ہے مشق سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی

ڈاکٹر یامین انصاری

مغربی بنگال اردو اکادمی نے حال ہی میں اردو صحافت کے مسائل اور امکانات کے موضوع پر کولکاتہ میں ایک دو روزہ سیمینار کا اہتمام کیا۔ راقم الحروف بھی دہلی سے اُن تین صحافیوں میں شامل تھا، جنھیں اس سیمینار میں اپنے خیالات پیش کرنے کے لئے دعوت دی گئی تھی۔ اکادمی نے یقیناً ایک ایسا موضوع منتخب کیا تھا، جو اپنے آپ میں بہت وسیع تو تھا ہی، ساتھ ہی موجودہ وقت اور حالات میں اس پر بحث و مباحثہ کی ضرورت بھی ہے۔ در اصل اس وقت ملک کے حالات کا جائزہ لیں تو نہ صرف اردو صحافت، بلکہ کسی بھی زبان کی صحافت کے سامنے مختلف قسم کے مسائل ہیں۔ لیکن اردو صحافت کو کئی محاذ پر مشکلات اور پریشاینوں کا سامنا ہے۔ کہیں سرکاری سطح پر اردو کے صحافتی اداروں کو نظر انداز کرنے کی شکایت ہے تو کہیں سرکاری مراعات سے ہاتھ کھینچ لینے کا شکوہ۔ کہیں وسائل کا فقدان ہے تو کہیں ترسیل کا مسئلہ۔ کہیں اخبارات کے مالکان پریشان ہیں تو کہیں کارکنان پریشان حال۔ غرض یہ کہ اردو صحافت کے مسائل اور امکانات پر واقعی قومی سطح پر بحث اور تبادلۂ خیال کرنے کی ضرورت ہے۔ اور نہ صرف غور و خوض کیا جائے، بلکہ اس کے سد باب کے لئے عملی اقدامات بھی کئے جائیں۔ مذکورہ سیمینار میں شرکت کے بعد اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ اردو اخبارات و رسائل کے سامنے تو مسائل ہیں ہی، یہاں کام کرنے والے اردو صحافیوں کے پاس شکایات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ یہ بات اس لئے قلم بند کی ہے کہ سیمینار کے دوران مقامی صحافیوں نے اپنے مقالات پیش کرنے کے دوران جو رویہ اختیار کیا، اور جس طرح اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا، اس نے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا اردو صحافت کو مسائل کا سامنا ہے یا پھر اردو صحافت خود ہی ایک مسئلہ ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اردو زبان خود اپنے آپ میں مکمل تہذیب ہے اور اردو کے جلسوں و محفلوں کی روایت رہی ہے کہ تہذیب کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ اور پھر اردو زبان کا تو خاصہ ہی یہ ہے کہ اس کے ذریعہ تلخ سے تلخ بات بھی شیریں لب و لہجہ میں کی جا سکتی ہے۔لیکن کلکتہ کے سیمینار میں تو ماجرا ہی الگ تھا۔ اکثر مقالہ نگار صحافیوں کا فوکس مقالے پر کم شکایات پر زیادہ تھا۔ انھوں نے یہیں پر بس نہیں کیا، بلکہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع غنیمت جان کر ہر وہ بات کہہ ڈالی کہ جو ایک اردو کی محفل اور خاص طور پر سیمینار کے اسٹیج سے نہیں کی جانی چاہئے تھی۔ آخر کار صدر جلسہ کو اپنی سیٹ چھوڑ کر مائک پر آنا پڑا۔ جب انھوں نے اردو زبان کی تہذیب و روایات کا حوالہ دے کر گفتگو کی تو کچھ معاملہ ہلکا ہوا۔ بہر حال، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اردو صحافیوں کے، خاص طور پر ورکنگ جرنلسٹ کے اپنے مسائل ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ اردو اخباروں میں ملنے والی تنخواہ ہے۔ اردو اخبارات کے بڑے اداروں کو چھوڑ دیں تو واقعی اردو کے زیادہ تر صحافیوں کو معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کا نام لینا تو یہاں مناسب نہیں، لیکن کئی ایسی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ اردو کے صحافیوں کی زندگی دوران ملازمت تو آلام و مصائب سے بھری رہتی ہی ہے، آخری ایام میں بھی انھیں سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی ایسی تنظیم نہیں، کوئی ایسا ادارہ نہیں جو معاشی طور پر کمزور ان اردو صحافیوں کی ضرورت پڑنے پر کسی طرح کی مدد کر سکے۔ مذکورہ سیمینار کے دوران مقامی صحافیوں نے ایک ایسے پہلو کی جانب بھی شکایتی لہجہ اختیار کیا کہ اردو اخبارات کے مالکان اور ان کے یہاں ملازمت کرنے والے صحافیوں کے درمیان مالی بنیاد پر ایک بڑی خلیج ہوتی ہے۔ یہ شکایت بہت عام ہے، جو کولکتہ کے صحافی ہی نہیں، دہلی اور دیگر علاقوں کے اردو صحافی گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں۔ یہ شکایت تھوڑی غیر ضروری غیر فطری معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ جب ہم اس پیمانے پر دیکھیں تو صرف اردو اداروں یا اخبارات کے مالکان ہی نہیں، باقی شعبوں میں بھی نظر ڈالنے پر یہی فرق نظر آئے گا۔ یہ تو شاید ممکن بھی نہیں ہے کہ مالکان اور ملازمین ہم پلہ اور مساوی حیثیت رکھتے ہوں۔ ظاہر ہے یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہو سکتا۔ لیکن ، ہاں اگر بات استحصال تک آجائے تو یقینا اس کے خلاف آواز بلند کرنا چاہئے۔ لیکن اس کے لئے بھی اگر انکساری اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات کی جائے تو ممکن ہے کہ کچھ حد تک مسئلہ حل ہو جائے۔ کیوں کہ مالکان کے بھی اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ آج کل یہ مسائل کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں۔ لہذا مالکان اور کارکنان دونوں کے سامنے ہی جب اس طرح کے مسائل ہیں تو کیوں نہ ایک پہل ایسی کی جائے کہ واقعی ملت کا درد رکھنے والے حضرات سے اس سلسلہ میں تبادلہ خیال کیا جائے اور کوئی ایسی تنظیم تشکیل دی جائے جو ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ تنظیم ایسی ہو جو نشستن، خوردن، برخاستن تک محدود نہ رہے، بلکہ مسائل پر سنجیدگی سے غور کرکے ان کے سد باب کی کوشش بھی کرے۔ وہ زمانہ نہیں رہا جب صحافت کوئی پیشہ نہیں، بلکہ ایک مشن ہوا کرتی تھی۔ مین اسٹریم میڈیا کا جو حال ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ ایسے میں اردو صحافت کا کیا رونا رویا جائے۔
اب ذرا تاریخ میں اردو صحافیوں کی ملک و قوم کے لئے دی گئی قرباینوں پر بھی نظر ڈال لیں۔ یوں تواردو صحافت کو آغاز سے ہی مصائب کا سامنا رہا ہے۔ شروع سے اب تک اردو صحافت نے بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں۔اردو صحافت کے آغاز سے ہی بے باک اور بے خوف، علم و عمل کے شیدائی نامور صحافیوں نے اپنے قلم کو دشمن طاقتوں کے خلاف جیسے وقف کردیا تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک صحافت صرف کوئی پیشہ یا پیسہ کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھی، بلکہ انہوں نے فنکارانہ ہنرمندی کے ساتھ اپنے افکار و خیالات سے صحافت کو ایک نئی سمت عطا کی۔ ان صحافیوں نے ایک طرف ہندوستانی عوام کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ کی تو دوسری طرف ان کے جذبۂ ایمان میں حرارت پیدا کی۔اردو قارئین میں آزادی کی تڑپ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ آپس میں اتحاد و اتفاق اور باہم بھائی چارے کو فروغ دینے کی بھی پوری کوشش کی۔ ظاہر ہے جب ہم ملک میں اردو صحافت کے مسائل، کردار، اہمیت و ضرورت اور اس کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو لامحالہ جد و جہدِ آزادی میں اس کے مثالی کردار سے ہی اس کی شروعات کرنا ہوگی۔ ملک کی آزادی کی جدوجہد میں اردو زبان و ادب کا اور بطور خاص اردو صحافت کا جو رول رہا ہے وہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ اس سے پہلو تہی کرنا ممکن نہیں۔ ۲۲۸۱ء میں کلکتہ سے پہلے اردو اخبار ’جام جہاں نما‘ کی شکل میں اردو صحافت کا آغاز ہوا تو اس وقت ہندوستان میں فرنگی حکومت کے خلاف جد و جہد آزادی کا بگل بج چکا تھا۔ انگریز اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے اور اردو اخبارات کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھتے تھے۔ وہ معاشرے میں اس کے اثر و رسوخ اور عمل و کردار کو لے کر ہمیشہ پریشان رہا کرتے تھے۔ اس لیے اس نے ان اخبارات کے خلاف کئی طرح کے اقدامات کیے، نئے نئے قانون بناکر ان کو پابندِ سلاسل کرنے کی کوشش کی ، اردو ایڈیٹروں کو ہر طر ح سے ڈرایا دھمکایا اور قید وبند کی سزائیں دیں۔ ہر طرح کی صعوبتوں کے باوجود اردو صحافیوں کے قدموں میں لغزش تک پیدا نہیں ہوئی ، وہ بلا خوف و تردد تختۂ دار پر چڑھ گئے، سلاخوں کے پیچھے جانے کو تیار ہوگئے، مگر اپنے مشن سے کبھی منحرف نہیں ہوئے۔ یہ اردو صحافت کی خوش قسمتی ہے کہ اردو ادب کے ممتاز دانشوروں، شاعروں، ادیبوں نے اردو صحافت کی عملی رہنمائی کی۔ فہرست تو کافی طویل ہے لیکن ان میں مولوی محمد باقر، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، حیات اللہ انصاری، غلام رسول مہر اور جالب دہلوی وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ لہذا مولانا حسرت موہانی کے اس شعر کے ساتھ یہ گفتگو یہیں ختم ہوتی ہے۔ کہ ؎
ہے مشق سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی
ایک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی۔
( مضمون نگار معروف صحافی اور روزنامہ انقلاب کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں