مقصد جو بھی ہو مسلمانوں کے حق میں بہتر ہوا

خبردرخبر۔(539 )
شمس تبریز قاسمی
سبسڈی کا مطلب معاشی تعاون ہوتاہے ،حکومت یا غیر سرکاری تنظیموں کا مالی طور پر کسی کو کچھ فائدہ پہونچانا سبسڈی کہلاتاہے ،مختلف شعبوں میں حکومت کی طرف کی جانے والی امداد کو سبسڈی کا عنوان دیا جاتاہے جیسے ایکسپورٹ سبسڈی ،امپورٹ سبسڈی ،پروڈکٹ سبسڈی وغیرہ،ہندوستان میں بھی بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں حکومت سبسڈی دیتی ہے ،حج بھی ان امور میں اب تک شامل تھا جس میں مسلمانوں کو حکومت کی طرف سے امداد دی جاتی رہی ہے دوسرے لفظوں میں اس کی تشریح یوں کرسکتے ہیں کہ عازمین حج کے ٹکٹ کا جوکرایا ہوتاہے اس میں حکومت کچھ رعایت کردیتی ہے ۔مثال کے طور پر ہندوستان میں کل 21 مقامات سے حاجیوں کی ایئر انڈیا سے روانگی ہوتی ہے جس کا کرایہ حکومت طے کرتی ہے اور پھر اس میں کچھ رقم کم کردیتی ہے لیکن اب 2018 سے یہ نہیں ہوگا ۔
حج سبسڈی کی تاریخ بہت پرانی ہے ،تحقیق کی مطابق 1932 میں برٹش حکومت کے دور میں دی پورٹ حج کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کے تحت عازمین حج کی مدد کی جاتی تھی ۔آزاد ی کے بعد 1959 میں ایک قانون پاس کرکے حج کمیٹی کی تشکیل دی گئی تاہم نے حج پر سبسڈی دیئے جانے کا سلسلہ اس وقت کے وزیر اعظم پنڈٹ جواہر لال نہرو نے 1954 سے ہی شروع کردیاتھا ،حج سبسڈی پر ہمیشہ اعتراض بھی ہوتارہاہے،غیر مسلم بالخصوص شدت پسند ہندوعناصر حکومتوں پر مسلمانوں کی امداد کا الزام لگاتے رہے ہیں دوسری جانب مسلمانوں نے بھی کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ ہمیشہ اس کی مخالفت کی گئی ،مسلم قائدین اسے ایئر انڈیا کو فائدہ پہونچا نے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ حج سبسڈی کے نام پر حکومت مسلمانوں پر احسان کرنے کی دعوی کرتی ہے جبکہ اس کے پس پردہ ایئر انڈیا کو فائدہ پہونچایا جاتاہے ۔سچائی بھی یہی ہے کہ حج سبسڈی کے نام پرحکومت ہند ایئر انڈیا کو فائدہ پہونچاتی رہی ہے ۔عازمین حج کو ایئر انڈیا کے علاوہ کسی اور فلائٹ سے سفر کرنے کا اختیار نہیں ہوتاہے ،عام دنوں میں ہندوستان ۔سعودی عرب کا کرایہ 25000 روپے ہوتاہے جبکہ ایئر انڈیا میں عازمین حج کا کرایہ 70000 روپے سے شروع ہوتاہے ،ماہرین کا مانناہے کہ حکومت تین گناز یاد ہ کرایہ لیتی ہے ،کچھ رقم سبسڈی کے نام پر احسان جتانے کیلئے مسلمانوں کو دیتی ہے،بقیہ رقم ایئر انڈیااپنے پاس رکھتی ہے ۔حج سبسڈی کے خلاف مسلسل شور وغوغا ہونے کے بعد 2012 میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس آفتا ب نے یہ فیصلہ دیاتھاکہ رفتہ رفتہ حج سبسڈی ختم کردی جائے اور بچی ہوئی رقم کا استعمال اقلیتوں کے فلاح وبہبود کیلئے کیا جائے ،کانگریس نے اس فیصلے پر عمل شروع کردیاتھا ۔ سبسڈی کم ہونے لگی تھی ،2012 میں 836 کڑور روپے کی سبسڈی دی گئی تھی ،2013 میں 683 کڑورروپے کی سبسڈی ملی تھی ور 2017 میں سبسڈی کی رقم 200 کڑورروپے پر آگئی تھی ،معمول کے مطابق 2022 میں اسے ختم ہوجاناتھا لیکن کریڈٹ لینے کے شوق میں مرکز میں بر سر اقتدار این ڈی اے سرکارنے 2018 میں ہی اسے ختم کر دیاہے ۔
مودی سرکار کے اس فیصلے کا مقصد ہندﺅوں کومسلمانوں کے خلاف اقدام کا پیغام دینا اور اپنے بھگتوں کی تعداد بڑھاناہے،یہ پیغام بھی دینے کی کوشش کی گئی کہ ہے بی جے پی سرکار ہندتوا کے راستے پر عمل پیر ا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری جیسا رویہ اپنا رہی ہے انہیں حاصل ہر طرح کی سہولیات سے محرو م کررہی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ اعلان مسلمانوں کے حق میں بھی بہتر ہے، حج جیسے مقدس فریضہ کی ادائیگی کیلئے سرکاری تعاون کا الزام اب ہم پر نہیں لگے گا۔بہتر یہ ہوگا حکومت حج سے سبسڈی کا لفظ ہی ختم کردے ، مسلم خواتین کی تعلیم وترقی کیلئے سبسڈی کا رقم استعمال کرنے کے بجائے الگ سے فنڈ قائم کرے ،حج خدمات کیلئے گلوبل ٹینڈر کی اجازت دے اور ایئر انڈیا کی تخصیص کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے عازمین حج کو اپنی مرضی کا ایئر لائن منتخب کرنے کااختیاردے ۔حج کمیٹی 2018-22 نے جہاں حج سبسڈی ختم کرنے کی سفارش پیش کی تھی وہیں اس میں گلوبل ٹینڈر کا بھی مطالبہ کیا گیاتھا۔
stqasmi@gmail.com