جماعت اسلامی ہند اسٹڈی سرکل ،دہلی و ہرےانہ زون کے تحت کاﺅنسٹی ٹےوشن کلب مےںبعنوان‘ اہمےت اور تقاضے متبادل بلاسودی معيشت‘ کے منعقد ہوا
نئی دہلی(ملت ٹائمزپرےس رےلےز)
جماعت اسلامی ہند اسٹڈی سرکل ،دہلی و ہرےانہ زون کے تحت کاﺅنسٹی ٹےوشن کلب مےںبعنوان‘ اہمےت اور تقاضے متبادل بلاسودی معےشت‘ کے منعقد ہوا ۔جس مےں ملک کے نامور ماہرےن معاشےات نے اسکی ضرورت و اہمےت کے نفاذمےں پےش آنے والے چےلنجز پر گفتگو کی جس سے آئندہ گفتگو کی راہےں کھلے گی ۔اس سے قبل بھی اس گروپ نے اس تعلق سے ’بلاسودی نظامِ معےشت ‘امکانات ،چےلنجز اور راہ عمل کے عنوان سے سمےنار کر چکی ہے جو اس پوری بحث کو سمجھنے مےں خاصہ اہم ہے۔اس پروگرام مےں کئی ذےلی عنوانات کے تحت مذاکرہ پےش کئے گئے جس مےں سےر حاصل گفتگو ہوئی۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفےسرجاوےد احمد خاں نے کہا کہ اقبال کے بغےر اقتصادےات کو ہم نہےں سمجھ سکتے ہےںانکی پہلی کتاب الاقتصادےات ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر اہل اسلام غےر سودی کاروبار کو آگے بڑھائے تو آکسفورڈ اس نظام کو آپ سے چھےن لےں گے۔ہندوستان مےں اسلامی بےنکنگ نظام کےلئے گلف منتظر ہےں،وہ ہر ہندوستانی ذمہ دارسے پہلا سوال ےہی کرتے ہےں کہ آپ کے ملک مےں اسلامک بےنکنگ نظام کب شروع ہو رہا ہے تاکہ وہ اپنا سرماےہ لگاسکےں۔انہوں نے کہا کہ ےہ کہاں کا انصاف ہے کہ 80فےصد پےسہ بےنک مےں رکھا رہ جاتا ہے اور 10فےصد سے کاروبار کےا جاتا ہے اگر اس 80فےصد پےسے کو کاروبار مےں لگادےا جائے تو ہندوستان مےں اقتصادی انقلاب آجائے گا۔ہمارا اسی فےصد پےسہ ےوٹی لائزنہےں ہو رہا ہے،10رکھ کر 100روپےہ سود کھاﺅ ظاہر مےں تجارت ہے لےکن حقےقت مےں جوا ہے۔بےنک ہمارے جمع پےسہ پر 10-8فےصد ہی منافع دےتی ہے جبکہ وہ 80-50فےصد تک کا نفع کماتی ہے ۔ ےہ مسئلہ غرےبوں کے استحصال کا ذرےعہ بناہوا ہے اس لئے ہم اس کو ختم کرنا چاہتے ہےں۔کمپنےاں غےر سودی شےئر بےچ رہی ہےں اور اس کے نقصان اور فائدے مےں دونوں فرےق شامل ہے ۔اسلامی بےنک کسانوں کو خودکشی نہےں کرنے دے گا۔مورڈن بےنک غےر انسانی اور کےنسر کے شکار ہےں ۔اسلامی بےنک سسٹم ہی انسان کو مساوات کے راستے پر لے جائے گا۔
مذاکرہ ’کےا سودی نظام معےشت سے ہٹ کر کوئی عملی صورت ہے‘مےں ڈاکٹر وقار انور نے تعارفی تبصرہ پےش کرتے ہوئے کہا کہ انسان کو اےسے معےشت کی ضرورت ہے جس مےں لےن دےن ،کاروبار اور معاشی معاملات بغےر سود کے چلائے جا سکتے ہوں،اےسے رےسورسےز کو انسان کے حقےقی ضرورت اور فلاح سے جوڑ سکے وہ اس سرزمےن پر موجودہے۔ےہ معاشےات کا اہم موضوع رہا ہے جس کی بنےادی وجہ ےہ رہی ہے کہ بازار کی معےشت نے جن دعوﺅں کے ساتھ پچھلی صدی مےں قدم رکھا تھا کہ اس معےشت سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا ،انسانی دنےا مےں بےکاری بے روزگار کا خاتمہ ہو سکے گا ،مساوات قائم ہوگا،انسانی زندگی کے سماجی ،اخلاقی ،معےارات بلند ہوسکےں گے ،سماج کے اندر سے جرم ،بے اےمانی ،کرپشن ،بے اعتدالی کو ختم کےا جا سکے گا وہ سب اعداد شمار کی دنےا مےں پہلے کہےں زےا دہ بڑھ کر اس دنےا مےں تباہی ،بربادی ،دنےا کے وسائل زندگی کے خاتمہ کا سبب بن چکے ہےں۔انسانی دنےا کی اس اہم اور بنےادی بحث کو اےک بار پھر اٹھا کر سود جےسی استحصالی نظام معےشت جو کہ اپنے تمام دعوﺅں مےں بری طرح ناکام ہو چکا ہے ،حالات ےہ ہے کہ دنےا کے وسائل دولت سمت کر صرف 8%فےصد لوگوں کے قبضہ مےں جا چکی ہے ۔جو اس کرہ ارض پر اپنا تسلط قائم رکھ کر پوری نوعِ انسانےت کا بری طرح استحصال کر رہی ہےں۔
مذاکرہ ’کےا سود ی نظام معےشت سے بہتر اور پرےکٹےکل معےشت کا وجود ہے جہاں بلاسودی طرےقہ پر انسانی زندگی کے ضرورےات کی تکمےل کی جاسکتی ہو؟‘ےہ بحث گزشتہ صدی مےں اُٹھی اور اسکا جواب ڈھونڈھا گےا مگر ےکے باد دےگر سب ناکام ہوتی رہی ہے۔
مذاکرہ’مےن اسٹرےم اکنامکس کے باوجود کارپورےٹ اکنامکس سے بہتر طرےقہ پےداوار دولت کی تقسےم کا اس وقت موجودہے ‘؟اس سوال کے پےچھے جو ذہن ہے وہ اےسے انسان دوست لوگ ہےں جو انسانےت کو اس کرہ ارض پر ختم ہوتا دےکھ رہے ہےں۔ملک کے ملک قرض مےں گلے تک ڈوب چکے ہےں۔سودی معےشت نے اس دنےا پر موجود وسائل دولت کا اتنا بے مہا استعمال شروع کےا کہ اس کرہ ارض کی وجود کا خطرہ پےدا ہو چکا ہے۔’حکومتےں‘جو عوام کی فلاح و بہبود کی ضامن سمجھی جاتی تھیں ان کے وسائل دولت کو بھی اس سودی معےشت نے ہڑپ لےا ہے ۔
مذاکرہ ’کےا سودی نظام معےشت سے بہتر اور پرےکٹےکل معےشت کا وجود ہے جہاں بلاسودی طرےقہ پر انسانی زندگی کے ضرورےات کی تکمےل کی جاسکتےں ہو؟‘ےہ بحث پچھلی صدےوں مےں اٹھی اور اس کا جواب ڈھونڈا گےا مگر ےکے باد دےگر سب ناکام ہوتی رہی ہے۔
اس پروگرام مےں جماعت اسلامی ہند کے جنرل سکرےٹری انجےنئر سلےم ،نائب امےر جماعت نصرت علی ،حلقہ دہلی وہرےانہ کے امےر عبدالوحےد ،مفتی سہےل احمد قاسمی سمےت کئی نامور ماہرےن معاشےات نے شرکت کی۔اظہار تشکر منصور غازی نے ادا کئے ۔