26جنوری کوفرقہ وارانہ تشدد۔29جنوری کواقلیتی کمیشن کی میٹنگ لیکن کا س گنج کا کوئی تذکرہ نہیں

نئی دہلی۔8فروری
ملت ٹائمزسہیل اختر قاسمی
اتر پردیش کے کاس گنج میں یوم جمہوریہ کے موقع پر پیش آئے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعہ پراقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی سب سے بڑی آئینی باڈی کے ذریعہ غیرحساسیت کے مظاہرہ کاانکشاف ہواہے۔۶۲جنوری کوکاس گنج میں زبردستی ترنگایاترانکالنے پرمعاملہ اتناطول پکڑاکہ ہندومسلم کشیدگی تک بات پہنچ گئی۔۳روزتک مسلسل پورے علاقے میں سخت تناو¿رہااورایک خاص طبقہ اوران کے املاک پرحملہ کرنے کے واقعات بھی سامنے آتے رہے۔ملک بھرمیں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس فسادکی تفصیلات نشراورشائع ہوتی رہیں۔۳روزبعدقومی اقلیتی کمیشن کی قومی راجدھانی میں میٹنگ ہوتی ہے،جس میں اقلیتی کمیشن کے چیئرمین سیدغیورالحسن سمیت نائب چیئرمین جارج کورین،ارکا ن میں سنیل سنگھی،سلیکھاکمبھارے،خورشیدکے دستور،منجیت سنگھ رائے،کمیشن کے سکریٹری جے راماکرشنا،ایڈیشنل سکریٹری اجوئے کمار،ڈپٹی سکریٹری این اے صدیقی،انڈرسکریٹری اے سین گپتااورشارق سعید شامل ہوئے اوراس میٹنگ میں کاس گنج کاقضیہ سرے سے غائب رہتاہے۔ذرائع کے مطابق’۹۲جنوری کوجب کمیشن میں ۱۱بجے میٹنگ شروع ہوتی ہے اور مختلف ایشوزپرتبادلہ خیال ہوتاہے۔ کمیشن کے ذریعہ بودھ کانفرنس کے انعقادکی تجویز،ارکان کے دورہ کی رپورٹس اورکمیشن کے بجٹ پرتبادلہ خیال ہوتاہے؛مگرکاس گنج کے قضیہ پربات چیت نہیں ہوتی۔کمیشن کی میٹنگ میں کاس گنج کے قضیہ پربات نہیں کرنے کاانکشاف خودکمیشن کے ’منٹس آف میٹنگ‘سے ہوتاہے۔کیونکہ کمیشن کے منٹس آف میٹنگ میں کاس گنج کے فسادکے قضیہ کاذکرتک نہیں۔کاس گنج جیسے حساس مسئلہ پرکمیشن کے ذریعہ ۳روزبعدبھی خاموشی نہیں توڑے جانے نے خودکمیشن کی ساکھ پرسنگین سوالات کھڑے کردئے ہیں۔
کمیشن کے نائب چیئرمین نے ۹۲تاریخ کی میٹنگ میں کاس گنج فرقہ وارانہ تشددکے قضیہ کومیٹنگ میں شامل نہیں کرنے کی دلیل دیتے ہوئے کہاکہ’کاس گنج میں اکثریتی فرقہ کے لڑکے کاقتل ہواتھا،اس لئے ہمارے یہاں یہ معاملہ نہیں آیا۔‘فرقہ وارانہ تشدداوراقلیتی طبقہ کی املاک کونقصان پہنچانے کے سوال پرانہو ں نے نمائندہ کوبتایاکہ’اقلیتی کمیشن کامعاملہ اس وقت نہیں بن رہاتھا،اس لئے ایشونہیں آیا۔‘جبکہ کمیشن کے چیئرمین سیدغیورالحسن کاکہناہے کہ کاس گنج تشددکے بعدکمیشن میں جوپہلی میٹنگ ہوئی اس میں فرقہ وارانہ تشددپربات ہوئی جس کے بعدکمیشن نے یوپی حکومت سے رپورٹ مانگی۔منٹس آف میٹنگ میں اس ایشوکوشامل کیوں نہیں کیاگیا؟اس کاجواب نہیں تھا۔
اس حوالے سے اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین وجاہت حبیب اللہ(ریٹائرڈآئی اے ایس)نے کہاکہ’کاس گنج کے معاملہ میں کمیشن کوکیاایکشن لیناچاہئے اس پرمیں کوئی ردعمل نہیں دونگا،جہاں تک بات ہے اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی پرکمیشن کے ذریعہ کاروائی کی تومیں کہناچاہونگاکہ کمیشن نے اس سے پہلے کئی بارجلدازجلدازخودکاروائی کری ہے ۔‘
واضح ہوکہ اترپردیش کے کاس گنج میں ترنگایاترانکالنے کی ضدنے دوگروپ میں فسادکی شکل اختیارکرلی تھی۔افواہوں کابازارگرم ہونے اورگھٹیاسیاست کی وجہ سے ماحول مزیدخراب ہوگیاجس میں ایک کی جان چلی گئی جبکہ ایک فردایک آنکھ سے محروم ہوگیا۔اس پورے معاملہ میں مرکزی حکومت کے ذریعہ رپورٹ طلب کی گئی وہیں قومی اقلیتی کمیشن نے بھی کاس گنج کے معاملہ میں دلچسپی لیتے ہوئے اترپردیش کے چیف سکریٹری سے رپورٹ مانگنے کی ہدایت جاری کی ہے۔کل ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے یہ دعویٰ کیاکہ کاس گنج میں فسادمنصوبہ بندطریقے سے کیاگیاتھا۔اب سوال یہ اٹھتاکہ کاس گنج کے معاملہ میں کاروائی کرنے میں اقلیتی کمیشن نے تاخیرکیوں کی؟ کاس گنج کے فرقہ وارانہ تشددکے ۳روزبعدبھی کمیشن نے اس قضیہ پربات کیوں نہیں کی؟اوراگرتبادلہ خیال کیاگیاتواسے کس مقصدکے مدنظررسمی نوٹ میں شامل نہیں کیا؟آخرکمیشن نے چپی کیوں باندھے رکھی؟۔
suhailakhtar@inquilab.com
(بشکریہ روزنامہ انقلاب)


مدرسہ سراج العلوم فتح پور(چھٹملپور ،ضلع سہارنپور) میں 10 فروری کو تحفظ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ،اہم علماءکرام کی ہورہی ہے شرکت ،یہاں کلک کرکے جانیں مکمل تفصیلات