطفیٰﷺ کی بڑی تعداد ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مادہ پرستی نے بہت کچھ چھین لیا، غیر فطری طرز حیات نے انسانوں کے اطوار اور خصلتوں کے زاویے تک کو تبدیل کردیا۔ روحانی زوال، انحطاط اور کمزوری نے بہت کچھ ہڑپ کرلیا۔ دینِ مستقیم کی راہ ہدایت سے پہلو تہی اور دوری نے ہمارے کردار کو قصہ ماضی بنا ڈالا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم منتشر ہیں، قومیت ولسانیت اوروطن پرستی وعلاقائی جمود نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ہم آستین کے سانپ رکھتے ہیں ہمارے بڑے غیروں کے غلام ہیں، ان سب حالات کے باوجود امت کا حبیب سے لگاؤ وہی ہے، نبی کے دشمن پیرس جیسے ہائی سیک ¸ورٹی شہر میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

ارے! میرے آقا کی سیرت و صورت بیان کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں۔تمام نبیوں کے سردار افضل البشر خاتم النبی ¸ن سید الرسل شافع محشر ساقی کوثر ”بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر”
حسن یوسف دم عیسی ید بیضاداری
آں چہ خوباں ہما دارند، تو تنہا داری۔
یہ میرے نبی کا اعجاز ہے انکا نام پوری دنیا میں سب سے زیادہ رکھا جانےوالانام ہے۔آج بھی دشمنوں پر بجلی کی طرح گرتا اور کانٹے کی طرح چبھتاہے۔

چاند کی طرح پرنور، چمکتا، پرکشش، سرخی آمیز، گول وجہ مبارک۔ روشن، کشادہ پیشانی، ہلکے رخسار، تابناک چہرہ۔سرمگیں آنکھیں دراز گھنی پلکیں، چمکدار کالی زلفیں گھونگریالے بال، نظروں کو اچکتی کمان نما باریک ابرو، موزوں دلکش ناک، بانسہ بلند اور خم دار۔ روشنی، نور اور رنگ بکھیرتے موتیوں جیسے دانت،
بولیں تو سنتے ہی جائیں خاموش ہوں تو دیکھتے ہی جائیں۔نہ پست قدکہ نظر میں نہ جچے نہ لمبا کہ ناگوار گزرے۔
خلقت مبراء من کل عیب
کأنک خلقت کما تماشائی
اللہ نے حسن رعنائی، دل کشی، دل ربائی جمع فرماکر یہ واضح کرنا چاہا کہ جس طر ح میری ذات قدرت وطاقت میں اپنی مثال آپ ہے ایسے ہیں میرے محبوب ﷺ حسن ودلکشی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

صورت تیری تصویر کمالات بناکر
دانستہ مصور نے قلم توڑ دیاہے

آپﷺ ہردم ہنس مکھ، خوبرو نظر آتے۔ سہل، نرمی اور آسانی کو پسند فرماتے۔ آواز مدھم رکھتے، چیخنے دھاڑ نےسے پرہیز فرماتے۔ اپنی ذات کے لیے انتقام تو کبھی لیا تک نہیں، ہاں حدود اللہ سے تجاوز، اللہ کی حرمت کی پامالی پر ایسے برہم ہوتے کہ توبہ توبہ۔ مصائب، آلام، حالات اور منہ زور طوفانوں کا خندہ پیشانی، صبرو عزیمت سے مقابلہ فرماتے۔ غریبوں، ناداروں، مفلسوں اور بے آسرا لوگوں سے میل جول رکھتے، غلاموں سے حسن سلوک فرماتےاور لوگوں کواس کا حکم دیتے۔ یہ آپ کی شفقت، محبت کا اثر تھا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کے ساتھ جانے سے انکار فرمادیا، آپ ﷺ کو والد پر ترجیح دی۔اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے”کان خلقہ القرآن”۔ اپنوں سے عفو، درگزر ہر کوئی کرتا ہے مگر دشمنوں پر احسانات، جانی دشمنوں کو معاف کرنا، گرفتار کیے ہوئے دشمنوں کو رہا کرنا، یہ کوئی نبی ہی کرسکتاہے۔
سچائی، دیانت وامانت، حیا، عفت، اور پاک دامنی، عدل وانصاف، سچائی وحق گوئی، تواضع وانکساری، صلہ رحمی، عفو ودرگزر، حلم وبردباری، عظمت، رحمت، شفقت، جودوسخا، کرامت وبزرگی کو آپ ﷺ کی ذات اقدس نے اعزاز بخشا۔
پورا مکہ، مکمل برادری اپنے پرائے سب کوچھوڑ کر، دشمنی مول لےکر دین حنیف کی دعوت دیتے رہے بتوں کی نگری میں توحید کا نعرہ مستانہ لگاتے رہے۔ ظلمت کدے میں روشنی بکھیرتے رہے نہ کسی کےلعن طعن کی پروہ، نہ ایذارسانی کا خوف، یہ جرا ¿ت وبہادری نہیں تو کیاہے؟
بڑے بڑے جرنیل آپ ﷺ کی جنگوں کے احوال اور ﷺ کی جرأت وبہادری کی داستانیں سن کر انگشت بدنداں ہیں، آپ ہی لوگوں میں سب سے دلیر اور بہادر تھے۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ جب (میدان جنگ میں) لڑائی اپنے شباب پر ہوتی، اور لوگ ایک دوسرے کے مقابل ہوتے تو ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ہم میں سےکوئی دشمن کے اتنا قریب نہ ہوتا تھا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ والوں کو (کسی دشمن کے آنے کا) خوف ہوا تو جدھر سے آواز آ رہی تھی لوگ ادھر چلے، تو راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوٹتے ہوئے پایا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے پہلے اکیلے خبر لینے کو تشریف لے گئے ہوئے تھے) اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آواز کی طرف تشریف لے گئے تھے اور سیدنا ابوطلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں تلوار تھی اور فرماتے تھے کہ کچھ ڈر نہیں، کچھ ڈر نہیں۔ یہ گھوڑا تو دریا ہے اور پہلے وہ گھوڑا سست تھا (یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ وہ تیز ہو گیا)۔ (صحیح مسلم)
وہ دیکھو ہزاروں تیر اندازوں کے درمیاں میرے محبوب آقا ثابت قدم کھڑے فرمارہے ہیں
انا النبی لاکذب اناابن عبد المطلب
غزوہ احد میں زخمی ہونے کے باوجود، بپھرے شیر کی طرح حمراءالاسد تک دشمنوں کا پیچھا فرمارہے، طاقتور دشمن آپ کی ہیبت اور رعب کے سامنے موم کی طرح پگھل کر راہ فرار اختیار کرتاہے۔
وہ ہیبت کہ دیوار ودر کانپتے ہیں
ارےان سےشمس وقمر کانپتے ہیں
طائف کی وادی میں پیارے آقا لہو لہان ہیں جسم اطہر سے خون رس رہا، جوتیاں خون سے بھر گئیں مگر مجال ہے کہ مشن ومقصد میں ذرابھی لچک پیداہوئی ہو۔

آپ کے کمال بلندی اور رفعت کے متعلق شیخ سعدی گویاہوتے ہیں۔
بلغ العلی بکمالہ کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلواعلیہ والہ