تین طلاق پر قانون مسلم خواتین کو جسود ا بین بنانے کی کوشش

خبر درخبر(529)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان میں بر سراقتدار بی جے پی سرکار مسلم خواتین کے تئیں اپنی فکر مندی دکھاتے ہوئے مسلسل اس ضمن میں کام کررہی ہے اور تمام وعدوں ،ایجنڈوں اور فلاحی اسکمیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رواں سرمائی اجلاس میں وہ تحفظ وویمن ایکٹ کے تحت ایک بل لانے جارہی ہے جس میں ایک ساتھ دی گئی تین طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن طلاق دینے والے شوہر کو تین سالوں کیلئے جیل جانا ہوگا ۔یہ سزا ناقابل ضمانت اور سنگین واردات میں شمار ہوگی ۔مرکزی وزیر قانون روشی شنکر پرساد نے اس کی تائید کردی ہے اور ممکن ہے کہ اگلے ہفتے میں یہ بل پیش ہوجائے گا ،یہ بل تمام ریاستوں کو بھی بھیجاگیاتھا،کیوں کہ اس قانون کا نفاذ ریاستوں کو ہی کرنا ہے ،خبروںکے مطابق بی جے پی سرکار والی ریاستوں سے یہ بل منظور ہوچکاہے البتہ جہاں بی جے پی سرکار نہیں ہے وہاں سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں آسکا ہے ۔آثار بتارہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بھی یہ بل بآسانی پاس ہوجائے گا ۔
حکومت کا دعوی ہے کہ یہ بل مسلم خواتین کی خیر خواہی ،معاشرے میں ہونے والے مظالم سے نجات دلانے اور مردوں کے تسلط سے چھٹکا را دلانے کا لایا جارہاہے ،اس بل کے بعد مردوں کی جانب سے خواتین پر ظلم نہیں ہوپائے گا ، کوئی طلاق دینے کی جرات نہیں کرے گا اور ایسا کچھ کیا تو اسے تین سالوں کیلئے جیل کی سلاخوں میں جانا ہوگا ۔ جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں ۔آئیے ذرا اس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں ۔22 اگست 2017 کو تین طلاق پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہاتھا کہ یہ غیر آئینی ہے ،اگر کوئی ایک ساتھ تین طلاق دیتاہے تو وہ واقع نہیں ہوگی ،یعنی عدلیہ کی نظر میں میاں ۔بیوی کا رشتہ بعینہ برقرار رہے گا ۔اس فیصلے کی روشنی میں طلاق دینا نہ تو کوئی جرم ہے اور نہ قابل سزا عمل ،دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ اس تشریح کے مطابق تین طلاق دینا آسمان پر پتھر پھینکنے کے مترداف ہے جو لوٹ کر نیچے کی طرف ہی آئے گاکبھی آسمان پر نہیں جائے گا ۔اس فیصلہ کے بعد اب بی جے پی سرکار قانون بنارہی ہے ،اس قانون میں تین طلاق دینے والوں کیلئے تین سال جیل کی سزا تجویز کی گئی ہے اور یہ بھی وضاحت ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ تین سال کی سزا کس بنیاد پرشوہر کو ملے گی ،حکومت اور عدلیہ دونوں کہ رہی ہے کہ جرم کا وقوع نہیں ہوا ،طلاق نافذ نہیں ہوئی ،میاں ۔بیوی کے درمیان حسب سابق رشتہ برقرار ہے ۔اس صورت میں کسی کو جیل بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ آسمان کی طرف پتھر پھینکنے والے شخص کو جیل میں بند کردیا جائے ۔
ایک خاتون کیلئے اس کا شوہر سب سے بڑا سہاراہوتاہے ،بچوںکی کفالت وہی کرتاہے ،ساری ذمہ داریاں اسی کے سر ہوتی ہیں اب وہ اگر جیل میں تین سالوں کیلئے بند ہوگاتو بیوی کا نان نفقہ کون برداشت کرے گا ، بچوں کی کفالت کون کرے گااور سب سے بڑا سوال یہ ہے کے بیوی اور شوہر کو تین سالوں تک کس جرم کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جدار کھا جائے گا ، اس کی خواہاشت اورارمانوں کا کیا ہوگا ۔اس قانون کے بعد ممکن ہے تین طلاق کی شرح معاشرہ میں مزید کم ہوجائے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی صاحب کے طریقہ کو زیادہ فرو غ ملے گا ۔لوگ اپنی بیوی کو بغیر طلاق دیئے ہی جدا کردیں گے ،نہ تو تین سالوں کیلئے جیل جانا ہوگا اور نہ ہی نان ونفقہ کا بوجھ رہے گا ، سماج میں بھی کسی طرح کی رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔عورت تنہاءزندگی گزارنے پر مجبور ہوگی ،جسمانی تعلقات نہ قائم کرنے کی وجہ سے بھی بیوی عدلیہ میں کوئی مقدمہ درج نہیں کراپائے گی ۔ہندوستانی معاشرہ میں مردو وعورت کے درمیان بہت فرق ہے ،عزت وآبرو کے معاملے میں خواتین پر پورے سماج کی گہری نظر ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک بیوی ادھوری عورت بن کر رہ جائے گی ،نہ تو وہ اپنے خاوند کے ساتھ اپنی خوشحال زندگی بسر کرسکے گی اور نہ ہی اس کے پاس کہیں اور جاکر اپنا گھر بسانے کا موقع ہوگا ۔جسودا بین بن کر اسے معاشرہ میں رہنا ہوگا ۔
خلاصہ کلام یہ کہ تحفظ خواتین کے نام پر مودی حکومت مسلم خواتین کو جسودا بین کی طرح زنذگی گزارنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے ،ان کے اور شوہر کے درمیان فاصلہ بناکر ان کے جذبات اور خواہشات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کرہی ہے ،معاشرتی زندگی کو جہنم بنانے کی منصوبہ بندی ہے۔اسی کے ساتھ جیل میں مسلم نوجوانون کو بڑی تعداد میں جیل بھیجنے کا بھی موقع ملے گا ۔
stqasmi@gmail.com