تین طلاق پر مجوزہ بل غیر ضروری ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ بھی اس کیلئے ذمہ دار :پروفیسر اختر الواسع

نئی دہلی ۔23دسمبر(ملت ٹائمز)
تین طلاق کے سلسلے میں حکومت کی قانون سازی بدنیتی پر مبنی ہے اور اسے مسلم خواتین کے حق میں مخلصانہ اقدام نہیں کہاجاسکتاہے ،حکومت کو چاہئے تھاکہ وہ قانون بنانے سے قبل مسلم علماءاور اسکالر س کی رائے لیتی ۔ان خیالات کا اظہار معروف اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے ملت ٹائمز سے بات چیت کے دوران کیا ۔انہوں نے کہاکہ ماہرین قانون شریعت کا مطالعہ ضرور کرسکتے ہیں لیکن شریعت کے نکات اور مقاصد کو فقہاءہی سمجھ سکتے ہیں۔
پروفیسر اخترالواسع نے کہاکہ حکومت کی جانب سے ہونے والی قانون سازی او ر شریعت میں چھیڑ چھاڑ کیلئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا ءبورڈ بھی ذمہ دار ہے ،بورڈ کو خود ایک مسودہ بناکر پیش کر ناچاہیئے تھاکہ حکومت اس نہج پر آئین بنائے اور اس طر ح کی سزا دی جائے لیکن بورڈ نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی ، بورڈ نے مطلقہ خواتین سے بھی رابطہ نہیں کیا جس کی بنیاد پر انہیں عدالت کا سہارا لیناپڑی اور جب وہاں گئیں اس طرح ایک سیاسی پارٹی نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب استعمال کیا لیکن اس کیلئے ذمہ دار بورڈ ہے جنہوں نے ایسی خواتین کے مسائل کو سلجھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ کچھ علماءنے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے رکھا۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ ہمارے علماءتین طلاق کے وقوع کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بطور حوالہ پیش کرتے ہیں لیکن سزا کی کبھی بات نہیں کرتے ہیں ۔سزا نافذ کرنے کا مطالبہ خود بورڈ کو کرنا چاہیے تھا ،حضرت عمر بھی سماجی بائیکاٹ کرسکتے تھے لیکن انہیں کوڑے کی سزا دی ۔پروفیسر واسع نے یہ بھی کہاکہ طلاق کا تعلق معاشرتی امور سے ہے ،اس کو کریمنل ایکٹ کے تحت شامل کرنا بالکل غلط ہے ، سول ایکٹ کے تحت سزا ملنی چاہیئے ۔