ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قاسمیؒ کی قرآنی خدمات

محفوظ احمد ، ریاض

حضرات سامعین کرام!
وقت کی قلت کے پیش نظر بلا کسی تمہید کے میں اپنی بات شروع کرتا ہوں۔ آج کے اس پروگرام میں منتظمین کی جانب سے مجھے جو موضوع دیا گیا ہے وہ ہے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قاسمیؒ کی قرآنی خدمات

حضرات! جب ہم دنیا کے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذہبِ اسلام جتنی کم مدت میں دنیا کے اندر پھیل گیا اتنی مختصر مدت میں دنیا کا کوئی اور مذہب نہیں پھیل سکا۔ شاید یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے متبعین کو پسند نہ آئی اور وہ لوگ ہر طرح کی مخالفت پر اتر آئے۔ یہ مخالفت زمانہ کی تبدیلی کے اعتبار سے مختلف ہوتی رہی۔ چنانچہ سب سے بڑی مخالفت جو رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی کفار مکہ کی جانب سے کی گئی وہ یہ تھی کہ قرآن کریم اللہ کی نازل کردہ کوئی کتاب نہیں ہے بلکہ محمد (ﷺ)نے اسے اپنی طرف سے گڑھ لیا ہے۔ اس کا جواب کسی انسان کو دینے کی ضرورت نہیں پڑی بلکہ خود اللہ نے سورہ البقرہ کی آیت نمبر 23 نازل کی اورباشندگان مکہ کو چیلنج کیا چنانچہ فرمایا : *و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتو بسورۃ من مثلہ وادعوا شہدائکم من دون اللہ ان کنتم صادقین*۔ یہ ایک حیرت انگیز دعوی ہے جو ساری انسانی تاریخ میں کسی نے نہیں کیااور نہ بقید ہوش و حواس کوئی مصنف ایسا کرنے کی جراٌت کر سکتا ہے۔ کیوں کہ کسی بھی انسان کے کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھ دے جس کے ہم پایہ کتاب دوسرے انسان نہ لکھ سکتے ہوں۔ ہر انسانی تصنیف کے مقابلہ میں اسی درجہ کی دوسری تصانیف تیار کی جا سکتی ہیں۔ قرآن کا یہ کہنا کہ وہ ایک ایسا کلام ہے جیسا کلام انسانی ذہن تخلیق نہیں کر سکتا اور ڈیڑہھ ہزار برس تک کسی انسان کا اس پر قادر نہ ہونا قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ یہ ایک غیر انسانی کلام ہے۔ تاریخ میں چند مثالیں ایسی ملتی ہیں جب اس چیلینج کو قبول کیا گیا۔ میں یہاں پر صرف ایک مثال ذکر کرتا ہوں جو ایک مستشرق عالم Wollaston نے اپنی کتاب “Mohammad, his life and Doctrines, p. 143″ پر لکھا ہے That Mohammad’s boast as to the literary excellence of the Quran was not unfounded, is further evidenced by a circumstance, which occourred about a century after the establishment of Islam” یعنی یہ بات کہ قرآن کے اعجاز کلام کے بارے میں محمد کی شیخی غلط نہیں تھی ، یہ اس واقعہ سے ثابت ہو جاتا ہے جو اسلام کے قیام کے سو سال بعد پیش آیا۔ واقعہ یہ ہے کہ مخالفین اسلام نے جب دیکھا کہ قرآن بہت تیزی کے ساتھ لوگوں پر اثر کرتا جا رہا ہے تو انہوں نے سوچا کہ اس کے متوازی کوئی کتاب تیار ہونی چاہئے جو لوگوں کو قرآن کی طرف بڑھتے میلان سے روک سکے۔ چنانچہ منکرین اسلام کی ایک جماعت نے ایران کے ایک ادیب عبداللہ ابن المقفع ( (724 – 756 Hنامی شخص سے رجوع کیا، وہ اس زمانے کا ایک زبردست عالم ، بے مثال ادیب اور غیر معمولی ذہین انسان تھا۔ اس کو اپنے اوپر اتنا اعتماد تھا کہ وہ اس کام کے لئے راضی ہو گیااور کہا کہ میں ایک سال میں یہ کام پورا کر دونگا اس شرط کے ساتھ کہ اس پوری مدت میں اس کی تمام ضروریات کا مکمل انتظام ہونا چاہئے۔نصف مدت گذر جانے کے بعد جب لوگ اس کے پاس گئے تواس کو اس حال میں پایا کہ وہ بیٹھا ہوا ہے، قلم اس کے ہاتھ میں ہے، گہرے مطالعہ میں مستغرق ہے ، اس کی نشست کے پاس لکھ لکھ کر پھاڑے ہوئے کاغذات کا ایک انبار ہے ۔ اس انتہائی قابل شخص نے ایک بہترین قوت صرف کر کے قرآن کا جواب لکھنے کی کوشش کی لیکن وہ بری طرح ناکام رہا۔ اس نے انتہائی پریشانی کے عالم میں اعتراف کیا کہ صرف ایک فقرہ لکھنے کی جد و جہد میں اس کے چھہ مہینے گذر گئے مگر وہ نہ لکھ سکا چنانچہ نا امید اور شرمندہ ہو کر وہ اس خدمت سے دست بردار ہو گیا۔
جیسے جیسے وقت گذرتا گیا معترضین کے اعتراضات بھی ہلکے ہوتے گئے، پہلے قرآن کے خدائی کلام ہونے سے انکار کیا گیا تھا لیکن جب کوئی بات نہ بن پڑی تو اب قرآن کریم کے اندر تحریف کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ چنانچہ مستشرقین علماء جو کسی فن کے ریسرچ میں ید طولیٰ رکھتے ہیں کی جانب سے کبھی دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن کے الفاظ میں تحریف ہو چکی ہے تو کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کے نقطوں میں تغیر و تبدل کیا جا چکا ہے لیکن ان کے اس طرح کے دعوے ہر زمانہ میں اکاذیب باطلہ ثابت ہوئے ہیں ، وقت کے علماء کرام نے ان کا دنداں شکن جواب دیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں جب اسی طرح کے اعتراضات ان کی جانب سے کئے گئے تو مرحوم ڈاکٹر محمد مصطفے اعظمی قاسمی ؒ نے ان ہی کی زبان میں جواب دے کر نہ صرف انہیں خاموش کیا بلکہ یہ ثابت کر دیا کہ قرآن اپنے روز اول سے جیسا نازل ہوا تھا بعینہ آج بھی ویسا ہی باقی ہے اور رہتی دنیا تک اس کے ایک لفظ اور ایک نقطہ میں بھی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ مرحوم نے اس کے لئے انگلش اور عربی زبان میں مختلف کتابیں لکھیں جو مختلف ممالک سے شائع ہو کر پورے علمی دنیا میں پھیلیں اورجنہوں نے قرآن کریم کی تائیدمیں انتہائی مثبت رول ادا کیا۔ چنانچہ امریکہ کے “Atlantic Monthly” نامی میگزین میں ٹوبی لسٹر کے مضمون “قرآن کیا ہے ” ؟ جس میں اس نے یمن کے بعض مخطوطوں میں الف کی کتابت پر سخت اعتراضات کیے تھے اور اس کا مقصد حفاظت قرآن سے متعلق مسلمانوں کے عقیدہ کو متزلزل کرنا تھا؟ کے جواب میں آپ نے “The history of the Qur’anic Text, from Revelation to Compelation: A comparative study with the Old and New Testaments” لکھ کر پورے مغربی ممالک کے اسکالرز کو انگشت بدنداں کر دیا ۔ آپ نے اپنی اس کتاب میں قرآن کریم میں تحریف سے متعلق مستشرقین علماء کے دعووں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ ان کے ناپاک عزائم کھول کر رکھ دیے۔ قرآن کریم کے تدوین کی مدلل تاریخ بیان کی اور اس کے متن کے دائمی ہونے پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ ایسے ہی آپ نے اس کتاب میں صحابئ جلیل حضرت زید ابن ثابتؓ کے ذریعہ قرآن کریم کے جمع کرنے کی تفصیل بھی ذکر کی ہے۔ بعدمیں اس کتاب کا عربی ترجمہ *تاریخ النص القرآنی من الوحی الی التدوین: دراسۃ مقارنۃ مع العہد القدیم و العہد الجدید* کے نام سے کیا۔ یہ کتاب لندن کی اسلامی اکیڈمی سے 2003 ؁ ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔اس کے بعد کناڈا ، امارات، سعودی عرب اور کویت سے اس کے بے شمار ایڈیشنز شائع ہوئے۔ ترکی ، ملیشیائی اوردنیا کی متعدد زندہ زبانوں میں اس کے ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ *اے کاش کہ یہ کام اردو میں بھی ہوجاتا*۔
آپ نے اس موضوع پر دیگرکتابیں جیسے *تاریخ تدوین القرآن الکریم، التحدی القرآنی* اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں زندگی کی آخری کتاب جو لکھی وہ بھی اسی موضوع پر ہے جس کا نام ہے”Ageless Qur’ an- Timeless Text” یعنی النص القرآنی الخالد عبر العصور۔ 250 صفحات پر مشتمل یہ کتاب در اصل مستشرین کی جانب سے قرآن کریم کے متعدد نسخوں پر کئے جانے والے اعتراضات کا مدلل جواب ہے۔ اس کتاب کی تیاری میں ڈاکٹر مرحوم کے مکمل پندرہ سال صرف ہو گئے اور اس کے لئے آپ کو مختلف ممالک کے اسفار بھی کرنے پڑے ۔ دینا میں موجود قرآن کریم کے مشہور و معروف انیس (19) مخطوطوں کے درمیان موازنہ کر کے اس کتاب میں آپ نے یہ ثابت کیا ہے ڈیڑھ ہزار سال کے اندر قرآن کریم کے الفاظ میں ذرہ برابر کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوا ہے۔ کتاب کے ایک سو پچاس) (150 صفحات پر مشتمل مذکورہ مخطوطوں کے درمیان موازنہ اور پچاس پچاس صٖفحات پرعربی اور انگلش زبان میں آپ کا مفصل مقدمہ شامل ہے۔ یہ کتاب ترکی سے شائع ہو چکی ہے لیکن ابھی منظر عام پر نہیں آپائی تھی کہ علم و عرفان کا یہ چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہو گیا۔

بڑے کام کے آدمی تھے، اللہ مغفرت فرمائے.