محترم مولانا شمش تبریز قاسمی صاحب ——- ایڈیٹر ملت ٹائمز
ملت ٹائمز کو کامیابی کے دو سال مکمل کرنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد! ایک ایسے وقت میں ملت ٹائمز کا اپنی مو جودگی کا احساس دلادینا یقیناً ایک بڑی کامیابی ہے جبکہ دنیا بھر میں اور با لخصوص ہندوستان میں میڈیا ہاؤسس کے اندر مسلمانوں کی نمائندگی کے نہ ہونے کا رونا رویا جارہا ہے اور ستم بالائےستم یہ کہ ذمہ دار ان اور وسائل سے مالا مال اشخاص، ادارے اور تنظیموں کی جانب سے اس سمت میں خاطر خواہ کوششیں بھی نہیں ہو رہی ہیں۔ جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ موجودہ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اس وجہ سے بے سر و سامانی کے عالم میں ملت ٹائمز کی جانب سے وقت کے مزاج اور تیور کے حساب سے جو بساط بھر کوشش ہو رہی ہے وہ لائقِ صد تحسین ہے اور سر اُٹھا کر جینے کی ایک خوبصورت دعوت ہے کیونکہ آج ہم سب اس حقیقت سے اچھی طرح سے واقف ہیں کہ میڈیا کی حمایت جنہیں حاصل ہے اُن کی آواز کو بہرے بھی سنتے ہیں اور جن کو میڈیا کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے وہ زبان رکھ کر بھی گونگے ہیں۔
جب ہم مین اسٹریم میڈیا میں مسلمانوں کی کار کردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں انتہائی افسوس کے ساتھ اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس باب میں مسلمانوں کی تیاری تقریباً صفر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر موقعوں پر مسلمان ٹی وی ڈیبیٹ میں اپنی بات بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں رکھ پاتےجس سے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا موقف کمزور پڑتا نظر آتا ہے بلکہ جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی دو وجہیں ہیں۔ (1) مسلم نوجوانوں کا صحافت کو پیشہ وارانہ طور پر نہ اپنانا۔ (2) مسلمان دانشوران کاٹی وی ڈیبیٹ کے لئے پیشہ وارانہ طور پر تیار نہ ہونا اور ٹاک شوز میں بحث و مباحثہ کے جدید پیچ و خم کو نہ سمجھنا ہے۔
اس وقت عموماً مسلمانوں کی شکایت یہ ہوتی ہے کہ میڈیا میں ہمارا موقف سامنے نہیں آتا۔ یہ شکایت ہی در اصل غیر معقول ہے کیونکہ میڈیا کے مالک آپ نہیں ہیں اور ہر مالک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ چینل پر بیٹھے لوگ اپنے مالک کی پالیسی پر عمل کریں گے نہ کہ آپ کی۔ اگر سچی بات کی جائے تو مسلم میڈیا بحران کا پائیدار حل مسلم میڈیا ہاؤس کا قیام ہے جو پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر الیکٹرانک میڈیا پر بھی کام کرے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مسلم نوجوانوں کو صحافت سے جو ڑنے میں آسانی بھی ہوگی اور علماء و دانشوران کو اپنی بات کھل کر کہنے کا موقع بھی ملےگا۔یاد رکھئے! یہی واحد راست ہے مسلمانوں کو میڈیا ٹرائل کے شکار ہونے سے بچانے کا۔ اس پس منظر کے بعد ملت ٹائمز کا اپنی حوصلہ مندانہ کوششوں سے مسلم میڈیا ہاؤس کا تصور پیش کرنا یقیناً اپنے حصے کا چراغ جلا دینے کے مترادف ہے۔ ——— اس جرأت مندانہ کوشش کو سلام!
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستانی مسلمان مالی طور پر اتنا مستحکم ہیں کہ وہ ملت ٹائمز جیسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرکے اسےآگے بڑھا سکیں؟ اس کا جواب صد فیصد اثبات میں ہے کیونکہ منجملہ ہندوستانی مسلمان ایک ملت ٹائمز نہیں بلکہ کئی چینل چلانے کی صلاحیت کھتے ہیں۔ آج ہندوستانی مسلمان مختلف شعبہ جات میں کروڑوں روپے صرف کر رہے ہیں بڑے بڑے تعلیمی اداے بنا رہے ہیں مختلف انڈسٹریز قائم کر رہے ہیں، بس ضرورت ہے اس جانب ان کی توجہ مبذول کرانے کی اور میڈیا ہاؤس کے قیام کو اُن کی ترجیحات میں شامل کر نے کی۔ اگر مسلم قیادت آزادی کے سترسال بعد ہی سہی ملت ٹائمز جیسی کوششوں کی سرپرستی اور میڈیا ہاؤس کے قیام میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ ایسا ہوگا گویا کہ انہوں نے بے زبان ہندوستانی مسلمانوں کو زبان کا تحفہ عطاء کردیا جس کے بعد یقیناً مسلم آواز کو دبانا ناممکن ہو جائے گا۔ انشاء اللہ
والسلام
جب ہم مین اسٹریم میڈیا میں مسلمانوں کی کار کردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں انتہائی افسوس کے ساتھ اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس باب میں مسلمانوں کی تیاری تقریباً صفر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر موقعوں پر مسلمان ٹی وی ڈیبیٹ میں اپنی بات بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں رکھ پاتےجس سے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا موقف کمزور پڑتا نظر آتا ہے بلکہ جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی دو وجہیں ہیں۔ (1) مسلم نوجوانوں کا صحافت کو پیشہ وارانہ طور پر نہ اپنانا۔ (2) مسلمان دانشوران کاٹی وی ڈیبیٹ کے لئے پیشہ وارانہ طور پر تیار نہ ہونا اور ٹاک شوز میں بحث و مباحثہ کے جدید پیچ و خم کو نہ سمجھنا ہے۔
اس وقت عموماً مسلمانوں کی شکایت یہ ہوتی ہے کہ میڈیا میں ہمارا موقف سامنے نہیں آتا۔ یہ شکایت ہی در اصل غیر معقول ہے کیونکہ میڈیا کے مالک آپ نہیں ہیں اور ہر مالک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ چینل پر بیٹھے لوگ اپنے مالک کی پالیسی پر عمل کریں گے نہ کہ آپ کی۔ اگر سچی بات کی جائے تو مسلم میڈیا بحران کا پائیدار حل مسلم میڈیا ہاؤس کا قیام ہے جو پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر الیکٹرانک میڈیا پر بھی کام کرے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مسلم نوجوانوں کو صحافت سے جو ڑنے میں آسانی بھی ہوگی اور علماء و دانشوران کو اپنی بات کھل کر کہنے کا موقع بھی ملےگا۔یاد رکھئے! یہی واحد راست ہے مسلمانوں کو میڈیا ٹرائل کے شکار ہونے سے بچانے کا۔ اس پس منظر کے بعد ملت ٹائمز کا اپنی حوصلہ مندانہ کوششوں سے مسلم میڈیا ہاؤس کا تصور پیش کرنا یقیناً اپنے حصے کا چراغ جلا دینے کے مترادف ہے۔ ——— اس جرأت مندانہ کوشش کو سلام!
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستانی مسلمان مالی طور پر اتنا مستحکم ہیں کہ وہ ملت ٹائمز جیسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرکے اسےآگے بڑھا سکیں؟ اس کا جواب صد فیصد اثبات میں ہے کیونکہ منجملہ ہندوستانی مسلمان ایک ملت ٹائمز نہیں بلکہ کئی چینل چلانے کی صلاحیت کھتے ہیں۔ آج ہندوستانی مسلمان مختلف شعبہ جات میں کروڑوں روپے صرف کر رہے ہیں بڑے بڑے تعلیمی اداے بنا رہے ہیں مختلف انڈسٹریز قائم کر رہے ہیں، بس ضرورت ہے اس جانب ان کی توجہ مبذول کرانے کی اور میڈیا ہاؤس کے قیام کو اُن کی ترجیحات میں شامل کر نے کی۔ اگر مسلم قیادت آزادی کے سترسال بعد ہی سہی ملت ٹائمز جیسی کوششوں کی سرپرستی اور میڈیا ہاؤس کے قیام میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ ایسا ہوگا گویا کہ انہوں نے بے زبان ہندوستانی مسلمانوں کو زبان کا تحفہ عطاء کردیا جس کے بعد یقیناً مسلم آواز کو دبانا ناممکن ہو جائے گا۔ انشاء اللہ
والسلام
مدثر احمد قاسمی
لکچرر: مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر،ممبئی
اسسٹنٹ ایڈیٹر:ا یسٹرن کریسنٹ
ڈیلی کالم نگار: روزنامہ انقلاب، ممبئی